donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Election in India 2014
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Narendra Modi Electronic Media Ke Wazir E Azam


 

 

نریندر مودی الیکٹرونک میڈیا کے وزیر اعظم


نہال صغیر


الیکشن 2014 کو بھارت کی تاریخ کا سب سے فیصلہ کن الیکشن کہیں تو بیجا نہیں ہوگا ۔اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم مان لیں کہ بی جے پی اور کانگریس دو الگ نظریات کی پارٹی ہے ۔تو یہ حالات سے سے ظاہر ہے کہ دونوں کیلئے ہی فیصلہ کن اور کرو یا مرو والی پوزیشن ہے ۔ویسے دونوں کا دو الگ نظریہ مان لینا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ۔جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد 65 سالہ کانگریسی دور حکومت میں ہونے والے فسادات اور مسلمانوں سے برتے جانے والے امتیازات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ بی جے پی اور کانگریس میں زیادہ کچھ فرق نہیں ہے ۔فرق اگر ہے تو اتنا کہ آزادی سے قبل کانگریس دو حصوں میں منقسم تھی تشدد پسند اور گاندھی جی کی قیادت والی اہنسا وادی ۔آزادی کے بعد کانگریس اور بی جے پی (یا جن سنگھ،ہندو مہاسبھا وغیرہ) نرم ہندوتوا وادی اور سخت گیر ہندوتوا وادی۔ یہی کھیل ابھی بھی کھیلا جارہا ہے ۔آر ایس ایس کے موجودہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی ان باتوں نے مجھے کوئی حیرت میں نہیں ڈالا تھا کہ سنگھ کے لوگ سبھی پارٹیوں میں ہیں یہاں تک کمیونسٹ پارٹیوں میں بھی ۔میں اس بات کو بھی نہیں مانتا کہ آر ایس ایس کسی ہندو اسٹیٹ کو قائم کرنا چاہتی ہے بلکہ وہ ایک برہمن اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہے ۔جس میں ذات پات کا ظالمانہ اور غیر انسانی نظام قائم ہوگا اس میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہوگی اسے تو درکنار کیا جائے لیکن اس میں خود اس گروہ سے تعلق رکھنے والے پسماندہ طبقات کا کیا ہوگا وہ ان کی سوچ اور ان کی منو وادی سیاست سے ظاہر ہے جس کو ہزاروں سالوں کی تاریخ نے محفوظ کیا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی دلت وزیر اعظم نہیں بنا ہاں صدرجمہوریہ بنا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۔


موجودہ الیکشن کا بگل بجنے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ خواہ راہل گاندھی کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ ایجنسی سے جوڑنا ہو ،مولانا محمود مدنی کا کانگریس کے بارے میں بیان ’’صاف چھپتے بھی نہیں پاس آتے بھی نہیں ‘‘ والا ہو یا بہار کے بی جے پی کی ہونکار ریلی میں آئی بی کی اختراع انڈین مجاہدین کے ذریعہ دھماکہ ہو یہ سب سوچے سمجھے پلان کا حصہ ہیں ۔اس میں سے کوئی بھی اچانک وقوع پذیرنہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سردار پٹیل کے نام کو گھسیٹا جانا بھی الیکشنی منصوبہ کا ہی حصہ ہے تاکہ اگر کچھ ووٹ ادھر ادھر ہو تو سردار پٹیل کی ہندوتوا والی پوزیشن کو کیش کروایا جائے ۔اور سب کچھ بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ بالکل منصوبے کے مطابق انجام دیاجارہا ہے ابھی تک کہیں بھی کوئی روکاوٹ نہیں آئی ہے ۔کانگریس بھی اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے RTI ،RTE منریگا اورغذائی تحفظ بل کو بھی کوئی خاص حصولیابی نہیں مل سکے گی ۔بی جے پی ،سنگھ اور کانگریس کے اندر کے سنگھیوں نے مل کر بہت بڑا الیکشنی گیم پلان تیار کیا ہے ۔رفتہ رفتہ انہوں نے مودی کو وزیر اعظم کا امید وار بناہی دیا ۔اس میں پورا الیکٹرانک میڈیا شامل ہے اور ظاہر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یوں ہی شامل نہیں ہے کتنے ارب روپئے دئے گئے ہونگے اور کئی خوشنما وعدے ہونگے اس کو کہا نہیں جاسکتا نہ ہی یہ کبھی منظر عام پر آسکتا ہے ۔کیوں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔آج بروزجمعہ 8 ؍نومبر کو نریندر مودی کی انتخابی ریلی جو کہ اتر پردیش کے بہرائچ میں تھی جس طرح دس سے زیادہ انگلش اور ہندی نیوز چینلوں نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا وہ کہانی بیان کرنے کیلئے کافی ہے کہ دراصل نریندر مودی کو سرمایہ داروں اور الیکٹرانک میڈیا نے وزیر اعظم کا امید وار بنایا ہے ۔دوران ٹیلی کاسٹ یہ جاننے کی بار بار کوشش کی کہ دیکھیں عوام کی تعداد کیا ہے لیکن سبھی چینل بڑی عیاری سے اس کا کوریج کررہے تھے ۔وہ عوام کو دکھاتے تو ایک خاص زاویہ سے اور وہ بھی اتنی تیزی کے ساتھ آپ اندازہ ہی نہیں لگاسکتے ۔یعنی اتنا خرچ کرنے اور میڈیا کو مینج کرنے کے باوجود عوامی طور پر نریندر مودی کے جادو کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔پھر بھی جس طرح ایک ایک مہرے اپنی اوقات کے حساب سے آگے بڑھائے جارہے ہیں اس کی وجہ سے قبل از وقت کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔


نریندر مودی بڑی چالاکی سے دو باتوں کو اپنی الیکشنی کمپین میں بیان کرتے ہوئے نظر آئے پٹنہ میں دھماکہ کو کانگریس کی سازش بتایا اور دوسرے گجرات کی ترقی کا شور جس کی ہوا کئی بار نکل چکی ہے ۔لیکن بہرحال اتر پردیس اور بہار میں جو پسماندگی ہے وہ عوام کے مزاج کو کبھی بھی بدل سکتا ہے ۔گرچہ بہار میں نتیش کی حکومت نے بجلی کی حالت کچھ بہتر کی ہے جہاں ہفتہ میں ایک دو گھنٹہ بجلی ہوا کرتی تھی اس بار وہاں بھی روزانہ آٹھ سے دس گھنٹہ بجلی دیکھی گئی اور شہروں میں بیس بائیس گھنٹے بجلی آرہی ہے ۔اتر پردیش میں لیکن ابھی بھی حالت ویسی ہی ہے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ اکھلیش حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں کوئی جادو نہیں ہو سکتا لیکن تبدیلی تو بہر حال نظر آنی چاہئے ۔تبدیلی آئی بھی ہے لیکن وہ ڈیڑھ سو سے زیادہ فسادات کی صورت میں ۔جس سے اتر پردیش کا مسلمان کافی ناراض ہے ۔امن و قانون کی دیگر صورت حال پر بھی اکھلیش حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔جس سے یقیناًمخالف قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔اکھلیش کا طلباء کو لیپ ٹاپ اور ودھیا دھن یوجنا کتنا کارگر ثابت ہوگا اور یہ کہ اس میں بی جے پی کس قدر سیندھ لگا سکتی ہے یہ وقت بتائے گا ۔ایسی صورت میں بی جے پی کو فائدہ تو ہوگا ہی لیکن اسقدر نہیں جس قدر میڈیا میں شور مچایا جارہا ہے اور بی جے پی آر ایس ایس اور ان کے ہمنوا دکھا رہے ہیں کہ گویا بس اس بار مودی ایک کرشماتی شخصیت بن کر ابھریں گے اور بی جے پی کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگادیں گے ۔ایسا کچھ ہوتا تو پٹنہ سمیت آج کی بہرائچ کی ریلی میں عوام کا جم غفیر نظر آتا لیکن مودی کی کرشماتی شخصیت کا سارا بھانڈا ہی پھوٹ گیا جہاں عوام کی عدم دلچسپی ان کی تعداد کی کمی سے صاف نظر آرہی تھی ۔اگر بی جے پی کو کوئی چیز فائدہ پہنچاسکتی ہے تو وہ کانگریس کی منافقت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی آپسی سر پھٹول اور کئی لوگوں کا پی ایم ان ویٹنگ میں ہونا ۔اور یہ بھارت اور اس کے عوام کی بد قسمتی ہی کہی جائیگی کہ جب فرقہ پرستوں کو ٹھکانے لگانے کا پورا موقع موجود تھا جب بھی یہ متحد ہو کر کچھ نہیں کر سکے پھر چاہے قیامت تک فرقہ پرستوں کو کوستے رہنے سے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہونا ۔ 


نہال صغیر
۔ موبائل۔9987309013  
sagheernehal@gmail.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 733