donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Shabbir Ali
Title :
   Kya Izzate Niswan Hame Manzoor Nahi

 

 کیا عزت نسواں ہمیں منظور نہیں؟


سید شبیر علی 

 

بات 1971 کی ہے جب لچ پچیا کے لڑ کے نے دوسری شادی میں پانچ بینڈ کا بش ریڈیو ایٹلس سائیکل ، ایچ ایم ٹی کاجل گھڑی اور سونے کی انگوٹھی لی تھی تو ہمارے والد نے کہا تھا کہ یہ کتنی نا ہنجار اولاد ہے اس وقت شادی کیا ہوتی ہے مجھے معلوم نہیں لیکن نا ہنجار کے مطلب کا پتہ تھا کیوں کہ مجھے بھی شرارت کر تے ہوئے جب اباّ دیکھتے تو اسی لفظ کا استعمال کر تے تھے

اس لئے مجھے یہ اندازہ تھا اس الفاظ کا استعمال دلی تکلیف پر کیا جاتا ہے میں اس وقت گھر سے بوڑا اور اسماعیل میرٹھی کی کتاب اردو کی پہلی ، سلیٹ اور قرآن کریم کا تیسواں پارہ لے کر ایک سخت گیر ماسٹر یعقو ب صاحب سے پڑھنے دروازے پر جا یا کرتا تھا جہاں ایک غلطی پر ہماری ہی لائی ہوئی کھجور کی چھڑی سے پوری طاقت سے ایک پڑتی جب کہ لڑکیوں کو دو غلطی پر بالکل آہستہ سے اس بد دیانتی پر کس قدر قلق ہوتا اس کا اندازہ دوسرا کوئی نہیں لگا سکتا پڑھائی صبح ، دوپہر اور رات کو بھی ایک عجیب سی مصیبت جو جمعہ کو ایک دن کے لئے ختم ہوتی تھی لیکن آزادی کہاں ۔ یعقوب صاحب کو اباّ نے بطور خاص ہم لوگوں کے لئے لا کر رکھا تھا اور محلہ کے دوسرے بچے بچیاں بھی استعفادہ حاصل کر تے تھے ۔ کاش کے کچھ اور دکھ سہ لیتا تا کہ اردو کے ثقیل الفاظ کو اپنی تحریروں میں جگہ دیکر باعمل نہ صحیح علم والا تو ضرور کہلاتا ۔ سب کچھ کے با وجود ویسا استاد مربی سب کو کہاں میسر اباّ چاہتے تھے کہ میرا بیٹا ہماری ہی طرح ایماندار ، نیک اور اللہ اس کے رسولؐ سے عملی طور پر محبت کر نے والا ہو اسی لئے تیگھڑا ضلع بیگو سرائے سے اس مربی کو ڈھونڈ لایا تھا بہر کیف بعد کو پتہ چلا کہ محلے میں ایک سفید پوش پڑھے لکھے رہتے ہیں جو لین دین کے معاملے میں لچپچیا کو بھی مات دے چکے ہیں ایک با ر تو اس تجا رت میں نقصان اور شرمندگی دونوں اٹھا نی پڑی معاملہ چوبیس ہزار میں طئے ہوا نقد payment کے بعد انجینئر صاحب کی شادی ہو گئی اور جب وہ سالی کی شادی میں گئے تو ساڑھو صاحب کو پچاس ہزار روپئے بطور سلامی لڑکی والے دے رہے تھے ایک جانب انکا کلیجہ کٹ رہا تھا دوسری جانب نوشہ اور انکے بھائیوں کا تیور چڑھ رہا تھا کہ یہ کیا حماقت ہے پیسہ واپس لیں تبھی لڑ کی جائے گی ۔ خدا خد ا کر کے سسر صاحب کو بات سمجھ میں آگئی اور معاملہ رفع دفع ہوا کیوں کہ وہ لڑکا صرف ایم ٹیک نہیں بلکہ اس کے چار بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے یہ ایک ڈپٹی کلکٹر کی پانچ صالح اولاد جن کے دو لڑ کے ڈاکٹر دو انجینئر اور ایک انگلش میں ایم اے کر کے اپنے موروثی مکان میں معیاری اسکول چلا رہے ہیں جو کافی ترقی پر ہے تمام بھائیوں کی شادیاں اسی سادگی کے ساتھ ہوئی یہ خاندان بھاگلپور کا معروف خاندان ہے گیا کے معروف گنج کے ایک کرائے کے مکان میں چار لڑکیوں اور دو لڑکوں کا باپ جو جج کا اسٹونو رہ کر سبکدوش ہوا تھا بعد کو نیو کریم گنج میں اپنا مکان بنا لیا بڑی لڑکی کی شادی کے ٹھیک پندرہ دنوں بعد ایک منسوب دوسری لڑکی کے لئے اس شرط پر آتی ہے کہ بغیر جہیز کے پندرہ دنوں میں شادی کر نی ہوگی یہ لوگ تیار نہیں ہوئے کہ ہاتھ بالکل خالی ہے لڑکا بذات خو د آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ کیا دینا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ مساوات کا تقاضہ ہے کہ جتنا میں نے پہلی لڑکی کو دیا ہے دوسری کو بھی دوں اس نے کہا کہ تمام ضروری سامان ہمارے کلکتہ کے فلیٹ میں موجود ہے اس لئے اس کی ضرورت رہی نہیں جہاں تک بنارسی اور دیگر ساڑیوں کا سوال ہے جو پالٹ کی شکل میں بیس سے سو (100 ) جوڑے تک دینے کا عمومی رواج ہے وہ بکس میں یا سیاحوں کی طرح گھومتا رہتا ہے اکثر یہ ساڑیاں بعد کو بہو اور بیٹیوں کو دی جاتی ہیں شاید ہی دو چار مصرف میں آئے کیوں کہ شادی کے نئے سال پر شوہر جوڑا جامہ لا کر نہ دے تو وہ اپنی قسمت کو رونے لگتی ہیں کیا یہ بہتر ہوگا کہ وہ جوڑا جامہ میں شروع سے ہی خرید کر دوں تا کہ کوسہ کھا نے سے بچوں اور آپ زحمت سے بچیں یہ منجھا ہوا کھلاڑی انہیں قائل ہی کر گیا جب کہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ تھے اور شادی کر اپنی بیوی کو لیکر چل دیا علی گڑھ مسلم یونیور سیٹی کا ایک لکچرار ایک دین دار صاحب سے ملتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے آپ کی لڑکی سے شادی کر نی ہے کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں انہوں نے کہا کہ تم ہمارے بارے میں کیا جانتے ہو اس کا جواب تھا کہ میں سب کچھ پتہ کر نے کے بعد ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہو ا ہوں یہاں بھی دونوں ایک دوسرے کو پہلے سے نہیں جانتے تھے پھر اس نے اپنا تعارف کرا یا اور ملازمت کی تفصیل بتا ئی پتہ چلا کے صاحب بہادر انجینئرنگ کالج کے لکچرار ہیں رشتہ طئے ہوتا ہے ہفتہ بعد ایک کار آکر گھر پر لگتی ہے مسجد میں نکاح ہوا اور لڑ کی رخصت ہو کر اپنی سسرال چلی آئی ۔ برونی کالج کے ایک پروفیسر جو بعد کو متھلا یونیور سیٹی دربھنگہ میں اردو کے ہیڈ رہے اپنی 9 لڑکیوں کی شادیاں اسی سادگی کے ساتھ معیاری لڑکوں سے بغیر کسی مطالبہ کے کی ہے بلکہ انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ میں کچھ بھی نہیں دونگا اور انکا ہر سمدھیانہ اور لڑکا اپنے اپنے علا قے کا معرو ف خاندانوں میں سے ایک ہے بلکہ ایک لڑکی کی شادی میں تو دودن پہلے ہو ئے سڑک حادثہ میں انکی شادی شدہ لڑکی فوت کر گئی لیکن شادی اپنے وقت پر ہوئی 9 بہنوں کے اکلوتے بھائی کی شادی جو خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار بھی ہے اسی شرط کے ساتھ طے ہوئی تھی اور تقریب سے پندرہ روز قبل لڑکی کے یہاں سے فون آتا ہے کہ تھوڑا سا تحفہ بھیج رہا ہوں قبول کر لیں پروفیسر صاحب نے یہ سوچ کر حامی بھر لی کہ کپڑا ہو سکتا ہے لیکن تحفہ میں واشنگ مشین اور فریج تھا وعدہ کر چکے تھے قبول کر لیا دوسرے دن پھر ایک بڑا سا دیوان انکے گھر پر حاضر اب ان سے اہلیہ سے اور لڑ کے سے رہا نہیں گیا ناراضگی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے رشتہ توڑ نے کی دھمکی دے ڈالی معلوم ہوا کہ چپکے سے لڑ کی کے ماموں جو ڈاکٹر بھی ہیں اور کافی ذی حیثیت بھی ہیں اپنی جانب سے دو لاکھ کا سامان بھانجی کو دینے کے لئے خرید رکھا تھا بعد کو دیوان فریج اور واشنگ مشین انہیں واپس کر دیا گیا نوبت یہاں تک آئی کہ ڈاکٹر صاحب کو سارا سامان دوسرے کے ہاتھ فروخت کر نا پڑا۔ ایک خاتون کو مالدار شہزادی ڈائنا کی تلاش تھی کیوں کہ انکا لڑ کا انجینئر جو ہو گیا تھا پچاس کو دیکھ چکی ہوں گی لیکن کہیں مطلوبہ رقم ملتی تو پری نہیں اور کہیں حسن و جمال ملتا تو رقم نہیں جب کہ حسن کو معدوم ہونا ہے 1965 کی سائرہ ، شرمیلہ ، وحیدہ کو دیکھئے تو سمجھداروں کو سمجھ میں آجائیگا ۔ اصل حسن تو سیرت ہے اور حرام مال کا ضائع ہونا ہے وہ بھی برے انجام کے ساتھ کسی نے اس ناچیز کا پتہ دے دیا خاتون کے خادم خاص یعنی شوہر آئے مجھے ساری کیفیت کا پہلے سے علم تھا ہم نے کہا کہ میں خرید و فرخت کا قائل نہیں لیکن اتنا ضرور کر سکتا ہو ں کہ رشتہ ایسی جگہ طئے کرا دوں جہاں ساٹھ تولہ سونا ہیرے کا ایک سیٹ ، راڈو گھڑی وہ بھی بالکل سونے کی سونے کا قلم اور ایسے دیگر قیمتی سامان جو پچاس لاکھ سے کم نہ ہو ساتھ ہی حسین تعلیم یافتہ لڑکی جس کی تصویر یہ ہے میں نے انہیں دیکھا یا تو وہ بھوکے شیر کو فربہ شکار دیکھ کر جس طرح لار ٹپکنے لگتا ہے انکے چہرے سے ایاں ہونے لگا بات پائے تکمیل تک پہنچتی کہ ایک شخص مکان دینے کا وعدہ کر لیا بات وہیں طئے ہو کر شادی ہوئی لیکن لڑکے اپنے والدین کی موت پر دہلی سے آنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کر سکے شکر ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد بقیہ بھائیوں کا ذہن بدلا اور ان لوگوں کی شادیاں سادگی کے ساتھ اپنے رشتہ داروں میں ہوئی ۔ اب سنئے اس پری زادی کی شادی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا اس کی شادی اس لڑ کے کی شادی سے پہلے ہوئی دن کے دس بجے بیس آدمی بارات لیکر سمستی پور سے آئے اور شام کو لڑ کی لیکر رخصت ہو گئے لڑ کا انجینئر دہلی میں سرکاری ملازم ۔ منسوب بھی یکا یک طئے ہوا رات کو گیارہ بجے ہماری اسی بہن کا فون آتا ہے کہ بھیا ہماری بچی کار شتہ انکے دوست کے لڑ کے سے طئے ہو گیا ہم نے پوچھا وہ کس طرح کہا کہ جب یہ سعودی میں رہتے تھے تو وہ صاحب بہادر بھی ان کے گھر میں رہا کر تے تھے اور ان کے اخلاق کریمہ سے کافی متاثر تھے عرصہ ہوا دونوں بچھڑ گئے پھر پتہ نہیں کس کس طرح ان لوگوں نے ہمارا پتہ ڈھونڈ کر ان کو فون کیا اور ساری تفصیل اپنے لڑ کے کے بارے میں بتائی اور گذار ش کیا کہ اگر آپ تیار ہوں تو میں پوری سادگی کے ساتھ اپنے لڑ کے کی شادی آپ کی لڑ کی سے کر لوں اب وہ مفکرین ہمیں بتائیں کہ کیا اس سر زمین کو فرشتے یا جانور گناہوں سے ناپاک کر رہے ہیں جس لعنت کا رونا رویا جا رہا ہے وہ کون کر رہا ہے کس لئے کر رہا ہے کس کی اجازت سے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے ہمیں ایک گھر بھی تو ایسا بتائیں جس نے جہیز نہ لیا ہو اور آ ج اسی وجہ کر فاقہ زدہ ہو بلکہ ہمارے پاس بڑی لمبی فہرست ایسے لوگوں کی ہے جن کا گھر جہیز کی لعنت کی وجہ کر بکھرا اور ٹوٹا ہے ہر نیک عمل گھر سے خود سے شروع ہو کر دنیا میں پھیلا ہے یہ طریقہء محمدی ﷺ ہے پہلی آواز پر پانچ پھر پچاسی پھر تین سو تیرہ اس کے بعد تو اس رفتار کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دنیا میں ایک بڑی تعداد پختہ عملی مسلمانوں کی اور نو مسلموں کی موجود ہے یہ بات دیگر ہے خاندانی مسلمان عمل سے دور ہو رہے ہیں جبکہ نو مسلم عمل سے قریب۔ ان کے لئے یہ بہت اچھی علامت ہے لیکن ان کے لئے یہ بہت خطر ناک علامت ہے جنہوں نے اسلام کو اپنی اجارہ داری سمجھ کر اپنے قول و فعل اور عمل سے اسے بد نام کر نے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے تاریخ خدا دہرائے اس سے قبل خدا ہمیں شعار اسلامی کا قدر داں بنا دے ورنہ ہماری ہلاکت کو ہماری کوئی اسکیم کوئی پلاننگ روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہو سکتی راہ دکھلا نے کے لئے یہی کافی ہے نہ دیکھنے اور نہ سمجھنے والوں کے لئے خدا بخش لائبریری کی تمام کتابوں کو اگر اسی مضمون سے منسوب کر دیا جائے تو بھی نا کافی ہوگا میں تو لکھتا ہوں اس لئے کہ رونے والے گلہ کر نے والے عذر پیش کر نے والے دوسروں میں خامیاں خود کو پارسا سمجھنے والے یہ سمجھیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے مخلصین کا دروازہ با عمل لوگوں کے لئے کھلتا ہے فریبیوں کے لئے نہیں میں نے جن لوگوں کا تذکرہ کیا ہے یہ سبھی افراد تنگ دستی سے تونگری کی طرف لوٹے ضرور ہیں لیکن اپنے پرانے دنوں کو بھولے نہیں ہیں اسی لئے میں نے انہیں بہار کا’’ ایا ز‘‘ کا نام دیا ہے ‘‘۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 786