donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Rokhsati Se Pahle Talaq Ka Badhta Rujhan


 

رخصتی سے پہلے طلاق کا بڑھتا رجحان


    جب دو خاندان اپنے بچوں کا رشتہ طے کرتے ہیں تو ایک لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے سے منسوب کردیتے ہیں۔ اگر انگوٹھیوں کے تبادلے ہو جائیں تو اسے منگنی کا نام دے دیا جاتا ہے چونکہ منگنی ایک زبانی معاہدہ ہوتا ہے لہٰذا اسے توڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اگر فریقین آگے چل کر اس رشتے سے مطمئن نہیں ہوتے تو جھٹ اس رشتے کو توڑنے کا اعلان کردیتے ہیں اور یوں انگوٹھیاں واپس آجاتی ہیں اور قطع تعلق ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال عموماً لڑکی والوں کے لیے کافی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔ منگنی کرتے وقت سے انہیں شادی تک ہی خدشات لاحق رہتے ہیں کہ کہیں لڑکے والے منگنی نہ توڑ دیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ بعض اوقات لڑکے والے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سنگین بناکر منگنیاں توڑ دیا کرتے یا پھر کوئی باہر کا فریق انہیں بہکا سکھلاکر کر منگنی توڑنے پر مجبورکردیتا ہے لہٰذا نتیجتاً خاص طور پر لڑکی کے والدین منگنی کے بجائے نکاح کرنے کو ترجیح دینے لگے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں نکاح توڑنا یا ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ اور عمل ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ منگنی کا رحجان اب بہت کم ہوگیا ہے اور نکاح کرنے کی روایت بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے مگر نکاح کے معاملے میں ہمیں منگنی سے کہیں زیادہ نقصانات نظر آئے گو کہ نکاح ٹوٹنے کے منفی اثرات لڑکے پر زیادہ مرتب نہیں ہوتے مگر لڑکی کی حیثیت ’’طلاق یافتہ‘‘ کی ہوجاتی ہے۔

آج کل منگنی یا نکاح کے بندھن میں بندھتے ہی لڑکا اور لڑکی کا ٹیلی فونک رابطہ فوراً قائم ہو جاتا ہے اور یوں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو جاننے کی خواہش میں ایک دوسرے کی خامیوں اور کمیوں کو بھی بہ خوبی جان اور سمجھ لیتے ہیں چوں کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں نکاح کی شرعی و قانونی حیثیت بہت مضبوط ہے، لہٰذا اگر لڑکا اپنی منکوحہ سے ملنا چاہتا ہے تو اس ضمن میں  لڑکی کے گھر والے اسے منع کرنے کے مجاز نہیں ہوتے، ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح کے بعد لڑکا لڑکی آزادانہ ملتے جلتے اور گھومتے پھرتے ہیں کیوں کہ ان کے اوپر کسی قسم کی پابندی جو نہیں ہوتی، مگر اگر ایک فریق کا دل دوسرے سے بھرجائے یا اس کی خامیاں اس کی برداشت سے باہر ہونے لگیں یا پھر اسے اس سے بہتر شخصیت نظر آجائے تو خاص طور پر لڑکا یہ سوچنے لگتا ہے کہ ’’ابھی تو رخصتی نہیں ہوئی یا ابھی لڑکی رخصت ہوکر میرے گھر تو نہیں آئی! لہٰذا ابھی اس بندھن سے بہ آسانی آزاد ہوا جا سکتا ہے وغیرہ‘‘ تو ایسی صورت حال میں ایک لڑکی کی حیثیت معاشرے ، اس کے گھر والوں اور خود اس کے سامنے کیا رہ جائے گی؟  بہت سی لڑکیاں ہیں جو شادی سے پہلے طلاق ہوجانے کے بھیانک اور تلخ تجربے سے گزری ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کی مناسب وقت پر شادی نہ ہونے جیسے گمبھیر مسائل ہیں وہاں ایسی لڑکی جو رخصتی سے پہلے طلاق کے عمل سے گزرچکی ہو اس کے لیے مناسب بر تلاش کرنا نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسی لڑکیوں سے عموماً ایسے مرد حضرات شادی کے لیے رضامند ہوتے ہیں جو یا تو پہلے سے شادی شدہ ہوں اور کسی وجوہ کی بنا پر عقد ثانی کی خواہش رکھتے ہوں یا پھر عمر میں ان سے دْگنے ہوں، رخصتی ہونے سے پہلے طلاق یافتہ لڑکیوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے جو ایک شادی شدہ طلاق یافتہ عورت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ انتہائی تگ و دوکے بعد جب ان کی شادی ہوتی ہے تو مرد کے دل میں اول روز سے ہی یہ بات گھر کیے ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس سے پہلے بھی کسی کے نکاح میں رہ چکی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے شوہر کی نگاہوں میں مشکوک و معتوب ٹھہرتی ہے۔ اگر سسرال والے منفی اذہان کے مالک ہوں تو وہ بھی بات بے بات لڑکی کو اس کے سابقہ شوہر کا طعنہ دیتے ہیں جو رخصتی سے پہلے ہی اسے چھوڑ چکا ہوتا ہے۔

نکاح کے بعد اگر لڑکی اپنے شوہر کی خامیوں اور برائیوں پر سمجھوتہ نہیں کرپا رہی ہوتی ہے اورخلع حاصل کرتی ہے تو اس صورت حال میں بھی لڑکی کو ہی غلط اور قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے کیوں کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت ذات کو ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ’’لاعلمی نعمت کے مصداق ہے۔‘‘ منگنی اور نکاح کے بعد لڑکی لڑکا محض ایک دوسرے کی خوبیوں، خامیوں کو جاننے کے لیے ٹیلی فونک رابطہ رکھتے ہیں اور آگے چل کر یہی رابطہ ملاقاتوں کی راہ ہموار کرتا ہے، ایک دوسرے کی خامیوں کو جاننے کی خواہش و کوشش میں دونوں شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے سے بیزار ہوجاتے ہیں اور یوں رشتے جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔

نکاح کا بندھن انتہائی پاکیزہ اور حساس ہوتا ہے گو کہ یہ انتہائی نازک ہوتا ہے مگر اس کے ٹوٹ جانے کے ثمرات بہت گمبھیر و سنگین ہوتے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے مستقبل پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی غرض سے منگنی کے بجائے نکاح پر آمادہ ہیں ؟ تو یہ اقدام کافی سوچ بچار اور صلاح و مشورے کے بعد اٹھائیے کیوں کہ خدانخواستہ منگنی کی طرح نکاح بھی ٹوٹ سکتا ہے اور چوں کہ منگنی کے مقابلے میں نکاح کی ایک مضبوط شرعی و قانونی حیثیت بھی ہے، لہٰذا ایسے میں آپ کی بیٹی کو کن نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ نقطہ ذہن میں رکھ کر ہی فیصلہ کیجیے۔

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 559