donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Election in India 2014
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Aqraba Parwari Ki Seyasat Jamhuriat Keliye Khatarnak


 

اقرباپروری کی سیاست جمہوریت کیلئے خطرناک


صابررضارہبر


کبھی سیاست ملک وقوم کی خدمت کا سب سے موثراوربہترین ذریعہ خیال کیاجاتاتھا۔خودغرضی ا ورمفادپرستی کی گہری چھاپ ہونے کے باوجودسیاست میں اخلاقیات کی قدروقیمت مسلم تھی ۔انتخابی میدان میں اتارنے کیلئے امیدوارکے خاندانی شجرہ سے زیادہ اس کی قابلیت اوراس کی کارکردگی کا پاس رکھاجاتاتھا لیکن اب سیاست کی رت بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی جارہی ہے۔سیاست اب عوام کی خدمت نہ رہ کر سیاسی آقاؤں کے ذریعہ اپنے جانشینوں کوعوام کے سرتھوپنے کاذریعہ بنتا جارہا ہے۔ہندوستان میں یہ بیماری علاقائی پارٹیوںمیں بڑی تیزی سے سرایت کرتی جارہی ہے۔ نیشنل کانفرنس ،انڈین نیشنل کانگریس ،بیجوجنتادل ،سماج وادی پارٹی ،راشٹریہ جنتادل اورلوک جن شکتی  پارٹی،راشٹریہ لوک دل کے سربراہان کے ذریعہ اپنے بیٹے،بیٹی،بہو،بھائی اوردیگرشتہ داروںکوپارٹی کیلئے خون پسینہ بہانے والے کارکنان پرفوقیت دینے کی تاریخ توکم ازکم یہی بتارہی ہے۔

 پیر کا بیٹا ہی پیر ہوگا،یہ سیاست نہ ہوئی باپ دادا کی قبروں کی مجاوری ہوگئی۔کانگریس میں راہل گاندھی کو تمام عہدیداران پر اس لئے فوقیت دی جاری ہےکہ وہ سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کے فرزند اورنہرو خاندان کے وارث ہیں ،اسی لئے پارٹی کی کمان انہیں کے ہاتھوںمیں ہوگی اوراپنے سیاسی مشیرکی بیساکھی کے اشارے پر اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ اسی طرح اڈیشہ میں بیجوپٹنایک کی سیاسی وراثت کو نوین پٹنایک ہی سنبھالیں گے۔جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ جب مرکزی سیاست میں آئے تو ریاست کی زمام اپنے بیٹے عمرعبداللہ کے ہاتھوںمیں تھمادی۔ ملائم سنگھ یادونے  نہ صرف اکھلیش  یادوکو وزیراعلیٰ بنادیا بلکہ بہوکوممبرآف پارلیمنٹ اوربھائی کو وزیربنادیا۔خود لوک سبھا میں پارٹی کی قیادت سنبھالتے ہیں تو دوسرابھائی راجیہ سبھا میں پارٹی کی باگ ڈورسنبھال رہا ہے۔ آرجے ڈی سپریمولالوپرسادیادواورایل جے پی کے سربراہ رام ولاس پاسوان کا حالیہ فیصلہ اس صورت حال کی بد ترین مثالیں ہیں۔لالویادونے اپنے بیٹوںکوسیاست کے میدان میں اتارنے کے بعد اپنی بیٹی کوبھی باضابطہ لوک سبھا کی انتخابی جنگ میں اتاردیا ۔رام ولاس پاسوان نے فلمی دنیا میں ناکام ہوچکے چراغ کوپھرسے جلانے کیلئےاپنے بیٹے کوپارٹی کے پارلیمانی بورڈ کا نہ صرف چیئرمین بنادیا بلکہ لوک سبھا بھیجنے کیلئے گھٹیاسیاست پراترآئے اوربی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی سے اتحاد کرلیا ۔


اگرآرجے ڈی کی بات کریں تو لالویادوشروع سے ہی پارٹی کے تجربہ کارلیڈران پر اپنے اہل خانہ کوترجیح دینے کی پالیسی پرعمل کرتے رہے ہیں ۔چارہ گھوٹالہ کے سبب جب لالویادوکووزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑی تواس وقت انہوں نے پارٹی کے سینئرلیڈران پر اپنی بیوی کو ترجیح دی اورایک ان پڑھ خاتون کوکچن سے اٹھاکر وزیراعلیٰ کی کرسی پربراجمان کردیا ۔حالاں کہ اس وقت پارٹی میں متعددتجربہ کاراورسیاسی شعوررکھنے والے افرادموجودتھے ۔لالویادوکے اس فیصلہ کے خلاف اس وقت کچھ لیڈروں نے صدائے احتجاج بلند بھی کیاتھا لیکن اسے دبادیاگیا۔لالویادوکواس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا لیکن انہوں نے اس سےکوئی سبق نہیں لیا۔ بی اے میں فیل اورکرکٹ میں ناکام اپنے دونوں بیٹوں تیج پرتاپ اورتیجسوی کوپریورتن ریلی کے موقع پرلانچ کردیا اوراب انہوں نے میسا بھارتی کولوک سبھا کا ٹکٹ دے کر بیٹی کو سیاسی وارث اعلان کر دیاہے کیونکہ فی الحال بیٹے کی عمرکم ہے اور وہ الیکشن نہیں لڑسکتے۔اپنی پارٹی کواقرباپروری کا ذریعہ بنانے والے تقریباً سبھی سورمائوںکواندرونی مخالفتوںکا سامنا کرنا پڑاہے ۔ لالویادوکے فیصلہ کے خلاف جہاں ان کے سب سےزیادہ قریبی سمجھنے جانے والے راشٹریہ جنتادل کے ہنومان رام کرپال یادونے انہیں ٹھینگا دکھادیا وہیں رام ولاس پاسوان کے اکلوتے رکن اسمبلی نے ان سے ناطہ توڑلیادیگرپارٹیوںمیں بھی اس طرح کے مثالیں ملتی ہیں۔


سیاست میں کسی پارٹی کے سربراہ کے بیٹے یاان کے اہل خانہ کے داخلہ کواس وقت ممنوع یا معیوب نہیں سمجھاجائے گا جب اس شخص کے اندرسیاسی شعورہولیکن اگر محض بڑے سیاسی لیڈرکے بیٹے ،بھائی یا پھران کے رشتہ دارہونے کو سندمان کرسیاسی تجربہ کارمان بیٹھنا جمہوریت اورحقیقت دونوںکے خلاف ہے۔جمہوریت کیلئے ایسے افرادسود منداس لئے نہیں ہوسکتے کیوںکہ سیاست میں کئی بارایسے موڑآتے ہیں جہاں اپنے پرائے کی تمیز سے پرے ہوکرسخت فیصلہ کرنے پڑتے ہیں ؛کسی نااہل فردسے ایسے فیصلہ کی توقع نہیں کی جاسکتی ہےاورفردکی نااہلی ہی حقیقت کی ضدہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی ماہرین نے سیکولرزم کیلئے اقرباپروری کی سیاست کوسم قاتل کے مترادف قراردیاہے ۔مشہورفلاسفرافلاطون نے توحکمراں شخص کیلئے سخت ترین نظریہ پیش کیاہے ۔افلاطون کے مطابق اقتدارپرفائزشخص کو زن،زراورآل واولاد سب سے الگ رہنا چاہئے۔پہلی نظرمیں افلاطون کے اس نظریے کو پاگل پن کی پیدوارکہہ کر اسے مستردکردیاگیاکیوںکہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن میرے خیال سےماہرین سیاست نے اس نظریہ کی تہہ میں جھانکنے اوراس کے پس منظرکوسمجھنے کی صالح کوشش نہیں کی ۔افلاطون کے عہداوریونان کی سیاسی روایت کا مطالعہ، افلاطون کے فلسفہ کو سمجھنے میں بڑی معاون ثابت ہوسکتاہے ۔اس وقت یونان کی سیاست میں بھی اقرباپروری پروان چڑھ رہی تھی اورنااہل قائدقوم کے سرتھوپے جارہے تھے ،نتیجتاً اہل اقتدارملک وقوم کی فلاح وبہبودپراپنی توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنے رشتہ داروںکی عیش وعشرت اوران کے روشن مستقبل کوترجیح دے رہے تھے ،یونان کے اسی رجحان نے افلاطون کوسقراط جیسے ماہراستادسے محروم کردیااورنام نہادجمہوریت پسندوں نے سقراط کوموت کے گھات اتاردیا۔یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے افلاطون کوحکمراں شخص کے تئیںانتہاپسندانہ نظریہ اپنانےپرمجبورکردیا۔ہندوستان میں آج کل جس طرح کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اورجمہوریت کے تحفظ وبقاکے نام پراقرباپروری کی روایت مضبوط ہورہی ہے اگرایسے حالات میںکوئی افلاطون کے نظریہ کی حمایت کرے تو اسے ذہنی مریض قراردینے سے قبل اس مضمرات پرضرورغورکرنا چاہئے۔

اس حقیقت کاعلم ہونے کے باوجودکہ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات ہندوستانی جمہوریت کیلئے ایک امتحان ہے ؛تجربہ کارسیاسی قائدین کا اپنے نااہل اولادکومیدان انتخاب میں اتارنے کا فیصلہ دوراندیشانہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اسے تودشمن کی راہ آسان کرنے کی ایک تدبیر کہی جائے گی،کیوںکہ مضبوط دشمن کے مقابلہ کیلئے کمزورشخص کومیدان میں اتارنا دشمن سے دوستی کی دلیل ہی سمجھی جاتی ہے۔عام انتخابات ایک جانب کارپوریٹ گھرانے ایک ایسی طاقت کے ہاتھوںمیں ہندوستانی قیادت کی زمام سونپنے کیلئے کوشاںہیں جوفرقہ پرستی اورخالص ہندوزم پریقین رکھتی ہے؛جبکہ ہندوستان گنگاجمنی تہذیب اورکثرت میں وحدت کی وجہ سے اپنی شناخت رکھتا ہے۔ایسے حالات میں فرقہ پرست طاقتوںکوروکنے کیلئے ہونا تویہ چاہئے تھاکہ سیکولرز کا دم بھرنے والی پارٹیاں مضبوط حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں منہ دیکھ کرکسی کواتارنے کی بجائے موثرکن شخصیت کومقابلہ کیلئے اتارتی تاکہ شکست کے باوجوداسے جمہوریت کا بھرم رکھنے کیلئے مضبوط پہل سے تعبیر کیاجاتا،لیکن یہاں توسب اپنی روٹی سینکنے کی کوشش میں ہیںاوراسے جمہوریت کیلئے بہتراقدام نہیں کہاجاسکتا ۔


rahbarmisbahi@gmail.com
9470738111


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 586