donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shadab Khan
Title :
   Azadiye Niswan Ka Fareb

آزاددیٔ نسواں کا فریب


 شاداب خان

’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہواور سابق دورِجاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ  دواور اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی اطاعت کرو۔۔‘‘  (القرآن : سورۃ الاحزاب، آیت: ۳۳)
امت مسلمہ کے زوال پذیر ہو جانے کے بعد دنیا میں جن نئی تہذیبوں نے جنم لیا انہوں نے انسانوں کے سامنے عجیب و غریب فلسفے پیش کیے۔ انہوں نے کبھی بندروں کو حضرت انسان کا جد امجدگِنوایا اور کہیں محض اپنی مطلب پرستی کی بنیاد پر کروڑوں انسانوں کو جنگ کا ایندھن بنا دیا۔ اسی طرح جدیدیت (Modernism)کا لبادہ اوڑھے شیطنت پر مبنی انہیں مغربی تہذیبوں نے ایک اور عیارانہ فکر آزادی نسواں (Women's Emancipation) یا  (Women's freedom) کے نام سے پیش کی۔ اس فلسفہ نے ہر اس عورت کو جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو اور اپنے گھروالوں کے لیے فکر مند رہتی ہو اور ان کی خدمت کرتی ہو، اسے رجعت پسند اور دقیانوسی قراردیا۔ ان کے نزدیک وہی عورت جب ہوائی جہاز میں Air Hostess بن کر سینکڑوں لوگوں کی ہوس ناک نگاہوں کا نشانہ بن کر ان کی خدمت کرتی ہے تو وہ Modern ہے، جدت پسند ہے۔اور گھر میں رہ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن کے لیے خانہ داری کا انتظام کرے تویہ قید اور ذلت کی نشانی ہے لیکن پھرجب دکانوں پر Sales Girl بن کر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے یا دفاتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور ’اعزاز‘ ہے۔

    آج مغربی افکار کی یورش میں یہ پروپیگنڈا ہر جگہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو نقاب اور پردے میں رکھ کر گھونٹ دیا ہے، گھر کی چہار دیواری ’بالادستی ‘کی علامت ہے۔ لہٰذا آج عورت کو اِن فرسودہ رسموں کو کچل کر گھر سے نکلنا ہوگا، مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا ہوگا، اسی میں اس کے لیے عزت و اکرام ہے۔دراصل مغرب میں جب تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لیے دہری مصیبت سمجھا۔ ایک طرف اُس کی ہوسناک طبعیت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر اُس سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ مجھ سے ایک امریکی خاتون نے خود بتایا تھا کہ امریکی مرد عورت کو ایک ذریعۂ معاش تصورکرتے ہیں اور ان کے یہاں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ "A woman's work is never done" یعنی ــ ’’ایک عورت کا کام کبھی ختم نہیں ہوتاـ‘‘۔

    اسی لیے مغربی تہذیب نے عورتوں کی کفالت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور انہیں ذریعۂ معاش کے طور پر استعمال کرنے کا جو عیارانہ حل نکالا اُس کا خوبصورت اور معصوم نام  ’’ تحریکِ آزادیٔ نسواں‘‘ ہے۔  اس کے ذریعہ عورتوں کو یہ پڑھانے کی کوشش کی گئی کہ اب تک تُم گھروں میں مقید رہی ہو،  تمہیں حکومت و سیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے، اب تم گھروں سے نجات حاصل کرکے زندگی کی جد و جہد میں آ جاؤ تو دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔ عورت بیچاری ان دلفریب نعروں سے متاثر ہوگئی اور مغربی تہذیب اُسے اپنے گھر سے نکال کر سڑکوں پر گھسیٹ لائی۔ اُسے دفتروں میں کلرکی عطا کی گئی، اُسے اجنبی مردوں کی پرائیوٹ سیکریٹری کا منصب بخشا گیا، اپنی تجارت چمکانے کے لیے اسے کہیں  Air Hostess، کہیں Sales Girl اور کہیں Sales Model بننے کا شرف دیا گیا۔ اُس کے ایک ایک عضوء کو برسرِبازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آئو اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک کہ عورت جس کے سر پر اسلام نے عزت اور آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت اور عصمت کے ہار ڈالے تھے، اُسے تجارتی اداروں کے لیے ایک شو پیس (Show Piece) اور مرد کی تھکن دور کرنے کے لیے ایک تفریح کا سامان بنا دیا گیا۔

    آج ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد ہے۔نام یہ دیا گیا تھا کہ عورت کو آزادی دے کر سیاست اور حکومت کے ایوان اس کے لیے کھولے جارہے ہیں لیکن ذرا جائزہ لے کر تو دیکھیئے کہ اس عرصہ میں خود مغربی ممالک کی کتنی عورتیں صدر، وزیرِ اعظم یا کم از کم وزیربنی ہیں، کتنی خواتین کو جج بنایا گیا اور کتنی عورتوں کو دوسرے بلند مناصب کا اعزاز نصیب ہوا؟ اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ایسی عورتوں کا تناسب بمشکل کچھ لاکھ ہوگا اور ان گنی چنی خواتین کو کچھ مناصب دینے کے نام پر باقی کروڑوں عورتوں کو جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے اس کی مثال یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں۔

    میری قوم کی بیٹیوں۔۔۔۔ ذرا غور کرو کہ قرآنِ کریم نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہـ’’ وقرن فی بیوتکن‘‘    یعنی اپنے گھروں میں قرار سے رہو، یہ گھر تمہاری دنیا اور آخرت ہے، یہ گھر تمھاری زندگی ہے اور یہ خیال مت کرو کہ مرد گھر سے باہر نکل کر بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے، لہٰذا میں بھی گھرسے باہر نکل کر بڑے بڑے کارنامے انجام دوں گی۔ ارے یہ تو سوچو کہ سارے بڑے کارناموں کی بنیاد یہی گھر ہے، اگر تم نے اولاد کی صحیح تربیت کردی اور اُن کے دلوں میں ایمان پیدا کردیا تو یقین رکھو کہ اگر مرد باہر نکل کر جتنے بڑے بڑے کام انجام دے رہا ہے ان تمام کارناموں پر تمہارا یہ کارنامہ فوقیت رکھے گا۔ آپ لوگ یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ یہ پردہ ہمارے لیے دشواری کا سبب ہے بلکہ اس نقطہ کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عورت کے معنی ہی چھپانے کی چیز کے ہیں اور پردہ عورت کی فطرت میں داخل ہے اور اگر فطرت ہی مسخ ہوجائے تو اُس کا کوئی علاج نہیں۔ لہٰذا پردہ کا تحفظ فطرت اور حیا کا تحفظ ہے۔

    انہیں دجّالی نظریات کے پروپیگنڈہ کے لیے آج دنیا بھر میں’۸؍مارچ‘  بطو ر  ’’یومِ نسواں‘‘  (Womens' Day)منایا جاتا ہے جس کے تحت بڑے ہی زوروشور سے عورت کی آزادی اور اس کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن ان کی حقیقت تب سامنے آتی ہے جب ہم آئے دن اخبارات کی سرخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ خود ان ترقی یافتہ ممالک میں عورت کن بدترین حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ آج آزادیٔ نسواں کے متوالے امریکہ میں ہر دن دیڑھ ہزار (۱۵۰۰) زنا بالجبر کے واقعات پیش آتے ہیں۔

عزت اسلام کو اختیار کرنے میں ہے:

جو شخص اپنے اسلامی شعائر کے تحفظ کے لیے اپنی کمر باندھ لیتا ہے  وہی شخص دنیا سے اپنی عزت بھی کرواتا ہے۔ عزت دراصل اسلام کو چھوڑنے میں نہیں بلکہ اسلام کو اختیار کرنے میں ہے۔ عمر فارق  ؓ نے فرمایا تھا: ’’انّ اللہ اعزنا بالاسلام‘‘

اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عزت دی ہے وہ اسلام کی بدولت دی ہے۔ اگر ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ ہمیں عزت کے بجائے ذلت سے ہمکنار کر دیگا۔ اور تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے۔

(یو این این )

منجانب: شاداب خان
مسلم یوتھ فائونڈیشن، ممبئی
myf.mum@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1262