donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Achhey Din Aagaye

 

اچھے دن آگئے 


نریندر مودی کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے میڈیا کمپین میں بہت سارے نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا ’’مودی جی آنے والے ہیں ،اچھے دن آنے والے ہیں‘‘۔جیت کے بعد اور وزارت عظمیٰ کے حلف لینے تک تو لگا کہ واقعی اچھے دن آگئے ۔وجہ تھی کہ انہوں نے جشن حلف برداری میں سارک ممالک کے نمائندوں جس میں پاکستان بھی شامل ہے کو دعوت دی ۔حالانکہ پاکستان اور سری لنکا کو مدعو کرنے کیلئے داخلی اور خارجی پیمانے پر مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔لیکن اس کے باوجود ان مہمانوں کی آمد سے ایسا لگ رہا تھا کہ ملک میں روایتی پاکستان مخالف رویہ کے دور میں کوئی فرق آنے والا ہے ۔لیکن یہ خوش فہمی دوسرے دن ہی دور ہو گئی جب دفعہ 370 یکساں سول کوڈ اور مسلم اقلیت کے تعلق سے نجمہ ہپت اللہ کے بیانات سامنے آئے ۔اس کے بعد حسب روایت خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مہاراشٹر کیلئے ایک الرٹ بھی جاری کیا گیا کہ مہاراشٹر میں فساد کا خطرہ ہے ۔اس الرٹ کو شاید تین دن ہی گزرے ہو نگے کہ فیس بک پر شیواجی جی ،بال ٹھاکرے اور دیگر ہندو شخصیات کی تضحیک آمیز تصاویر اپلوڈ کردی گئیں۔ہفتہ سے زیادہ بیت گیا لیکن ابھی تک پولس یہ پتہ لگانے میں ناکام ہے کہ اسے کس نے اور کہاں سے اپلوڈ کیا ہے ۔یاد رہے کہ یہ وہی پولس ہے جس کو بم دھماکوں کے بعد فرضی ای میل اور فون کی خبر مل جاتی ہے کہ فون کہاں سے کیا گیا اور کس کمپیوٹر اور کس سائبر کیفے سے ای میل کیا گیا ۔جس مقصد کیلئے فیس بک پر ہندو شخصیات کی تصاویر اپلوڈ کی گئی تھیں اس کے اثرات بھی حسب توقع ظاہر ہوئے پونے میں فسادیوں اور ہندو دہشت گردوں کی کھلے عام فساد اور توڑ پھوڑ کی کارروائی شروع ہوگئی جس میں ایک نوجوان مسلم انجنیئرکو قتل بھی کردیا گیا ۔یعنی ایک بار پھر بم دھماکوں اور اس کے بعد اس الزام میں مسلم نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کے برے دن آگئے اورانہیں اسی طرح کسی بھی بہانے قتل کرنے کا لگتا ہے نیا پلان بن گیاہے ۔شاید انہیں دنوں کے بارے میں نعرہ دیا گیا تھا کہ ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘۔


معلوم ہونا چاہئے کہ جن وعدوں پر نریندر مودی کا زیادہ فوکس تھا یعنی مہنگائی اور بد عنوانی کا خاتمہ وہ ہنوز منتظر فیصل ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ مہنگائی اور بد عنوانی کا خاتمہ اس طرح اتنی جلدی ممکن نہیں ہے ۔ لیکن 16 ؍مئی جس دن انتخابی نتیجہ آیا تھا اسی دن سے مہنگائی نئی بلندیوں کو چھونے لگی تھی ۔اسی کے ساتھ میڈیا اور سلامتی میں صد فیصد ایف ڈی آئی کی خبریں بھی اخبارات میں آئیں ہیں۔مودی حکومت کا ایک اور وعدہ امن و سلامتی کا بھی تھا لیکن ان کے حلف لینے کے پانچ دن بعد ہی فیس بک میٹر پر مہاراشٹر میں بد امنی کا دور شروع ہوگیا تھا ۔ہر چند کہ پولس بعد میں حرکت میں آئی لیکن حسب معمول پولس نے بروقت کارروائی سے پرہیز کیا تاوقتیکہ مسلمانوں کو کچھ جانی ومالی نقصان نہیں پہنچ گیا۔جبکہ اخباری رپورٹ کے مطابق خفیہ محکمہ کا الرٹ پہلے ہی جاری ہو گیا تھا کہ فساد کا خطرہ تھا۔یہ سب کچھ ہو جانے کے باوجود میڈیا اپنی راگ الاپنے میں ہی لگا ہوا ہے ۔اس سے ابھی تک الیکشن پیکیج مین ملی رقم کا حق ہی ادا نہیں ہوا ہے ۔وہ ہنوز مودی کے گڈ گورنیس میں ہی مدہوش ہے ۔ میڈیا عوام کو یہی باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ مودی کے علاوہ ہندوستان کا نجات دہندہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔جبکہ ابھی تک کوئی سخت فیصلہ یا اسے اہم فیصلہ بھی کہہ سکتے ہیں نہیں لیا جاسکا ہے جس سے ملک کی سالمیت اتحاد اور عوامی مفاد میں سنگ میل کی حیثیت کہا جاسکے ۔ایک اردو صحافی اور کالم نویس نے صحیح ہی لکھا ہے کہ ’’ان کا بدیسی ایجنڈا یہی ہوگا کہ وہ چین کے جارحانہ لہجے کا جواب جارحانہ لہجے سے ہی دیں گے۔عوام کو اس ایجنڈے کے عملی شکل اختیار کرلینے کا بے چینی سے انتظار ہے‘‘۔


مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کیلئے پاکستان کبھی کوئی مسئلہ اور چیلنج نہیں رہا جبکہ چین ہی ہندوستان کیلئے واحد چیلنج ہے ۔جس پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس زبردست خطرے سے نبٹنے کیلئے کوئی اہم قدم اٹھایا گیا ۔اس کے برعکس عوام کے ذہنوں کو اصل مسائل سے بھٹکائے رکھنے کیلئے عموماً غیر اہم ایشو زکو ہوا دیا جاتا رہا ہے ۔ یہ کانگریس کے دور میں بھی جاری رہا اور مودی حکومت کے ابتدائی ایام سے ہی ان کے وزیروں باتدبیروں کے متنازعہ بیان سے یہی ظاہر ہو رہا ہے ۔یہاں مسلمانوں کیلئے اہم معاملہ یہ ہے کہ وہ نئے سیاسی تناظر میں اپنے آپ کو کیسے ایڈجسٹ کریں ۔یہ باتیں قوم کے رہنماؤں کو طے کرنا تھی لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ فی الحال کوئی ایک فردنظر نہیں آتا جس پر پوری قوم کو اعتماد ہو یا جو واقعی قوم کی قیادت کے قابل ہو ۔ابھی تک تو قوم کی حالت یہ ہے کہ 

  چلتاہوں چند گام ہر اک راہ رو کے ساتھ . پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں 
لیکن یہ کوئی اچھی علامت نہیں ۔اس طرح کے حالات قوموں کی زندگی کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوئے ہیں ۔ان حالات سے نکلنے کیلئے مسلمانوں کے باشعور طبقہ اور جس بھی لیویل کے قائد موجود ہیں ان کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنے اور قوم کو اس نازک دور سے نکالنے کیلئے ذاتی مفاد کو تج دینے کی ضرورت ہے ۔ورنہ وقت کسی پر رحم نہیں کرتا۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 515