donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Imran Siddiqui
Title :
   Islam Aur Maghrib Azadi Ya Bandagi

 

اسلام اور مغرب آزادی یا بندگی
 
محمد عمران صدیقی
 
مسلمانوں کا دین اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان کے سب سے بڑے دشمن یہود و نصاریٰ ہیں۔ جن سے وہ نزول عیسیٰ عليہ السلام تک جنگ کرتے رہیں گے تآنکہ دجال قتل کر دیا جائے گا۔آج بھی ہماری اصل جنگ انہیں یہود و نصاریٰ سے ہے۔ یہ ہمارا وہ دشمن ہے کہ جو ہر دور میںآسمانی دین سے رو گردانی کرکے کفر و الحاد کو اپناتارہا ہے۔ جس کی موجودہ صور ت آج کا مغرب ہے جو الحاد کی بدترین صورت ہے۔ یہ سلسلہ مضامین مغرب کے نظریات کو جاننے اور انہیں اسلام کے ترازو میں تولنے کی ایک کاوش ہے تا کہ امت مسلمہ اپنے دشمن کے نظریاتی 
حملوں کو پہچان کر اس سے بچائو کا سامان کر سکے۔ آزادی کے مد مقابل یوں تو غلامی کا لفظ آتا ہے اور ’غلامی‘ کا مفہوم عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسان یا گروہ ، قوم یا نسل کسی دوسرے انسان، گروہ ، قوم یا نسل کے ہاتھوں غلام بنادی جائے۔ ایسی غلامی کو اسلام نے محدود کیا اور اس کے لیے زبردست قسم کے قواعد و ضوابط عطا کیے۔ آج اس طرز کی جسمانی غلامی ظاہری طور پر ختم ہوجانے کے باوجود حقیقی اعتبار سے فکری، معاشی، سیاسی اور ثقافتی غلامی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یعنی حقیقتاً غلامی کا خاتمہ نہیں بلکہ محض شکل تبدیل ہوئی ہے۔ لیکن یہ ’آزادی‘ اور ’غلامی‘ فی الوقت ہماری گفتگو کا موضوع نہیں اس کو ہم کسی اوروقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
 
زیر نظر سطور میں ہم جو بات کرنا چاہتے ہیں وہ ہے ’آزادی‘ اور ’بندگی‘ یعنی ایسی’آزادی ‘جس کا مقابل ’غلامی‘ نہیں بلکہ ’بندگی‘ ہے یا زیادہ واضح الفاظ میں ’’بندگی رب‘‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا اقرار و اعتراف جو اسلام کا سب سے پہلا سبق ہے اس اللہ وحدہ لا شریک کے لیے اپنے تمام افکار، اپنے جذبات، اپنی خواہشات ، اپنی بصارت ، اپنی سماعت، اپنی گفتار اور اپنے کردار حتی کہ پوری کی پوری زندگانی اور اپنی موت بھی … اپنا سب کچھ … اس مالک کائنات کے سامنے تسلیم کردینا ، جھکا دینا، اس کی مرضی کے تابع کردینا، اس کی وحی ، اس کے پیغمبر ، اس کی کتاب کے بتائے ہوئے راستے پر چلا دینا۔{ قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}(الانعام :۱۶۲)’’ کہہ دیجئے! کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت ایک اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘اور پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ اس مالکِ کائنات ، خالقِ ارض و سماوٰت ، اللہ رب العالمین کی بندگی اختیار کرنا ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے یا یوںکہیں کہ ایک قدم پہلے… بندگیٔ رب کے علاوہ ہر قسم کی بندگی سے انکار کرنا ہے۔ ہر قسم کی بندگی کرانے والے جھوٹے معبودوں کی عبادت کا کفر کرنا ہے۔ عبادت کا تعلق قلبِ انسانی سے ہو یعنی محبت، خوف، امید و رجا، بھروسہ و توکل یا اعضاء و جوارح سے ہو دعاو ندا، رکوع، سجدہ، طواف، اعتکاف، قربانی، ذبیحہ یا قوانین اور ضابطوں سے ہو، معاشرتی، معاشی یاسیاسی قواعد و ضوابط ہوں، جس کے مانے جائیں گے اس کی بندگی ہوگی۔ اور اسلام ہمیں ان تمام عبادات چاہے وہ قلبی ہوں، اعضاء و جوارح سے متعلق ہوں یا اطاعت سے صرف ایک اللہ رب العالمین کے لیے خاص کرنے اور باقی تمام جھوٹے معبودوں (طاغوت) کی بندگی کا انکار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد ہی یہی بتایا ہے۔{ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ} (النحل:۳۶)‘‘اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (تاکہ دعوت دے)کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو’’۔{فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لَا انفِصَامَ لَہَا} (البقرۃ:۲۵۶)"جس شخص نے طاغوت کا کفر کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں"۔بلکہ مسلمان ہونے کے لیے ہم جس کلمہ کا اقرار کرتے ہیں، تمام انبیاء جس کی تعلیم دیتے رہے اس کا معنی ہی یہی ہے لاالہ الااللہ ’’کوئی عبادت کے لائق نہیں… سوائے اللہ کے۔‘‘یوں مسلمان ہونے کے لیے جو سب سے پہلی اور اہم ترین بات ضروری ہے وہ ہے بندگی اور عبادت مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کردینا، اپنی نفسانی خواہشات، اپنے خام عقلی توہمات و مفروضات، اپنے جیسے انسانوں یا اپنے سے گئے گزرے جمادات ــ-آگ، سورج، چاند ، ستاروں -یا حیوانات- گائے، بندر- یا نباتات وغیرہ یا جنات اور فرشتوں اور نبیوں کی عبادت وبندگی کا انکار۔ بندگی کے مقابلے میں آج کی جدید جاہلیت ’آزادی‘ کا نعرہ بلند کرتی ہے۔
 
 جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا ’آزادی‘ سے ان کی مراد ’غلامی‘ سے آزادی نہیں بلکہ وہ ’بندگی‘ سے آزادی چاہتے ہیں۔ ’محبت‘ کے نفیس اور اعلیٰ جذبات اللہ رب العالمین کے لیے خاص کرنے کی بجائے عورت، دولت، شہرت پر بلکہ قوم اور رنگ و نسل پر نچھاور کرتے ہیں۔ قیام، رکوع، سجدہ، ذبیحہ ، ندا،دعاہر سچے جھوٹے ، معبود کے لیے روا رکھتے ہیں۔ قانون بنانے کا حق اللہ مالک الملک کی بجائے خواہشات و توہمات کے بندوں کی اکثریت کا حق مانتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ کی بندگی سے فرار اور انسان کی الوہیت کا اقرار’آزادی‘ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی، کلام اللہ او رکتاب اللہ کی حکمرانی اور پیغمبروں کی اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض اور خواہشات و توہمات اورشہوات وشبہات کی اور نفس و گمان کی پیروی کو ’آزادی‘کہتے ہیں۔ اسی لیے آج کی جدید جاہلیت، کا کلمہ لا الہ الاالانسان (Man is the master of the universe)ہے۔اسلام اس ’الوہیتِ انسانی‘ یا ’حاکمیت ِجمہور‘ کو خواہشاتِ نفسانی اور شہوات ِانسانی کی غلامی و بندگی قرار دیتا ہے:{أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنتَ تَکُونُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا}(الفرقان:۴۳)‘‘آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟’’
 
یوں انسان ’آفاق‘ میں پھیلے بتوں کی پرستش سے ہزار کوشش کے بعد کسی حد تک چھٹکارا پا بھی سکے تو ’انفس‘ میں چھپے بتوں کی پرستش پر مائل ہوجاتا ہے۔ ’عبادت‘ اور ’بندگی‘ تو بھوک اور پیاس سے بھی پہلے انسانی فطرت ہے۔ اس سے ’آزاد‘ ہوکر توکوئی انسان جی ہی نہیں سکتا ہے۔سچے معبود کی پہچان نہ ہو تو بندگی کے نفیس جذبات، پرستش کے افعال اور اطاعت… آدمی جھوٹے معبودوں کے چرنوں میں ڈھیر کردیتا ہے۔ ’بندہ‘ کو بندگی ہی کرنا ہے۔ حقیقی معبود کی کرے یامن گھڑت معبود تراشے۔اسلام انسانوں کو ’آزادی‘ نہیں ’بندگی‘ کا سبق دیتا ہے۔ اور اللہ کے پیغمبر انسانوں کو جھوٹے معبودوں ، طاغوتوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ خالق ِدو جہاں ، مالکِ کائنات اور مدبر الامر، رب تعالیٰ کی ’’بندگی‘‘کی طرف بلاتے ہیں۔
یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ’آزاد‘ رہنا ہے یا ’بندگی‘ اختیار کرنا ہے۔ پھر خالص اللہ کی بندگی اختیار کرکے موحد بننا ہے یا بندگی میں اللہ کا شریک ٹھہرا کر مشرک بننا ہے۔جو فیصلہ ہم کریں گے، اس کے نتائج کے ذمہ دار ہوں گے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی!(( اَللّٰھُمَّ إِنیِّ عَبْدُکَ ،إِبْنُ عَبْدِکَ،إِبْنُ أَمَتِکَ۔))‘‘اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا اور تیری بندی کا بیٹا۔’’(( نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ،مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ!))(أحمد)‘‘میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ،تیرا حکم مجھ میں جاری ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل ہے۔
 
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا ہی اپنی بندگی کے لیے کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِِ } (الذاریات :۵۶)‘‘اور جنوں اور انسانوں کو میں نے صرف اسی لیے پیدا کیا کہ میری عبادت کریں۔’’اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل کو اسی مقصد ِحیات کی یاد دہانی کے لیے مخلوق کی طرف بھیجا۔ربعی بن عامر رضي اللہ عنہ نے شاہ ِرستم کے دربارمیں اپنی دعوت کااظہار کرتے ہوئے فرمایا
:(( اَللّٰہُ اَبْعَثَنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ عَنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادَۃِ اِلٰی عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَحْدَہٗ ، وَمِنْ ضِیَقِ الدُّنْیَا اِلٰی سِعَۃِ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ ، وَمِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ۔))‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجاکہ ہم نکالیں انسانوں کو بندوں کی بندگی سے اللہ اکیلے کی بندگی کی طرف ،دنیا کی تنگنائیوں سے دنیا و آخرت کی وسعت میں اور ادیان کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف۔’
’’آزادی‘ کا نعرہ درحقیقت ایک دھوکا ہے، فریب ہے، دجل ہے، جوانسانوں کو ایک گمراہی سے نکال کر دوسری ظلمت میں پھینک دیتا ہے، قدیم جاہلیت سے جدید جاہلیت کی طرف، اللہ تعالیٰ کی بندگی سے خواہشاتِ نفس کی بندگی میں لے جاتا ہے اور العلم، الروح یعنی وحی الہی کی پیروی اور اتباع سے نکال کر ظن وگمان اور توہمات و مفروضات کی پیروی ، عقلِ انسانی، کثرتِ رائے اور انسانی حقوق کے خوبصورت پردوں میں کرواتا ہے۔
 
اوپر ذکر کیے گئے صحابی رسولؓ کے قول پر ذرا دیر کے لیے رکیے اور غور کیجیے۔ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی میں لانا چاہتے ہیں۔ انسانیت کی اکثریت عام طور پر ماضی میں بھی اور حال میں بھی اپنے جیسے بندوں کی بندگی میں رہی ہے۔ کبھی پیر، پروہت، پادری اور پنڈت اپنی پوجا کراتے، کبھی بادشاہ ، سردار، احبار ورہبان اپنے حکم کے سامنے جھکاتے رہے۔ اور آج کی جدید جاہلیت کے علمبردار اکثریت، جمہوریت، سائنس، عقل ،عالمی اداروں اور سوشل سائنسز کے نام پر انسانوں
 کو اپنے جیسے انسانوں کے اھواء و ظنون کا جواء گردنوں میں ڈالنے پر مجبور کررہے ہیں اورراغب کررہے ہیں اورپھر اس کو آزادی کا نام دیتے ہیں۔ ’آزادیٔ افکار‘ آزادیٔ اظہارِ رائے، آزادیٔ نسواں، آزادیٔ قوم و ملک۔اسلام ان انسانی خواہشات اور توہمات کو،وہ آباء و اجداد کی روایات ِر سوم ورواج پر مبنی ہوں یا فلاسفہ و مفکرین اور ماہرین ِمذاہب کے خیالات پر مشتمل ہوں۔ العلم، الروح یعنی وحی الٰہی کی میزان میں تولتا ہے۔ جوبات وحیٔ الہی ، کلامِ الٰہی، یا سنتِ نبویؐ سے اخذ ہو یا اجماع اور قیاس سے حاصل کی جائے یا پھر میزان شرع میں پوری اترتی ہو، وہی قابلِ قبول ہوگی اور باقی سب رد ّ اور مردود۔آباء واجداد کی روایات ہوں یا مذہبی پروہتوں کی مزخرفات، نفسانی خواہشات کی خرافات ہوں یا خام عقلی تصورات و نظریات، انسان فرد واحد ہو یا اکثریت کی پیروی ان سب کو اسلام اصر و اغلال سے تعبیر کرتا ہے۔ اور انسانی قلب و عقل اور اجسام و ارواح پر پڑے ان بوجھوں کو اتارنے کے لیے جھگڑتا ہے اور انسان کو زر، زن اور زمین کی محبت سے نکال کر زر، زن اور زمین کے خالق و مالک کی محبت کی طرف دعوت دیتا ہے۔
یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ جاہلیت جدید ہ کے ان اھواء و ظنون کو بعض مسلمان دانشور اور مفکرین اسلام کے ساتھ جوڑنا شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اسلام تو خود آزادی… آزادیٔ فکر و عقیدہ ، آزادیٔ اظہار ِرائے، آزادیٔ نسواں ، آزادیٔ ملک و قوم کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔مگر حقیقت میں یاتو وہ خود التباس کا شکار ہوتے ہیں یا مسلمانوں کو خلط ِمبحث میں ڈال کر گمراہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے آزادیٔ فکر و عقیدہ کی، تو اس میں کیا شک ہے کہ اسلام ’لا اکراہ فی الدین‘ کی تعلیم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی قرآن اور پیغمبرؐ اسلام ، ایمان اور توحید کو ’الحق‘ قرار دیتے ہیں اور غیر اسلام کو کفر، شرک اور ظلم قرار دیتے ہیں، ’’باطل‘‘ قرار دیتے ہیں یوں دنیا میں انسان عقیدہ و فکر کی بنا پر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ’’اہل حق‘‘ اور ’’اہل باطل‘‘ اور آخرت میں بھی اسی بنا پر ’’اہل جنت‘‘ اور ’’اہل دوزخ‘‘ میں تقسیم ہوں گے۔جبکہ جاہلیتِ جدیدہ آزادیٔ فکر وعقیدہ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہر عقیدہ اختیار کرنا انسان کا بنیادی حق ہے وہ اسلام کو مانے 
یا غیر اسلام کو ، توحید کو قبول کرے یا شرک کو، مسجد بنائے یا مندر بنائے، بت کو پوجے یا صلیب کو یا سرے سے کسی خدا اور اس کی بندگی کا منکر بن جائے یہ سب ہی حق ہے اورانسان کا بنیادی حق لہٰذا اس عقیدہ وفکر کی بنا پرانسانوں کی تقسیم ’ناحق‘ ہے کوئی عقیدہ ’الحق‘ یا ’باطل‘ نہیں ، سب ہی برابر ہیں۔ (مساوات کی قدر پر آئندہ کسی مجلس میں تفصیل سے بات کریں گے۔ا ن شااللہ
)’آزادیٔ اظہارِ رائے‘ کو بھی بعض لوگ اسلام کی دین قرار دیتے ہیں۔ کہ ایک بھری مجلس میں ایک عام آدمی خلیفۃالمسلمین کا احتساب کرنے کی جرات رکھتا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ توہین ِرسالت کے مجرم کی گردن اڑادینا بھی اسلام کی تعلیم ہے۔ اور خاکے بنانے والوں کو آج کی جاہلیت ِجدیدہ ’آزادیٔ اظہارِ رائے‘ کا نام دیتی ہے۔ الفاظ ایک ہی ہوں تب بھی معنی مختلف ہوسکتے ہیں۔’آزادیٔ نسواں‘ جاہلیت ِجدیدہ کی نظر میں ’عورت‘ آزادہے ، اپنی مرضی کی خود مالک ہے، اپنے جسم کی بھی ، چاہے طوائف کا پیشہ اختیار کرے، ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بیک وقت قائم رکھے۔ عورت، عورت سے شادی رچائے، سب کچھ ’قانونی‘ ہے، جائز ہے، عورت کا بنیادی حق ہے ، آزادیٔ نسواں کی علامت ہے۔اسلام ’بندگی‘ کا حکم دیتا ہے مرد ’آزاد‘ ہے نہ ’عورت‘ جسے الحق کی تلاش ہے وہ اپنے نفس کو اپنے رب کے سپرد کردے ، اپنی مرضی اور خواہش اورچاہت اور فکر کو اللہ اور اس کے رسول کی مرضی سے سامنے جھکا دے۔
’آزادیٔ قوم و ملک‘ یعنی جس خطے پر جو قوم بستی ہے، وہ خطہ اسی قوم کی مِلک ہے، وہاں اس کی منشا و مرضی چلے گی، وہاں کی اکثریت جو چاہے کر گزرے البتہ یہ آزادی بھی بنیادی حقوق، اقوام متحدہ کے چارٹر وغیرہ کے ماتحت ہوگی۔اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ فرد اپنے جسم اورقوم اپنے ملک کی خود مالک نہیں بلکہ یہ اللہ کی امانت ہے ، فرد اپنے جسم پر اللہ کا حکم جاری کرے گا اور قوم اپنے ملک پر خدا کی مرضی!’آزادی‘ ’بندگی‘ کی ضد ہے ہم مسلمان ہیں ’آزاد‘نہیں۔ اپنے رب کے بندے ہیں اللہ کو رب مان کر خوش ، محمد ﷺ کو نبی مان کر مطمئن اور اسلام کو دین جانتے ہوئے اطاعت گزار۔
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبیَّ، لَااِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلیٰ عَھْدِوَ وَعْدِکَ مَا اِسْتَطَعْتُ)۔۱؎ ‘‘اے اللہ! توہی میرا رب ہے، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، تونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد او ر وعدے پر قائم ہوں جس قدر طاقت رکھتا ہوں۔’
’آیئے سوچیں! ہمیں کیسی زندگی بسر کرنا ہے ؟ من چاہی! جگ چاہی! یا رب چاہی۔
 
+++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 817