donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Beauty
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Ayub
Title :
   Maa Bachche Wali Warzish

 

ماں بچے والی ورزش


محمد ایوب 

اگر آپ گھریلو عورت ہیں، اور ماں بن چکی ہیں، تو آپ اپنے بچے کو ساتھ لے کر ورزش کریں اس طرح آپ آسانی سے ورزش کرسکیں گے، اگر آپ کا بچہ تین سال کا ہے تو اور گول مٹول ہے، جبکہ آپ کے بازو اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ اس بچے کو آسانی سے اٹھا کر چاروں طرف گھما سکیں، تو پھر اپنے بچے کو ایک بازو سے اوپر اٹھانے کی کوشش کریں۔اب بچے کو ایک بازو کی مدد سے چاروں طرف گھمائیں۔اگر آپ کے بازو اور پشت کمزور ہے تو اس بچے کے وزن کی وجہ سے آپ کی پشت پر کھنچائو آئے گا، شروع میں آپ پشت اور کمر میں درد محسوس کریں گی، لیکن اس قسم کی ورزش سے آپ کے جسم کو بہت فائدہ ہوگا، اس سے آپ کے بازو مضبوط ہوں گے،آپ کی پشت میں توانائی آئے گی، اور پوری کمر کے مسلز کو قوت حاصل ہوگی۔یہ ورزش آپ کے جسم کو سڈول کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔بھاری کولہوں والی عورتیں آسانی  سے اور پوری طرح بچے کو اوپر تک نہیں اٹھا سکتیں اور نصف مرحلے میں ہی رہ جاتی ہیں۔آپ اگر شروع میں نصف حد تک ہی اٹھا سکیں تو حوصلہ نہ ہاریں اور مشق جاری رکھیں، جب آپ کے ہاتھ جاندار ہوجائیں اور توازان بحال ہوجائیتو اس مشق کے ذریعے آپ بچے کو سر کے اوپر تک لے جاسکیں گی۔

                              
ابتدا میں اس ورزش سے آپ کے جسم کے نچلے دھڑ کو بہت فائدہ ہوگا اور اس کا فاضل وزن گھٹ جائے گا، اس حصے کے مسلز توانا ہوجائیں گے اور جسم سڈول بن جائیگا، جب آپ اس بات پر قادر ہوجائیں گی اور بچے  کو اوپر اٹھانے لگیں گی، تو پھر وہاں خود پر آپ کے جسم  کے اوپری دھڑ کو اس ورزش سے بے حد فائدہ ہوگا اس ورزش سے نہ صرف آپ کی چھاتیاں درست ہوکر فطری شکل میں آجائیں گی۔


بلکہ پورے سینے اور شانوں کی بہتریں نشو نما میں مدد ملے گی، اس طرح آپ کے حسن و جاذبیت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔


جب آپ کی مشق  میں اضافہ ہوگا تو اس سے آپ کے اوپر والے دھڑ میں وزن کم ہوگا، تو قوت توانائی میں اضافہ ہوگا اور نچلے دھڑ میں دبلاپن آئے گا، یقینا آپ کا جسم ہلکا پھلکا اور اسی طرح کا ہوا دار شاندار ہوجائے گا جیسا آپ اس کے بارے میں تصور رکھتی ہیں۔


آپ کو اس ورزش سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاھئیے، اس لئے کہ آپ کو ایک پونڈ وزن کے کولہوں والے اینکل ویٹ خریدنے چاھئیں، یہ زیادہ مہنگے نہیں ہوتے ہیں لیکن ان اوزان کی وجہ سے آپ کو مدافعانہ ورزشیں سر انجام دینے میں بے حد آسان ہوگی، ان سے آپ کے جسم اور اس کے خطوط کو فائدہ ہوگا۔


جسم میں دلکشی اور سڈول پن آجائے گا، یہ ایک پونڈ وزن کے ہوتے ہیں، اسی لئے زیادہ مہنگے نہیں ہوگے، اور یہ جسم  پر بھی زیادہ بار نہیں ڈالیں گے، ان کی وجہ سے نہ صرف آپ کے جسم کی دلکشی میں اضافہ ہوگا، بلکہ اس طرح بہت جلدی آپ مد افگانی ورزشیں کرنے لگیں۔۔۔۔اچھا پریشان نہ ہوں۔یہ تو بے حد ہلکے وزن ہیں، ان اوزان کے ساتھ ورزش کرکے آپ مشہور زمانہ باڈی بلڈر خاتون راکیل بنجائیں گی، جو راکیل میکلش کے نام سے مشہور ھیں ، جب آپ ان ہلکے اوزان کی مدد سے ورزش کریں گے، تو کولہوں کا یہ وزن آپ کے اوپری بدن کے خطوط کو خاص طور سے چھاتیوں کی درستگی میں اہم رول ادا کرے گا آپ کی چھاتیاں اس ورزش سے اس قدر متناسب ہوجائیں گی، جس طرح ایک نوجوان لڑکی کی چھاتیاں دیدہ زیب ہوتی ہیں۔

                             
اس کے بعد آپ خود ہی اس ہلکے وزن کے فوائد اور اس کے مزاج سے لطف اندوز ہونے لگیں گی خود بخود آپ کی ورزش کے وقت میں اضافہ ہوجائے گا۔


اس سلسلے میں ایک بات بطور خاص دھیان میں رکھیں۔
اگرآپ کبھی کبھی بالکل بے حس  و حرکت ہوجاتی ھیں تو پھر اس ورزش اور تقریا ہر ورزش سے پہلے آپ کو اپنا طبی معانئہ ضرور کرانا چاھئیے اور یقینی طور پر صرف اس وقت یہ ورزشیں کریں جب آپ کا ڈاکٹر اس بات کی اجازت دے، غالبا اس صورت مین آپ کا معالج ضرور کچھ غذائوں کے بارے میں خصوصی ہدایت دے گا اور یہ بات آپ کیلئے مناسب ہوگی۔


جہاں تک آپ کے پورے جسم کا معاملہ ہے تو آپ اپر باڈی ٹولز کا استعمال جاری رکھیں ان کی مدد سے آپ کے پورے جسم کی دلکش و رعنائی قائم ہوسکتی ہے۔


 بچے کھانے کھانے سے کیوں کتراتے ہیں؟

                            
اکثر خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کا بچہ کچھ کھاتا نہیں ، زبردستی کھلانا پڑتا ہے، دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کیا کریں، کہ بچہ کھانے کی جانب راغب ہوجائے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچے کے ہر عمل کو جانتے ہیں حالانکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا، بچہ کے ہر عمل کو جانتے ہیں اکثر ایسا نہیں ہوتا، بچہ والدین کے ذہن سے سوچنے کے عمل میں بہت پیچھے ہوتا ہے، والدین کو بچہ بن کر اس کے مسائل سمجھنیکی کوشش کرنا چاھئیے۔اکثر گھروں میں ہر فرد اپنی بھوک، وقت اور سہولت کے مطابق کھانا کھاتا ہے سب لوگ اکھٹے نہیں کھاتے یہ فعل بچے کے اندر کھانے کے متعلق محبت یا شوق کا جذبہ پیدا نہیں ہونے دیتا، ڈائنگ ٹیبل یا دسترخوان پر اکھٹا کھانا کھاتے وقت گھر کے تمام افراد ایک دوسرے سء منسلک ہوجاتیہیں اس لئیے اگر بچہ کھانا کھا رہا ہے تو کبھی باپ ماں یا بہن بھائی اور دادر وغیرہ بچے کو پیار سے کسی نہ کسی طرح کھانا کھلا دیتے ہیں۔عموما ایسا ہوتا ہے کہ بچے کھانا کھانے سے دور بھاگتے ہیں، یا پھر بہت کم خوارک کھاتے ہیں ایسے میں والدین بچوں کو زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ بچوں کی صحت کیلئے مضر بھی ثابت ہوسکتا ہے، بچہ ذہنی طور پر کھانے کیلئے تیار نہیں ہوتا لہذا اس کا نظام ہاضمہ بھی درست طریقے  سے کام نہیں کرتا ہے، لہذا اسیے میں جو خوراک دی جائے اس کا صحت پر منفی اثر پڑے گا۔اگر ایسا آپ کے بچے کے ساتھ ہوتا ہے تو کوشش کریں کہ بچوں کیلے نت نئی ڈشز تیار کریں یعنی یکسانیت کا شکار نہ ہوں، کھانا ایسا ہو جو نہ کہ مزیدار ہو بلکہ غذائیت سے بھر پور بھی، تاکہ بچے کو جس تنسب اور مقدار میں غذائیت کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملے اگر بچہ ایک مرتبہ میں مناسب مقدار میں غذا نہیں لے رہا تو اے ہلکے پھلکے غذائیت سے بھر پور اسنیکس کھلائیں، مثلا سینڈوچز، بچوں کے پسندیدہ اسنیکس بے شمار ہوتے ہیں جس میں مرغی، مچھلی یا گوشت استعمال ہوسکتا ہے جس سے بچے کو پروٹین اور توانائی حاصل ہوتی ہے اس کے علاوہ دودھ اور دودہ سے بنی ہوئی اشیا بھی مفید ثابت ہوتی ہیں دودھ میں کیلشئیم موجود ہوتا ہے جو نا چرف دانتوں اور ہڈیوں کی مظبوطی کا ضامن ہے بلکہ مجموعی طور بھی صحت کیلئے بے حد ضروریاور لازمی ہے اسیے کھانے اور غذا کو بچوں کی خوراک کا حصہ بنالیں جن میں آئرن بھی شمل ہو اس سلسلے میں ہری سبزیاں، پھلیاں اور سلاد وغیرہ استعمال ہوسکتے ہیں، وٹامنز بھی بچوں کی صحت کیلئے بے حد ضروری سمجھے جاتے ہیں، ویسے تو تمام وٹامنز صحت کیلئے مفید ہیں مگر وٹامن سی زیادہ اس لئیے اہم ہے کہ یہ خوراک سے فولاد کے حصول کو یقنین ممکن بنانے میں زیادہ مددگار ثابت  ہوتا ہے، وتامن سی کے حصول کا بہترین ذریعہ سنگترا یا س کا رس ہوسکتا ہے، خشک میوھ جات بھی بچوں کیلے مفید ثابت ہوتیہیں، ویسے خشک میوہ جات کھانے کا ایک نقصان یہ ہیکہ  اگر انہیں ویسے کھایا جائے تو ان کے ذرات دانتوں پر چپک جاتے ہیں جس سے دانتوں کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے، لہذا بہتر یہ ہوتا ہے کہ نا میوہ جات کو دیگر کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ بچوں کو کھانیکو دیں کیونکہ کھانا کھاتے وقت جو تھوک بنتا ہے اس سے خشک ذرات دانتوں پر نہیں چپکتے ہیں، میوہ جات آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ماں کو چاھئیے کہ وہ کھانے کے دوران بچے کو کہانی یاکوئی اور دلچسپ بات سناتی رہیں، اس طرح بچہ متوجہ ہوکر کھائیگا چھوٹے بچوں کی خوارک کا شیڈول اکثر مائیں تبدیل نہیں کرتی ہفتے بھر بچے کو دلیہ کھلاتی رہتی ہیں لہذا بچہ تنگ آکر کھانے سے انکار کردیتا ہے تو وہ زبردستی کھلاتی ہیں بلکہ اکثرکوشش کرتی ہیں اکثر مائین تو بچے کو لٹا کر زبردستی منھ کھول کے چمچے سے اس کے حلق میںانڈیل دیتی ہیںبچہ چیختا ہے مگر ان پر اثر نہیں پڑتا ہے، ضروری ہے کہ بچے کیلئے روز نہیں تو تیرے دن خوارک ضرور بدل دیں خوراک بدلنے سے مراد نرم اور  زود ہضم کے بجائے سحت ثقیل چیزیں نہیں بلکہ دلئیے کو فیرکس،کارن فلیکس، سیریلیک، دودھ سوجی، کیلا، ساگودانہ کی کھیر، سوپ وغیرہ سے بدل دیں۔

ماں نے بچے کی خوراک کا وقت  متعین کیا ہوتا ہے جو کسی حد تک صیح ہے مگر بچہ اگر درمیان میں بسکٹ مانگ لے یا فیڈر کے دو گھونٹ پینا چاھے تو کئی حرج نہیں کیونکہ بچے کے جسم میں جب گلو کوز کی کمی ہوتو وہ کچھ طلب کرتا ہے لیکن مائیں اس بات کو نہیں سمجھتیں ان کے خیال میں بچہ پیٹ بھر کر کھا چکا ہے اس لئیے اب اسے اور کھانے کی کیا ضرورت ہے؟ یاد رکھیں  بچہ صرف بھوک محسوس کرنے پر ہی نہیں مانگتا بلکہ اگر وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرے یا ماں کی توجہ حاصل کرنا چاھے تو کسی اور طریقے سے کامیاب نہ ہونے پر دودہ مانگے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت  ماں اس کو کو گود میں لے کر یا پاس لتا کر دودھ پلائے گی، بچہ صرف بے وقت بھوک اس صورت میں محسوس کرے گا جب آپ نے خوراک اسے دوپہر میں یا صبح دی ہو اسے تسلی بخش طریقے سے نہیں کھا سکا یا اس خوراک میں متوازن غذا کا خیال نہیں رکھا گیا اس کے علاوہ کوئی مزیدار چیز دیکھ کر یا ماں یا کسی مہمان کو دیکھ کر بھی اس میں بھوک کا احساس پیدا ہوسکتا ہے، بچوں کے ساتھ ساتھ اس عمل سے بڑے بھی مبرا نہیں ہیں۔


جن گھرانوں میں ماں نوکری کرتی ہے وہاں اکثر آیا کو بچے کیلئے مقرر کردیا جاتا ہے، بچہ ماں کی شفقت اور پیار بھرا چہرا اپنے اردگرد نہیں دیکھتا تو  اکیلے پن کا احساس اسے گھیر لیتا ہے، اور بچہ کی بھوک کا سوئچ آف ہوجاتا ہے، اور وہ کھانے کی طرف راغب نہیں ہوتا ہے یا بہت تھوڑا کھانا کھاتا  ہے آیا اسے اپنے لئیے مصیبت سمجھتی ہے اور جھڑک دیتی ہے جس سے بچہ اور بگڑ جاتا اور اسے کھانے سے نفرت ہوجاتی ہے۔


بچے کے کئی نفسیاتی مسائل مثلا ضد، چڑ چڑا پن، بیجا رونا، توڑ پھوڑ کرنا وغرہ خواراک کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں بچے کی خوراک اگر غذائیت سے بھر پور نہیں تو بچہ بے چین ہوکر روئے گا چیزیں ادھر  ادھر  پھینکیگا اگر کھانے کے وقت بے جا ضد کرے تو بجائے ڈانٹنے کے آپ ضدکی وجہ معلوم کریں، ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے ہاتھ سے کھانا چاہتا ہو یا ڈائینگ ٹیبل کے بجائے فرش یا قالین پر بیٹھ کر کھانا چاہتا ہو یا کہیں درد محسوس کر لیا ہومگر آپ کو بتانا پا رہا ھو ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے کسی شخص سے خوف زدہ ہو یا اجنبیت محسوس کر رہا ہو۔


بچوں کو کھانا دینے کے سلسلے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جب بھی بچوں کو کھانا دیں وہ بہت زیادہ گرم نہ ہو کیونکہ بہت زیادہ گرم کھانا انہیں اس خوف میں مبتلا کردیگا کہ کہیں انکا منہ جل نہجائے اور یوں انہین تکلیف کا احساس ہوگا اگر کھانے میں سالن یا شوربہ کی مقدار بہت کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بچے کو خواراک نگلنے میں مشکل درپیش آئیگی لہذا ایسی ڈشز بنانے کو ترجیح دین جس مین سالن کا تناسب زیادہ ہو۔


بچوں کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی لانے میں ماں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کم کھانا یا بالکل نہ کھانا بہت خطرناک یا مہلک بات نہیں ہے بلکہ ماہرین کے مطابق یہ بات اس چیز کی نضاندہی کرتی ہے کہ بچہ نارمل طریقے سے بڑا ہورہا ہے اور اپنی خودمختاری دکھانا چاہتا ہے۔
ضروری نہیں کہ اگر بچہ کہان نہیں کھا رہا ہے تو محض کھانا کھلانے کی خاطر ہمیشہ بچے کی پسندیدہ غذا تیار کریں، کیونکہ بچپن میں جو عادات پختہ ہوجائیں  گی وہی عادات بعد میں بھی قائم و دائم رہیں گ، مثال کے طور پر اگر بچہ صرف میٹھی اشیا کھانا پسند کرتا ہے تو یہ باتس درست نہیں کہ ہمیشہ میٹھا بنا کر کھلایا جائے ویسے بھی زیادہ میٹھا کھانا دانتون کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ بڑی عمر تک پہنچنے کے بعد ذیابطیس کا باعث بھی بنتا ہے۔


ایک ہی قسم کی غذا دیان محض اس وجہ سے کہ وہ غذائیت بخش ہے درست نہیں ہے مثلا اگر بچہ سبزیوں میں صرف مڑ کھانا 


پسند کرتا ہے تو اس کے علاوہ دیگر سبزیاں کھلانے کی طرف بھی راغب کریں جو کہ اسی رنگ اور غذائیت والی ہوں، اگر بچہ کھانا نہیں کھاتا تو زبردستی نہ کریں اور اگر کھا لیتا ہے تو اس کی تعریف کریں ایسا کرنے سے بچیمیں یہ احساس اجاگر ہوگا کہ میرے والدین خصوصا ماں خوش ہوتی ہے، اور نہ کھانے پر ناراض نہیں ہوتی ہے تو وھ خود بخود کھانے کی طرف راغب ہوجائیگا، بس بچے کے ساتھ زبردستی نہ کریں کہ یہ منفی اثرات ک اسبب بنتا ہے اور بچہ بھی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اس کے علاوہ گھر کے افراد اکہٹے کھانا کھائین اور کھانے کھاتے وقت حتی لاماکن جھگڑے سے پریز کریں کہ بچہ محسوس نہ کرے کہ کھانا ایسا فعل ہے جس میں سب لڑتے ہیں اور اس سوچ کی بنا پر وہ کھانے کی طرف راغب نہین ہوگا، کھانا کھاتے وقت ایک دوسرے پرچیخنا چلانا یا ڈانٹ ڈپت کرنا بھی بچے کو کھانے سے نفرت دلاتا ہے لہذآ ان باتوں کا خاص خیال رکھا جائے تو بچہ کھانے کی طرف راغب ہوسکتاہے۔      

********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 1055