donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Election in India 2014
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Modi Ko Kejriwal Par Ghussa Kiyon Aaya

 

 مودی کو کیجریوال پر غصہ کیوں آیا؟


نہال صغیر 

غصہ بزدلی اور خوف کی علامت ہے ۔لیکن بعض دفعہ غصہ کمزوری کی وجہ سے بھی آتا ہے ۔جب انسان مجبور ہو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا تو اسے غصہ آتا ہے ۔مودی کو بھی غصہ آگیا ۔ویسے انہیں غصہ تو آتا ہی رہتا ہے ۔اب یہ نہ پوچھیں کہ انہیں کس بات پر غصہ آیا ۔پہلے ہی وضاحت کی جاچکی ہے کہ غصہ کسے اور کیوں آیا کرتا ہے ۔مودی کے سامنے اپنے استاد اڈوانی کا حشر ہے ۔جنہوں نے خونی رتھ پر سوار ہو کر وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کا خواب دیکھا لیکن نائب سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔

ان کا نام تاریخ میں نئے زاویہ ’’ وزیر اعظم کی کرسی کے منتظر‘‘ کی حیثیت سے درج ہو گیا ۔آج بیچارے یاس اور ناامیدی کی اتھاہ کھائی میں گرتے جارہے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ اپنے ہی لوگوں میں اجنبی بن گئے ۔غالباً اڈوانی کے درد کو مودی نے محسوس کر لیا ۔اورمستقبل کی بھیانک صورتحال سے خوف زدہ ہو کر اول فول بکنے لگے ۔غور کریں مستقبل کی ان صورتحال کو محسوس کرنا اور اس سے خوف سے لرزنا غیر متوقع نہیں ہے ۔آخر ان کے سامنے ان کے گروکا حشر واضح ہے ۔مودی کو بھی اڈوانی کی ہی طرح خون کا دریا بہاکر اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑا ہے اور وہ اسی خونی کھیل کے سہارے وزارت عظمیٰ کے امید وار بنے ہیں۔لیکن مستقبل کی صورت گری کرنے والے احکم الحاکمین نے ہر فرعون کو اسی خونی دریا میں ڈبو کرتباہ و برباد کیا ہے ۔

مودی کا زر خرید میڈیا دن رات جھوٹ گڑھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پایا کہ مودی ہی ہندوستانی عوام کے واحد نجات دہندہ ہیں ۔میڈیا کی اس جھوٹی کہانی پر پانی پھیرنے والا کیجریوال ہی تو ہے جس نے مودی کے سامنے آہنی دیوار کی حیثیت اختیار کرلی ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی اور بی جے پی کے اس غبارے سے ہوا نکالنے کا کام کانگریس کرتی ۔لیکن کانگریس نے سوائے مودی اور بی جے پی کوفائدہ پہنچانے کے اور کوئی کام نہیں کیا ۔گجرات کی ہی مثال لے لیجئے جہاں کانگریس کی کوئی مضبوط لیڈر شپ نہیں ہے ۔اس سے یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہئے کہ مودی کو درپردہ کانگریس نے سپورٹ ہی کیا ہے۔ورنہ مودی جیسے جھوٹے ،مکار اور سطحی سوچ اورمنفی ذہنیت کے لوگوں کو سیاسی طور پر کنارے لگانا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔بعض سیاسی مبصرین کی مانیں تو کانگریس نے تاریخ میں پہلی بار الیکشن 2014 سے قبل ہی اپنی ہار مان لی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی ریاستی اور ضلعی اکائیوں میں انتخابی چہل پہل بالکل بھی نہیں دکھائی دیتا ۔


اوپر بیان کئے گئے حالات مودی اور بی جے پی کے حق میں تھے ۔کیوں کہ کانگریس نے مودی اور بی جے پی کے لئے میدان خالی چھوڑ دیا تھا ۔ایسے وقت میں جب کہ مودی سینہ پھلائے وزیر اعظم ہند کی کرسی کا خواب دیکھنے میں مگن تھے ۔کیوں کہ کوئی ان کے مقابل نہیں تھا۔کیجریوال کے اوتار نے مودی کو اچانک مایوسی کے اندھے سرنگ میں پہنچا دیا ۔ پوری دنیا مودی کے اس جھوٹ پر ایمان لے آئی تھی کہ مودی گجرات کے مثالی وزیر اعلیٰ ہیں اور گجرات مودی کی رہنمائی میں ترقی کے کئی منازل طے کر چکا ہے ۔لیکن حقیقت پسندوں اور ماہر معاشیات کی طرح کیجریوال کو بھی مودی کا جھوٹ اور لاف گزاف کچھ ہضم نہیں ہوا ۔وہ دلی سے سیدھے گجرات میں آدھمکے ۔گجرات کے دیہات اور گاؤں کا دورہ کیا ۔انہیں احساس ہو گیا کہ گجرات کی ترقی کا شور صرف شہروں میں ہوئی معمولی ترقی تک محدود ہے ۔اسی پربس نہیں کیا کیجریوال مودی سے ملاقات کو بھی پہنچ گئے اور ان سے سوالات کرنے کی خواہش کی ۔لیکن مودی بھلا سچائی کا سامنا کیسے کر سکتے تھے سو انہوں نے ملاقات سے انکار کردیا ۔کیجریوال کی اس پیش قدمی سے مودی کو گجرات کی محفوظ سیٹ بھی ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔لیکن پارٹی نے تو انہیں ہر حال میں وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے ۔اس لئے وارانسی کی سیف سیٹ انہیں پیش کی گئی ۔جس کیلئے کئی قدآور لیڈر کی قربانی بھی دی گئی ۔پر کیجریوال تو وہاں بھی سیندھ لگانے پہنچ گئے ۔اب بے چارے مودی کی جیت وہاں سے بھی پکی نہیں ہے ۔جائیں تو کہاں جائیں۔


اب آپ ہی بتائیں کہ مودی کو کیجریوال پر غصہ کیوں نہیں آئے گا ۔آخر ’’عآپ‘‘ کو کس نے یہ حق دے دیا کہ وہ مودی کے منھ کا نوالہ چھینیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جنوں میں وہ بک دیا جو ایک وزیر اعظم جیسے عہدہ کے امیدوار کو زیب نہیں دیتا ۔لیکن مودی کے لئے یہ سب معمول کی بات ہے ۔کیوں کہ وہ گجرات میں یہی کچھ کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کو سبق سکھا کر عوام کو یہ سبق دیا کہ اگر ملک میں ہندوتوا بنام مودی حکومت بن گئی تو پورے ملک میں ایک خاص طبقہ کو اسی خونی دریا میں ڈبودیاجائے گا۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ۔گجرات فساد کے دوران جن لوگوں نے الیکٹرانک میڈیا کا مشاہدہ کیا ہوگا انہیں بخوبی معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح میڈیا کو گجرات فساد کا سچ دکھانے کی پاداش میں دھمکا یا کرتے تھے ۔یہی نہیں انہوں نے فسادات کے احوال معلوم کرنے جانے والے وفود کو تحفظ دینے سے بھی انکار کردیا تھا۔لیکن بعد میں جیسا کہ کیجریوال نے کہا کہ میڈیا مودی کے ہاتھوں بک گیا ہے وہ گجرات کا سچ نہیں دکھا رہا ہے ۔جس سے میڈیا نے بہت تلخی بھرے سوالات کیجریوال سے کرنے شروع کئے تھے ۔وہ تو خیر منائیے کہ ٹی وی چینلوں کو اپنی سا لمیت کا بھی ڈرہے ۔ ورنہ وہ ٹی آر پی کی پرواہ کئے بغیر عآپ یا کیجریوال کو کوریج دینا ہی بند کردیتے جیسا کہ ان کی تنظیم نے دھمکی بھی دی تھی ۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ ٹی آر پی کی وجہ سے عآپ یا کیجریوال سے صرف نظر نہیں کر سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ مودی نے اے کے 47 سے خوف زدگی کے بعد دوسرے اے کے 49 سے بھی اپنی خوف زدگی اور بے چارگی ساتھ ہی اپنی کمزوری کا کھلے عام اظہار کیا۔دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے الیکشن میں اے کے 49 بی جے پی اور مودی کیلئے کتنی ذلت آمیز شکست کاسبب بن سکتے ہیں۔

************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 489