donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Irfan Shah
Title :
   Maulvi Abdul Haq Ka Qatbi ......

 

مولوی عبدالحق کا قطبی ستارہوا۔۔۔۔ وفاقی جامعہ اردو
 
پروفیسر عرفان شاہ
 
قومی ترقی‘ قومی زبان کے نفاذ اور اس کی ترقی میں پوشیدہ ہے۔ اس ناقابلِ تردید حقیقت کے داعی بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم نے حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ 1949ء میں اپنی مدد آپ کے اصول پر کراچی شہر کے وسط میں ’’اردو کالج‘‘ قائم کیا تاکہ طلبہ نہ صرف اپنی قومی زبان میں علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں بلکہ ان میں قومی شعور‘ باہمی ہم آہنگی اور ارضِ پاک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور اولوالعزمی بھی پیدا ہو۔ 1954ء سے کالج میں فنون کے ساتھ ہی سائنسی علوم کی تدریس کا آغاز ہوا۔ بابائے اردو اور ان کے پُرخلوص رفقاء اور محبانِ اردو کی بے لوث کاوشوں کے سبب ادارۂ ترقیات کراچی نے 6 اپریل 1966ء کو شاہراہ جامعہ کراچی پر 20 ایکڑ زمین الاٹ کردی، اور اکتوبر 1969ء میں شعبہ سائنس بابائے اردو روڈ سے یہاں منتقل کردیا گیا اور اس نئی عمارت کو اردو سائنس کالج گلشن اقبال کہا جانے لگا، جبکہ پہلے مشترکہ پرنسپل میجر آفتاب حسن رہے۔ یکم نومبر 1972ء کو دیگر نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ اس کالج کو بھی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا، لیکن محبانِ اردو کے شدید احتجاج اور ملک گیر مخالفت کے سامنے حکومت کو ’’اردو‘‘ کی اہمیت و افادیت کم کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور مجبوراً وفاقی حکومت نے یکم مئی 1975ء کو اردو کالج فنون و سائنس کو قومی تحریک سمجھتے ہوئے براہِ راست اپنے انتظام و انصرام میں لے لیا اور اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے اردو آرٹس/ سائنس کالج کے علیحدہ علیحدہ بورڈ آف گورنرز تشکیل دیے گئے جس میں صدر نشین وفاقی وزیر تعلیم‘ نائب صدر نشین وفاقی سیکرٹری تعلیم‘ جبکہ معتمد پرنسپل اور نامزد ماہرین تعلیم‘ سائنسدان اور نمائندہ افراد کو بطور رکن شامل کیا گیا۔
 
گزرتے وقت کے ساتھ قومی زبان میں تدریس کی اہمیت واضح تر ہوتی چلی گئی اور ہر محب وطن کو اس بات پر دکھ اور حیرت تھی کہ آزاد ملک کے باوجود قومی زبان کے تشخص کو ابھارنے اور پروان چڑھانے کے لیے ’’جامعہ اردو‘‘ کے خواب کو پورا کرنے میں کوتاہی کا رویہ کیوں روا رکھا جارہا ہے جبکہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم قومی زبان میں ہی کامیابی کے اعلیٰ مدارج طے کررہی ہے۔
بابائے اردو کا ’’اردو کالج‘‘ ایک تحریک کے تسلسل کا نام ہے، اور اس تحریک کے ثمر میں آج ہم آزاد وطن کے شہری ہیں۔ جامعہ اردو کے قیام میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے لیکن بابائے اردو کے جانشیوں نے ہمت نہ ہاری اور جدوجہد جاری رکھی۔ اس ضمن میں دیگر اہلِ درد بزرگوں کے ساتھ جمیل الدین عالی کی سعیٔ جمیلہ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جدوجہد کا سفر جاری رہا اور ایم اے اور ایم ایس سی کی اعلیٰ سطح کی تدریس قومی زبان میں شروع ہوئی اور اس کے نتائج نے ملک بھر میں مخالفینِ اردو کو دانتوں میں اگلی دینے پر مجبور کردیا۔ اس دوران سازشی عناصر نے ایک شب خون مارا اور مستقبل میں جامعہ اردو کے قیام کے لیے حاصل کردہ پلاٹ ایس ٹی ٹو(ST-2) گلشن اقبال کی بیش قیمت زمین ورکس کوآپریٹو سوسائٹی لمیٹڈ نے جعل سازی سے ’’مجاہد ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کو صرف تین لاکھ 66 ہزار روپے میں فروخت کردی۔ قاتلِ تعلیم و فروغِ اردو نے جمعہ کی چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 23 جولائی 1993ء کو چہار دیواری توڑ کر تعمیرات کا آغاز کردیا۔ لیکن اُس وقت کے پرنسپل سید محمد ہارون رشید نجمی اور سپرنٹنڈنٹ کالج سید خورشید علی کی بروقت اور انتہائی کوششوں کی وجہ سے فوجی وسول حکام نے فوراً مداخلت کی اور دن کے اجالے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے جامعہ اردو کے خواب کو چرانے والے پکڑے گئے، لیکن صد افسوس کہ اس سے آگے کارروائی ہنوز سرخ فیتے کی نذر ہے۔ مرضِ جنون میں مبتلا دیوانے کب ہمت ہارنے والے ہوتے ہیں! بالآخر ان کی آبلہ پائی برآمد ہوئی اور قومی زبان کے جانثاروں کے لیے 13 نومبر 2002ء کا دن پیغام شکر و مسرت لایا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کو جامعہ اردو کے قائم ہوجانے سے تعبیر ملی۔ چار دلّی والوں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر‘ اُس وقت کے وفاقی وزیر پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن اور جمیل الدین عالی نے ارد وکا قرض اتارنے میں اپنا اپنا حصہ خوب خوب ڈالا اور آج وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون سائنس و ٹیکنالوجی کے تین کیمپس عبدالحق کیمپس فنون / قانون‘ سائنس و ٹیکنالوجی کیمپس گلشن اقبال/کراچی اور یونیورسٹی کیمپس اسلام آباد ’’قومی ترقی کا ذریعہ… قومی زبان میں تعلیم‘‘ کو سچ کر دکھارہے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ناقدین آج اس سچ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ’’جامعہ اردو‘‘ ایک جذباتی نعرہ نہیں‘ بلکہ قومی زبان کی اس قوت کا مظہر ہے جو تعلیم کو بامقصد بنانے اور ملک کو ترقی کے اوجِ کمال عطا کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ ’’جامعہ اردو‘‘ کی عمر ابھی طفلانہ ہے، صرف 13 سال، مگر کارہائے نمایاں سن رسیدہ۔ چھ کلیات (فیکلٹیز) کے تحت 34شعبہ جات،100سے زائد پی ایچ ڈی اساتذۂ کرام‘ ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد طلباء و طالبات اپنے 350 اساتذہ کے جھرمٹ میں علم و ادب کے رنگا رنگ گلاب کھلارہے ہیں۔ ملک کی سرکاری جامعات میں یہ منفرد اعزاز بھی جامعہ اردو کو ہی حاصل ہے کہ اس کے اساتذہ میں 100 پی ایچ ڈی ہیں۔ ہم ہر لمحہ تنقید کرنے اور مایوسی کو تلاش کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، جبکہ ہمارے درمیان فخر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، خصوصاً تعلیم کے میدان میں… اس کی روشن مثال شعبہ نباتیات (بوٹنی)، جامعہ اردو فارن فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد ہیں جو بیک وقت امریکا اور سوئٹزرلینڈ سے پی ایچ ڈی ہونے کے علاوہ پاکستان کے پہلے سائنسدان اور جامعہ اردو دنیا کے ان 15ممالک میں شامل ہے جہاں ’’شجری واقع نگاری‘‘ “DENDROCHRONOLOGY” پر منفرد تحقیقی کام ہورہا ہے۔ شجری واقع نگاری جغرافیائی اور موسمی حالات کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے عوامل و امکانات کا احاطہ کرتی ہے اور ملکی معاشی، ماحولیاتی اور کسی حد تک دفاعی ضروریات اور ترقی کی منصوبہ بندی میں انتہائی اہم کردار کی حامل ہے۔
جامعہ اردو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے اوّلین شیخ الجامعہ اردو کے ممتاز و منفرد شاعر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی (یاد رہے ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر سائنس کے استاد ہیں)، دوسرے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال‘ صدر نشین شعبہ اردو‘ رئیس الکلیہ فنون جامعہ کراچی (یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب راقم کے اردو سائنس کالج میں مقرب استاد رہے اور پی ایچ ڈی بعنوان ’’شان الحق حقی کا فنی و تحقیقی مطالعہ‘‘ کے رہبر و نگراں بھی رہے اور مجھے ان کے مقربِ بارگاہ ہونے پر فخر ہے)، اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے ناظم جامعہ کے منصب پر آفتاب احمد خان‘ صدر انجمن ترقی اردو پاکستان، یگانہ روزگار غالب شناس اردو زبان کے کارواں کے نمایاں کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ چوتھے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال محسن‘ پانچویں پروفیسر ڈاکٹر کمال الدین (قائمقام)، چھٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر… اس دوران مختلف مواقع اور عارضی طور پر سات مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر جمال حیدر‘ ایک ایک بار پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل اور پروفیسر محمد سعید خان نے بھی شیخ الجامعہ کی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔
 
اب ایک بار پھر یہ جان سوز ذمہ داری ممتاز محقق‘ دانشور‘ ماہر تعلیم اور شیدائی اردو‘ صوفی منش پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کے دامنِ توقیر کے ہمراہ ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال سے طبقۂ دانش طالبانِ علم اور خصوصاً المنائی‘ وفاقی اردو سائنس کالج کے وابستگان کو بڑی امیدیں ہیں کہ وہ کچھ مروجہ روش سے ہٹ کر کارہائے نمایاں انجام دیں گے اور ان سے توقعات اس لیے بھی منسوب ہیں کہ وہ 1979ء میں شعبہ اردو سابقہ وفاقی گورنمنٹ اردو سائنس کالج سے بحیثیت استاد منسلک ہوئے تھے اور تعلق تاحال قائم و دائم ہے۔
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کا کلیدی وصف تدریس و تحقیق ہے۔ پندرہ سے زائد علمی و تحقیقی مقالوں کے مصنف ہونے کے علاوہ خالصتاً اردو کے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں مقالات علیحدہ، اس کے ساتھ 21 طلبا و طالبات کو پی ایچ ڈی کرانے کا اعزاز حاصل ہے اور دو درجن سے زائد طلبا و طالبات ڈاکٹر صاحب کی زیر نگرانی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالات جن کے موضوعات میں انتہائی تنوع ہے، مکمل کررہے ہیں۔ ایم فل اور ایم اے کے تحقیقی مقالات جو ان کی علمی سرپرستی میں تکمیل کو پہنچے ان کی تعداد بھی کم و بیش 100 سے زائد ہے۔ غرض ان کے علمی‘ تدریسی اور انتظامی کارہائے نمایاں بیان کرنا یہاں جگہ اور موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے سوئے ادب ہوگا کیونکہ ان کے اجمال کے لیے مکمل مضمون درکار ہے۔
 
وفاقی اردو یونیورسٹی کی نوعیت ایک عام تعلیمی درس گاہ سے بڑھ کر ہے، کہ یہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کی تعبیر اور قومی زبان کی سربلندی کا مینارۂ نور ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں شاید اس کی کارگزاری پر ناقدین نرم گوشے کو مدنظر رکھیں، لیکن فنون اور خاص کر اس کے شعبۂ اردو اور شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے علمی‘ تدریسی اور اشاعتی کاموں کا سخت محاکمہ اہلِ علم و دانش کریں گے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ شعبۂ اردو کو بین الاقوامی سطح پر تحقیقی و علمی امتیاز دلانے کے کئی منصوبے ڈاکٹر صاحب کے پیش نظر رہے ہیں، خاص کرنادر و نایاب مخطوطات کے حوالے سے ایک دانش کدہ کا قیام جس میں تمام جدید سہولیات کی فراہمی ہوگی، جو اعلیٰ تحقیق کرنے والوں کو درکار ہوتی ہیں۔
 
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبا ل نے منصب سنبھالنے کے بعد فوری طور پر جو احکامات جاری کیے ہیں ان میں کچھ کر گزرنے کے عزائم کی جھلک واضح نظر آرہی ہے، جن کی عملی صورت میں ’’جامعہ اردو‘‘ یقینا بین الاقوامی سطح پر مؤقر ترین درسگاہ کا مقام حاصل کرلے گی۔ جامعہ اردو کے سینیٹ میں اساتذہ کی منتخب رکن، نگراں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ پروفیسر سیما ناز صدیقی کا یہ کہنا صداقت کا آئینہ دار ہے کہ جامعہ اردو کے قیام کی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحب کیونکہ خود ایک کارکن کی حیثیت سے شامل رہے ہیں اس لیے ان کا روحانی تعلق ’’جامعہ اردو‘‘ کو مقامِ عرفان پر ضرور پہنچائے گا۔
جامعہ اردو کے پہلے ڈپٹی چیئرمین جمیل الدین عالی کی خدماتِ بے مثل کا تذکرہ نہ کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اور تاحال انتہائی ناسازی طبع کے باوجود وہ جس طرح جامعہ اردو اور انجمن ترقی اردو پاکستان کی ترقی کے لیے دردِ دل کے ساتھ شب و روز مصروفِ فکر و خیال رہتے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
 
اسی طرح انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد (اعزازی)، جامعہ اردو کے سینیٹ میں پہلے نمائندے سید اظفر رضوی نے جنہیں جمیل الدین عالی، موجودہ صدر انجمن ترقی اردو پاکستان آفتاب احمد خان کا قرب و اعتماد حاصل ہے، جس انداز میں مذکورہ دونوں اداروں میں قومی زبان کی ترویج، نفاذ اور ترقی کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کا بے لوث اظہار کیا آج زمانہ اس کا معترف ہے۔
 
جامعہ اردو کے معاملات میں سینیٹ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اس مؤقر ترین ادارے کے پہلے ڈپٹی چیئرمین جمیل الدین عالی‘ دوسرے آفتاب احمد خان، اب مشتاق احمد یوسفی جیسے اہلِ کمال ہوئے۔ اسی طرح بطور رکن انجمن ترقی اردو پاکستان پہلے سید اظفر رضوی اور اب پروفیسر انیس زیدی ہیں۔
جامعہ کا علمی حسن اس کے کتب خانے ہوتے ہیں۔ ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘کے نام سے منسوب کردہ کتب خانہ میں 44 ہزار سے زائد فنون و سائنس کی کتب‘ تحقیقی‘ علمی وادبی رسائل و اخبارات کا وسیع ذخیرہ طالبان علم کی تشنگی دور کرنے کا سبب ہے۔ گلشن اقبال کیمپس کے اس کتب خانہ کے علاوہ مولوی عبدالحق کیمپس کی قدیم اور اسلام آباد کیمپس کی نئی مطالعہ گاہ کے ساتھ ہی تمام شعبہ جاتی کتب خانے بھی طلبہ کی ضروریات کو پورا کررہے ہیں
 
 
+++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 862