donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Electronic Media Ka Sharamnak Rawaiya

الیکٹرانک میڈیا کا شرمناک رویہ


حفیظ نعمانی

 

کسی بھی مقابلہ میں ہارنے کے بعد مختلف اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ الیکشن میں 2014 ء میں جس بری طرح کانگریس ہاری وہ اس کے بڑوں کو پاگل کردینے والا نتیجہ تھا لیکن جو کچھ سامنے آیا اُسے دیکھ کر دُکھ تو ہوا شرم نہیں آئی اس کے بعد کانگریس نے ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ بھی کھو دیا اس کے بھی جو اثرات نظر آئے وہ بھی شرمناک نہیں تھے۔ لیکن بی جے پی اور اس کی ماں سنگھ کو کیا ہوگیا کہ دہلی کی ہارنے انہیں آدمی کے بجائے دھوبی کا وہ بنا دیا جس کی کمر پر کپڑے لادکر وہ لے جاتا ہے؟ پہلے ہی دن جب کجریوال اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ اسمبلی میں جاکر بیٹھے تو میڈیا کا تاج کہلانے والے ٹی وی کے رپورٹر پانچ پانچ کلو کے کیمرے لٹکاکر پہونچ گئے اور ایسے تیور کے ساتھ پہونچے جیسے ملزموں کے بیان لینے آئے ہیں۔ اس دن انہوں نے جو کیا اور وہاں جو ہوا اسے ایک مسئلہ بنا دیا ہے کہ ہماری توہین کی گئی۔

ہم ہی نہیں ہر سیاسی تجزیہ نگار جانتا ہے کہ ٹی وی کا ہر چینل 2014 ء میں مودی کے غلام کی طرح کام کررہا تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کو جو 280  سیٹیں ملیں ان میں 100  سیٹیں صرف ٹی وی کی وفاداری کی عنایت سے ملی ہیں۔ ٹی وی پر اُن کا قبضہ ہے جو ذہنی طور پر سنگھ کے بندے ہیں اور جو کارکن ہیں ان میں بھی 80  فیصدی وہی ہیں جن کو دہلی کی ہار سے اتنی ہی تکلیف ہے جتنی موہن بھاگوت کو مودی اور امت شاہ کو ہوئی لیکن اس کا ردّعمل جو سامنے آرہا ہے اس سے یقین ہوجاتا ہے کہ سب صدمہ سے جانور ہوچکے ہیں۔ عاپ پارٹی کے ابھی صرف سات آدمیوں نے وزارت کا حلف لیا ہے۔ ابھی کسی نے ایم ایل اے کا بھی حلف نہیں لیا اور نہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوا ابھی وزیر اعلیٰ وزیر اعظم سے چترویدی کو اپنا او ایس ڈی بنانے کی درخواست کررہے ہیں دوسری طرف جھاڑو مارکہ ٹوپیاں سر پر رکھ کر پہلے دن کجریوال کے گھر کے باہر بھاگوت کی فوج مظاہرہ کرنے پہونچی کہ پانی اور بجلی لائو کل اسمبلی کے سامنے پوری فوج بینر ٹوپی لے کر پہونچ گئی کہ ہم نے پانچ سال نہیں دیئے ہیں ہمیں تو فوراً ہر وعدہ کا نتیجہ چاہئے اور ہر ٹی وی چینل اس قدر اہمیت کے ساتھ اس کو دکھا رہا ہے جیسے بہار کی طرح عاپ پارٹی میں بھی کوئی مانجھی پیدا ہوگیا اور بغاوت ہوگئی۔ مسلم سماج کی روشنی میں اگر اس کی وضاحت کریں تو ابھی عاپ پارٹی کا صرف نکاح ہوا ہے ابھی نہ رخصتی ہوئی ہے نہ ولیمہ ہوا ہے نہ چوتھی ہوئی ہے نہ چالا ہوا ہے لیکن ٹی وی کا پورا جتھا کیمرے لے کر پہونچ گیا کہ یہ بتائے کہ لڑکا ہوا یا لڑکی اور ہم اس کا فوٹو لے کر جائیں گے۔


ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی انڈیا کو بہت سنجیدہ مانا جاتا ہے لیکن وہ بھی جب بات بھگوا رنگ کی آجاتی ہے تو خاکی نیکر پہن کر ننگی ٹانگیں دکھانے سے نہیں چوکتا۔ اس کے ایک سینئر رپورٹر کا پورے الیکشن میں یہ کام رہا کہ روز کسی نہ کسی ایسی جگہ جاتے تھے جہاں خوشحال، خوش پوشاک اور خوش خوراک والے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی جیبیں ہلکی کرنے آجاتے ہیں۔ ان کا کام یہ تھا کہ صرف ان سے معلوم کرتے تھے جو زعفرانی طبقہ ہے کہ بتائے دہلی کے الیکشن میں آپ کے نزدیک کسے ووٹ دینا چاہئے وہ جواب دیتے تھے بی جے پی۔ کسی کسی سے رپورٹر یہ معلوم کرتے تھے کہ اور کجریوال؟ ان کا جواب ہوتا تھا کہ اچھے آدمی ہیں مگر مستقل مزاج نہیں ہیں وہ سیاست نہیں تفریح کرتے ہیں ہر دن کم از کم 25  جواب سنواکر وہ اپنے ناظرین کو یقین دلا دیتے تھے کہ بی جے پی۔ میں بیمار آدمی ہوں عزیز اور دوست دل بہلانے آجاتے ہیں وہ بھی سنتے تھے تو ان کے منھ سے بھی نکلتا تھا کہ مقابلہ تو اچھا ہے مگر لگتا ہے کہ بی جے پی ہی جیت جائے گی۔


جو کچھ الیکشن کے دوران ہوا اور جواب ہورہا ہے وہ صرف وہ پیسہ ہے جو انہیں اپریل 2014 ء سے اب تک مل رہا ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ کچھ دیوانے اپنی نوکری چھوڑکر اپنی زندگی دائو پر لگاکر ملک کو گندگی سے پاک کرنے کے لئے جان کی بازی لگارہے ہیں اور جنہیں جمہوریت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے ان کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑا ہوجانا چاہئے تھا وہ ہندوستان کو ایسا ہی نہیں بلکہ اور بدتر بنا دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے نہرو جی کے بارے میں کسی سے نہیں سنا لیکن اندراجی سنجے اور راجیو اس کے بعد ان کی اولاد نے جس طرح ملک کو لوٹا اور سیاست کو گندہ کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی محکمہ کا بڑا افسر اور انجینئر ایسا نہیں ہے جو ٹاٹا اور برلا یا امبانی کے نقش قدم پر نہ چل رہا ہو۔ نوئیڈا کے یادو سنگھ اکیلے نہیں ہیں ہر صوبہ میں ہزاروں یادو سنگھ ہیں اور ان کی حیثیت وزیر اعلیٰ کے پوسٹ مینوں کی ہے جو رات دن منی آرڈر لاتے ہیں اور بس۔


مشہور بہن جی کے زمانہ میں اکثر سننے میں آتا تھا کہ فائل ان کے پاس رکھی ہے اور صاحب معاملہ کو بتادیا ہے کہ جس دن صبح کو ایک کروڑ پہونچا دو گے اسی دن شام کو آرڈر لے جانا۔ کل زور شور سے خبر آئی کہ آنجہانی بال ٹھاکرے کے پوتے نے وزیر اعلیٰ کو اس پر راضی کرلیا ہے کہ ممبئی کے سارے مال سارے تفریحی سینٹر بار اور ریسٹورنٹ رات بھر کھلے رہیں گے اس لئے کہ ممبئی وہ شہر ہے جو دن بھر کماتا ہے اور پوری رات تفریح کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ اس طرح کے سرکاری آرڈر کراتے ہیں وہ ایسی سرنگ بناتے ہیں جس میں صرف وہ گاڑیاں وزیر اعلیٰ کے بیڈروم تک جاپاتی ہیں جو سونے، ہیرے اور نوٹوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ طرز حکومت ہے جو اندرا گاندھی نے ایجاد کیا تھا اور جس کی نقل تمل ناڈ کی ماں اور اُترپردیش کی بہن جی اور دوسری ریاستوں کے سربراہ اور ملک کے سربراہ کرتے ہیں۔


وزیر اعظم مودی نے بڑے اور کڑے تیور کے ساتھ انگریزی میں بولتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت کسی بھی مذہبی گروپ کو نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی اور کسی بھی مذہبی تشدد کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ یہ ایسی بات تھی کہ ہر اخبار کو اس پر اداریہ لکھنا چاہئے تھا لیکن وزیر اعظم کا بیان پانچ گرجاگھروں اور ایک عیسائی اسکول میں توڑپھوڑ کے بعد آیا ہے یعنی اس کا نشانہ لوجہاد، گھر واپسی، چور پکڑا گیا مال واپس لینا ہے، اور گوڈسے مندروں کی تعمیر نہیں ہے۔ مودی نے سب کچھ انگریزی میں اسی لئے کہا ہے کہ ان کے دوست براک اوبامہ ان کی ہی آواز میں سن کر خوش ہوسکیں۔ ہم اس دن لکھیں گے جس دن وہ ہندی میں مسلمانوں کا نام لے کر ان کو یہ یقین دلائیں گے کہ ساکشی، سنگھل، پروین توگڑیا، رام زادے اور حرام زادے کی زہر افشانی پر لگام لگائیں گے اور انہیں گود میں لے کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ہر ممبر سے معاف کرنے کا شوق ختم کردیں گے۔


ہمارے نزدیک وزیر اعظم کو اس کی وضاحت کرنا چاہئے کہ انا ہزارے کے چیلوں کو جنہوں نے عاپ پارٹی بنائی ہے انہیں بھرشٹاچار ختم کرنے میں ایماندار مانتے ہیں یا نہیں؟ اور وہ جو بھرشٹاچار مکت بھارت بنانا چاہتے ہیں تو کیا اس کا سہرا صرف اپنے سرپر باندھنا چاہتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کام کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ آر ایس ایس کے بہادر جو کررہے ہیں اس پر لگام کیوں نہیں لگاتے اور کیوں نہیں کہتے کہ جواب میں لاکھوں کے جلوس پارلیمنٹ کا گھیرائو کرکے اگر ان کے اوپر دبائو ڈالیں کہ کالادھن لائو نہیں تو استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن کرائو تو کیا ہوگا؟

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 565