donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Karbala Ka Musafir

کربلا کا مسافر


 صابررضا رہبر


نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑا ہے۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہا تھا آج نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔۔۔۔۔۔ امام عالی مقام کے جان نثار ایک ایک کر کے راہ حق میں توحید کی گواہی دیتے دیتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔۔۔۔۔۔ چمنستان فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ عون و محمد بھی رخصت ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ عباس علمدار مقام شہادت پاچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے سے لگاچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضا کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔۔۔۔۔۔ امام عالی مقام اپنے جان نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، بہادری اور جوانمردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں، امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے ہیں۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر کے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوار کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔ یزیدی لشکر نے جان نثاران حْسین رضی اللہ عنہ کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفردی جنگ بند کردی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے’ کئی گھنٹوں تک حْسین رضی اللہ عنہکے جسم پر تلوار کا زخم نہ لگا کیونکہ قریب آ کر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہوگیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے، یکبارگی حْسین رضی اللہ عنہ کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔ 


زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کرلینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔ اے اطمینان پاجانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)حسین! میں تجھ پر راضی ہوگیا۔ اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں، حور وغلمان تیرے منتظر ہیں، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں۔ 


مقام بیضہ پر آپ نے اپنے ساتھیوں اور حر کے فوجیوں کے سامنے یہ جوخطبہ ارشاد فرمایااس کاایک لفظ دنیائے حق صداقت کیلئے مشتعل راہ ہیںآپ نے فرمایاکہ’اے لوگو نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے، اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے، عہد الٰہی کی شکست کرتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے، نہ اپنے قول سے، تو ایسے لوگوں کو خدا اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا۔دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں۔ رحمن سے سرکش ہو گئے ہیں۔ ہر طرف فساد ہے۔ حد ود الہٰی معطل ہیں۔مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے۔ اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ حق دار ہوں۔ تمہارے بے شمار خطوط اور قاصد میرے پاس پیام بیعت لے کر پہنچے۔ تم عہد کر چکے ہو کہ نہ تو مجھ سے بے وفائی کرو گے نہ مجھے دشمنوں کے حوالے کر و گے۔ اگر تم اپنی اس بیعت پر قائم ہو تو یہ تمہارے لیے راہ ہدایت ہے ‘‘۔


کچھ دور آگے چل کر آپ رضی اللہ عنہ نے پھر خطبہ ارشاد فرمایا:’’افسوس تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے ،باطل پر اعلانیہ عمل کیا جارہا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے، وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں رضائے الٰہی کی خواہش کرے۔ میں شہادت ہی کی موت چاہتا ہوں۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ایک جرم ہے‘‘۔ مقام قصربنی حقاتل پر کچھ دیر کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اونگھ گئے ،آنکھ کھلی تو بآواز بلند فرمایا:’’انا للہ وانا الیہ راجعون،الحمد للہ رب العالمین ‘‘بار بار یہی فرماتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے علی اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا۔میں اونگھ گیا تھا۔ خواب میں دیکھا کہ ایک سوار آواز لگاتا ہوا جا رہا ہے، لوگ چلتے ہیں موت ان کے ساتھ چلتی ہے۔ پھر فرمایا : یہ ہماری موت کی خبر ہے جو ہمیں سنائی گئی ہے۔علی اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا ابا جان ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟فرمایا: بے شک ہم حق پر ہیں ،اس پر انہوں نے کہا: اگر ہم حق پر ہیں تو پھر موت کی کوئی پرواہ نہیں۔

(مضمون نگارانقلاب پٹنہ میں سب ایڈیٹرہیں)

Comments


Login

You are Visitor Number : 645