donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Md. Mahfoozul Hasan
Title :
   Ghazal Numa Ke Ta

غزل نما کے تعلق سے
 
پروفیسرمحمد محفوظ الحسن’گیا‘
 
غزل نمانام سے ظاہرہوتاہے کہ یہ غزل نہیں غزل جیسی ہی کوئی چیز ہے غزل میں اسے ایک تجربہ کہہ سکتے ہیں یہ تجربہ کامیابی کی کس منزل تک پہنچے گا اس کے بارے میں قطعی طورپر ابھی کوئی فیصلہ صادر کرناممکن نہیں کہ ادب میں کسی صنف کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ ممکن بھی نہیں۔ ایک زمانے میں نثری نظم نام کی غیر معنویت کے باوجود پرناک بھنوں چڑھانے والوں کی کمی نہیں تھی مگر نثری نظم اردو ادب میں چل ہی نہیں نکلی دوڑرہی ہے کیا عجب کہ وہ زمانہ بھی آجائے جب غزل نما بھی دوڑنے لگے مختلف رسالوں میں غزل نما کی اشاعت اور پھر غزل نما کے ایک مجموعہ کی اشاعت جس میں تقریباڈھائی درجن فنکاروں کی تخلیقات شامل ہیں، یہ اشارہ کررہی ہے کہ ہونہار بروا کے ہوت چکنے پات،مناظر عاشق ہرگانوی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے غزل نما کا مجموعہ مرتب کرکے اردو والوں کے سامنے بقول ان کے سمت نما کاکام کیاہے جس سے تحرک پیدا ہوگا، روشنی منعکس ہوگی اور اردو کو ایک نیا افق ملے گا۔
 
یہ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ غزل نماہے کیا؟نماظر صاحب نے غزل نما کے پہلے انتخاب میں غزل نا کی تعریف اور اس کے وزن وبحرپرتفصیلی گفتگوکی ہے میں عروض سے اتنا واقف نہیں مگر اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ داکٹر مناظر نے بہت کھوج بین کے بعد ان بحروںاور زحافات کی نشاندہی کی ہے جن سے غزل نمامیں اثرروانی، نغمگی اور دلکشی باقی رہے اور کچھ ارکان کی دوسرے مصرعے میں کمی کے بادصف یہ صنف کانوں کو نہ صرف بھلی لگے بلکہ ذہن وشعور کو بھی جلابخشے غزل نما کی بحرووزن کے تعلق سے مناظر عاشق کی یہ بات قابل توجہ ہے شاہد جمیل کی غزل نما کوسامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ باتیں تحریر کی ہیں، اس سے غزل نما کے صحیح خدوخال کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور آزادغزل اور غزل نماکا فرق بھی واضح ہوجاتاہے۔ لکھتے ہیں:دونوں مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی اس طرح کی گئی ہے کہ پہلا مصرع جتنے ارکان میں ہے تیسر، پانچواں ساتواں، نواں ،گیارہواں وغیرہ بھی اتنے ہی ارکان میں ہوں گے اور دوسرامصرع جتنے رکن میں ہے چوتھا، چھٹا، اٹھواں،دسواں، بارہواں وغیرہ مصرعے بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے باقی سبھی لوازم ایک جیسے ہوں گے یعنی مناسبت اور مطابقت کے باوجود ایک باریک فرق ہے اس مساوی الوزن ارکان کی نابرابری کانام غزل نمارکھاگیاہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ سب سے پہلے غزل نما کس نے لکھی۔ اس سلسلے میں ظہیرغازی پوری کا نام لیا گیا ہے، لیکن مناظر عاشق ہرگانوی کی یہ تحقیق ہے کہ سب سے پہلا شاعر جس نے غزل نما ر توجہ صرف کی اور اپنی اختراعی قوت کامظاہرہ کیا وہ شاہد جمیل ہیں، جنہوں نے بچوں کے ایک رسالہ، غنچہ، بجور،یوپی میں یکم اکتوبر۱۹۷۳میں ایک تخلیقی تجربہ کیا اور شائع کرایا۔ پھر۲۴نومبر۱۹۷۳کے شمارے میں دوسری تخلیق بھی بچوں کی خاطر انہوں نے شائع کرائی۔
 
تحقیق کاکارواں دواں ہے۔ اگر یہ رک جائے تو ادب کی سمت ورفتار بھی تھم جائے گی۔ نیز ادبی تحقیق میں کوئی چیز حرفِ آخرنہیں ہوتی۔ اس میں کبھی اس کے کبھی اس کے سرسہرابندھتاہی رہتاہے۔ اس میں نہ تو براماننے کی کوئی بات ہے اور نہ ہی کسی کا براچاہنے کی کوئی بات مثال کے طورپر ایک زمانے تک اردو کے پہلے سانٹ نویس ہونے کاسہرااختر شیرانی کے سرتھا۔ میں نے اپنی تحقیق سے یہ سہرااتارکرعظیم الدین احمدکے سرباندھ دیا۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ ارو کے پہلے سانٹ نویس عظیم الدین ہیں مگر پہلا مطبوعہ سانٹ اخترشیرانی کاہی ہے بعد میں ڈاکٹرحنیف کیفی نے میری تحقیق کومزیدمستحکم کیا اور یہ شواہد کے ساتھ ثابت کردیا کہ اردو کے پہلے سانٹ نویس عظیم الدین ہی ہیں اور پہلا مطبوعہ سانٹ بھی ان کاہی ہے ممکن ہے کل کوکوئی اور کسی دوسرے کو ثابت کردے تو اس میں حرج ہی کیاہے؟
 
مگریہاں بھی دوحضرات کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے، دونوں کے بارے میں محققین وناقدین نے لکھاہے کہ ظہیرغازی پوری ہوںیاکاظم نائطی ،دونوں کی تخلیقات کاتعلق آزادغزل سے ہے اور غزل کی یہ آزادی بھی بغیرکسی پابندی کے ہے، جبکہ غزل نماآزادی کے ساتھ پابندی کی بھی حامل ہونی چاہئے۔پروفیسر سجادمرزانے صیر فروری۱۹۹۹میں ظہیرغازی پوری کی اختراع کوفردیات سے تعبیرکیاہے اور شاہین فصیح ربانی نے ان کے تجربے کومختلف الاوزان اشعار کانام دیاہے اور سہ ماہی ترویج کے سلسلہ نمبر۳کے حوالے سے فیضی سنبل پوری، اسلم صنف اور ناوک حمزہ پوری کے خیالات کوحوالہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ اس قسم کی شاعری کوغزل زن یاابیات کانام دیاجاسکتاہے۔ مناظر عاشق ہرگانوی بھی اس کے تخلیقی جواز پرسوالیہ نشان لگاتے ہیں، اس کی وجہ اس کامختلف الاوزان ہوناہی ہے کاظم نائطی کے تعلق سے مناظر عاشق ہرگانوی کے حوالے سے علیم صبانویدی نے خودہی تحریرکیاہے کہ انہوں نے جب مختلف شعرابشمول یوسف جمال، فرحت قادری، کرامت علی کرامت ،خالد رحیم نے آزادغزل کی تحریک چلائی تھی تو اس زمانے میں کاظم نائطی نے آزادغزل کوغزل نما کانام دے کراتحاد، میں شائع کرایاتھا۔ یہ بات ۱۹۷۹کے آس پاس کی ہے۔ ظاہر ہے کہ آزادغزل کوغزل نما کے نام سے شائع ہونے سے دونوں حضرات کے نام اس کے اختراع کارکی حیثیت کیلئے جانے لگے۔ لیکن ظہیرنے اس سلسلے میں ۱۹۸۱میں تجربہ کیاجبکہ نائطی نے۱۹۷۹میں ،مگردونوں تجربے غزل میں قسم کی آزادی برت کرکیے گئے جبکہ شاہد جمیل نے ۱۹۷۳میں جوتجربہ کیاوہ پوری طرح غزل کے دائرے میں رہ کرہی کیا۔ ہاں ہرشعر کے دوسرے مصرعے میں ارکان کی کمی کی مگر ایسا نہیں کیا کہ دوسرے مصرعے میں ایک، چوتھے میں تین، چھٹے میں دورکن کم کیے بلکہ ہر شعر کادوسرا مصرعہ مساوی الوزن رکھا۔یہ تجربہ قابل احترام واعتبار تھا اور اپنے آپ میں مذکورہ تجربوں سے اولیت کادرجہ رکھتاتھا لہذاشاہدجمیل کواولیت دی گئی، تو براکیاہے۔ ظہیرغازی پوری یاکاظم نائطی کے تجربوں کو بنیاد بناکر کوئی اصول بھی مرتب نہیں کیاجاسکتا، جبکہ شاہدجمیل کے اختراعی تجربے کوبنیادبناکر ایک مسلم اصول بنایاجاسکتاہے۔ اس لیے بھی شاہد جمیل اولیت کے حقدارہیںشاہدجمیل کے تجربے کوبنیادبناکرغزل نما کی تخلیق کاجواصول واضح ہوتاہے وہ مناظر عاشق کے لفظوں میں یوںہے:غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں جن میں ردیف وقافیہ ہوتے ہیں۔
 
غزل نما کے شعر کا مصرع ثانی اوزان ،ارکان کے اعتبارسے مصرع اول کانصف ہوتاہے جس میں ردیف وقافیہ ہوتے ہیں۔ یہ مصرع خودبھی ایک بحر میں ہوتاہے مثلاشعرکے پہلے مصرع میں اگر فاعلاتن چاربارآیاہے تودوسرے مصرعے میں دوبارآئے گا۔ اسی طرح اگرمصرع اول میں مفعلن آٹھ بارآیاہے تو مصرع ثانی میں چاربارآئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساں ہوگا۔غزل نما کے لئے سالم بحروںمیں طبع آزمائی افضل ہے خواہ وہ مفرد بحرہویامرکب بحرہو۔ جس طرح تخلیق کے بطن سے تنقیدی احوال جنم لیتے ہیں اسی طرح کسی صنف کااختراع کارہی اپنی اختراعی تخلیق کے ذریعہ اس صنف کی پہچان قائم کراتاہے۔ سوشاہد جمیل نے یہ کام کردکھایاہے لہذا اردوکے پہلے غزل نمانگارہونے کاسہراان کے سرپربندھنازیب دیتاہے۔ شاہدجمیل سے مناظرعاشق ہرگانوی تک جن تقریباڈھائی درجن شعراکاکلام کتاب، غزل نما میں جمع کیا گیاہے اس کامطالعہ یہ ثابت کرتاہے کہ اگر ایمانداری اورخلوص کے ساتھ، شہرت اور نام آوری کے جذبے سے دور رہ کرکوئی تجربہ کیاجاتاہے تواسے قبولیت نصیب ہوتی ہے۔ شاہدجمیل اور مناظرعاشق ہرگانوی دونوں مبارکبادکے مستحق ہیں کہ ایک نے تجربہ کیا دوسرے نے اس تجربے پرپڑی وقت کی گرد کوجھاڑکرایک سمت دکھائی میںغزل نماکی اس پیش کش کوخوش آمدیدکہتاہوں اس توقع کے ساتھ کہ اس سے ادب میں نئے تجربات کی راہیں مزید ہموارہوں گی اور زبان وادب کے خزانے میں بیش بہاموتیوں کااضافہ ہوتارہے گاغزل نماکایہ انتخاب یقیناسمت نماہے۔
 
+++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 752