donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jahangir Hasan
Title :
   Seerat Shahide Azam

سیرت شہید اعظم
 
جہانگیر حسن٭
 
 اللہ تعالیٰ نے سب سے بہتر نسب اور اعلیٰ خاندان وقبیلے میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدافرمایااور انھیںکے مقدس گھرانے سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔
 
ولادت با سعادت
ان کی ولادت ۵؍شعبان سنہ چار ہجری مطابق ۶۲۴ عیسوی میں بمقام مدینہ منورہ ہوئی۔
ابورافع بیان کرتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے امام حسین کے کان میں اذان کہی۔
      (مستدرک،جلد:۳،ص:۱۹۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائش کے ساتویں دن امام حسین کی جانب سے عقیقہ کیا ،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن وحسین کی پیدائش کے ساتویںدن ان کی جانب سے عقیقہ کیاجس میںدو دو بکرے ذبح کیے۔     ( مصنف عبدالرزاق،جلد:۴،ص:۳۳۰)
حلیہ مبارک
امام حسین رضی اللہ عنہ نہ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ چھوٹے، پیشانی کشادہ اورداڑھی گھنی تھی،جب کہ سینہ چوڑاتھا،آواز بڑی پیاری اوراچھی تھی ،بولتے تو ایسا معلوم ہوتاتھاکہ کانوںمیں رس گھول رہے ہوں،ہتھیلیاں اورقدم کشادہ تھے۔
 
نبی کریم سے کافی مشابہت رکھتے تھے،روایت میں ہے: 
اَلْحَسَنُ أَشْبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بَیْنَ الصَّدْرِ إِلَی الرَّأْسِ، وَالْحُسَیْنُ أَشْبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ۔ (سنن ترمذی،فضل حسن وحسین)
ترجمہ:حضرت حسن سر سے لے کر سینہ تک نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور حضرت حسین سینے سے لے کرنیچے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
 ضحاک بن عثمان حزامی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ جَسَدُ الْحُسَیْنِ شِبْہَ جَسَدِ رَسُولِ اللّٰہِ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (طبرانی،مناقب حسین)
ترجمہ:حضرت حسین کا جسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہ تھا۔
تعلیم وتربیت
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ان خوش قسمت افراد میں ہیں جن کی تعلیم وتربیت بڑے نازونعم سے ہوئی۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین کی تعلیم وتربیت دی ہے ۔اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جن کی پرورش فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی گودمیںہوئی ہو وہ کس قدرکرامت وعظمت والاہوگا۔
مزیدآپ صحابہ کے درمیان ایمانی،نورانی،عرفانی اور قرآنی ماحول میں پلے بڑھے جو انبیاومرسلین کے بعد سب سے بہتر مخلوق ہیں۔
 
ان کی پرورش کس طریقے پر ہوئی ،اس سلسلے میںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ مَعَہٗ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ ہٰذَاعَلٰی عاَتِقِہٖ وَہٰذَاعَلٰی عَاتِقِہٖ وَہُوَ یَلْثِمُ ہٰذَامَرَّۃً وَہٰذَامَرَّۃً حَتّٰی اِنْتَہٰی إِلَیْنَا۔ (مسنداحمد،ابوہریرہ)
 
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اورحسین کے ساتھ باہرنکلے،حسن ایک کاندھے پہ تھے اور حسین دوسرے کاندھے پر،آپ کبھی حسن کو پیارکرتے تو کبھی حسین کو،یہاں تک کہ ہم تک پہنچ گئے۔ 
 
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فَیَجِیء ُ الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَیْنُ فَیَرْکَبُ عَلَی ظَہْرِہِ، فَیُطِیلُ السُّجُودَ۔ (مجمع الزوائد،ج:۹،ص:۱۱۱)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں سجدہ ادا کرتے تو حسن وحسین آتے اورآپ کی مبارک پیٹھ پر سوار ہوجاتے،اس وقت آپ اپنا سجدہ لمبافرما دیتے۔
 
امتیازات وخصوصیات
امام حسین رضی اللہ عنہ حسن تدبر،صبروتحمل،علم وحلم، شجاعت و جوانمردی، فہم و فراست،غیرت مندی، سخاوت و ذکاوت، صداقت اور اخلاق حسنہ جیسی صفات سے متصف تھے، بلکہ اگر سچ کہاجائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سچے اورحقیقی جانشیںو نائب تھے۔
 
ذوق عبادت
جملہ فرائض اورواجبات کی بروقت ادائیگی تو کرتے ہی تھے ، قرآن کریم کی تلاوت بھی بڑے انہماک اور خلوص کے ساتھ فرماتے تھے ،یہی سبب ہے کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ تلاوت میں مشغول رہتے توان کے دل پہ ایک کیفیت طاری ہوجاتی اوراس قدر گریہ زاری کرتے کہ آنسوؤںسے چہرہ اور داڑھی تربتر ہوجاتی تھی۔
اس کے علاوہ رات بھر عبادت وریاضت میں منہمک رہتے اوراللہ کی بارگاہ میںتوبہ واستغفارکرتے رہتے ۔
 
تواضع وانکساری
امام حسین رضی اللہ عنہ دوسرے کریمانہ اخلاق سے متصف ہونے کے ساتھ بڑے منکسرالمزاج بھی تھے۔
ایک بار آپ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاںپر کچھ مسکین زمین پر بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے۔ ان لوگوںنے آپ کو سلام کیا اورکہا:
 
یا ابن رسول اللہ!تشریف لائیں۔آپ سواری سے یہ کہتے ہوئے اترآئے کہ اللہ گھمنڈ کو پسندنہیںفرماتااوران کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھانے لگے،جب فارغ ہوئے توکہاکہ تم لوگوںنے مجھے بلایامیںآگیا، اب میں تم سب کو اپنے گھرآنے کی دعوت دیتاہوںتو اسے بھی قبول کرو۔
 
مشیت الٰہی اورشہادت 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
حضرت جبریل، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  تھے،اسی درمیان حسین ابن علی آپ کے پاس آئے اور کاندھے پر سوارہوکرکھیلنے لگے۔ حضرت جبریل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
یامحمد!آپ حسین سے محبت کرتے ہیں؟نبی کریم نے فرمایا:اے جبریل !اپنے بیٹے سے محبت کیوںنہ کروں!یہ سن کرجبریل نے کہاکہ آپ کی امت ہی حسین کو شہیدکردے گی،اوراپنا ہاتھ بڑھاکر سفید مٹی لائے،پھرکہا:یامحمد! مقام طف میںآپ کے بیٹے شہیدکردیے جائیںگے۔
 
جب جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے توآپ اپنے ہاتھ میں وہی مٹی لے کر روتے ہوئے نکلے،اورفرمایا:
  اے عائشہ!جبریل نے مجھے خبردی ہے کہ میرا بٹیا حسین مقام ’طف‘(کربلا)میں شہیدکردیاجائے گا۔پھر اپنے صحابہ علی، ابوبکر، عمر، حذیفہ،عمار،ابوذرغفاری رضی اللہ عنہم کے پاس گئے اور آپ کی آنکھوںمیں آنسوتھاتو صحابہ نے عرض کیا: 
مَا یُبْکِیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ فَقَالَ:أَخْبَرَنِی جِبْرِیْلٌ  أَنَّ ابْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بَعْدِی بِأَرْضِ الطَّفِّ، وَجَاء نِیْ بِہَذِہٖ۔         (طبرانی،ج:۳،۱۷۸)
 
ترجمہ:یارسول اللہ!آپ کوکس چیز نے رلایاہے؟فرمایا:  جبریل نے مجھے خبردی ہے کہ میرا بیٹاحسین میرے بعد مقام ’طف‘میں شہیدکردیاجائے گااوریہ مٹی لائے ہیں۔
بالآخرمشیت الٰہی کے مطابق ۱۰؍محرم ،۶۱ہجری مطابق ۶۸۱ عیسوی میں شہیدکردیے گئے اور قیامت تک کے لیے امت مسلمہ کے لیے نشان راہ چھوڑگئے۔
 امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو انجام تک پہنچادیا جس کی ابتداحضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہوئی تھی بلکہ وہ خواب سچ کردکھایاجوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھاتھا۔
ڈاکٹراقبال اس کی بڑی اچھی ترجمانی کرتے ہیں:
غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداہے اسمٰعیل
 
تعلیمات وفرمودات
ذیل میں ان کی تعلیمات کے کچھ منتخب حصے پیش ہیں:
٭جان لوکہ بھلائی کے ذریعے ہی بڑائی اوربدلہ ملتا ہے ، اگر لوگوںمیں کوئی بھلا انسان دیکھوتو اس سے اپنی نگاہ کو ٹھنڈک پہنچاؤاوراگرکسی ملامتی انسان کو دیکھوتواس سے اپنے دل کو دور کرلو۔
٭بیشک دنیابدلنے والی ہے اور اس کی بھلائیاں آخرت میں کام آنے والی ہیں،مومن کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی لقا کو مرغوب رکھے ۔
 
٭مجھے بھلائی کی موت پسندہے کیونکہ یہ نیک بختی ہے اور ظالموںکے ساتھ جینامجھے پسندنہیں کیونکہ یہ جرم ہے۔
٭جس چیز کی تمھیں طاقت نہیں اس کا ذمہ نہ لواورجو چیز تم نہیں جانتے اس کا تدارک نہ کرو۔
٭جو چیز تیرے مقدرمیں نہیں اس کو شمارنہ کرواوراپنی قدرت کے مطابق خرچ کرواوراپنے عمل کے مطابق ہی بدلہ طلب کرو۔
 
٭جوکچھ بھی اللہ کی اطاعت سے ملے اس پر خوشی مناؤ، اور وہی کھاؤ جس کا اہل تم اپنے آپ کو پاؤ۔  
٭جس نے سخاوت کی وہ شاد ہوا۔اور جس نے بخل سے کام لیا وہ رسواہوا۔اور جس نے اپنے بھائی کے ساتھ بھلائی کی وہ کل قیامت میں اپنے رب کے پاس پائے گا۔
 
٭جہانگیر حسن
شعبۂ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی -۲۵
mjhasan2009@gmail.com
Mobile: +919910865854 
**********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 866