donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Sattar
Title :
   Insurance Karwana Kitna Zaruri Kitna Lazmi

 

انشیور ینس کروانا کتنا ضروری کتنا لازمی  


 عبدالستار
  ولی مینشن،سعدپور ہ قلعہ،مظفرپور۔ ۸۴۲۰۰۲


 
آ ج کل دنیا بھر میں اتنے قسم کا کاروبار کیا جا رہا ہے کہ اس کا شمار کر ناناگزیر معلوم ہوتا ہے۔مثال کے طور پربال کاٹنے (حجامت) کے لئے
مختلف قسم کے سیلون کھل گئے ہیں۔ ورزش کر نے کے لئے جم خانہ کھلے ہوئے ہیں۔ ر یسٹر اں اور اور رہائشی ہوٹلوں کا تو ایک بڑا سا الگ کاروبار ہی ہے۔ اسی طرح انشیو رینس کرنے کے لئے بھی مختلف دوکانیں کھلی ہو ئی ہیں۔ لیکن سب سے پہلے انشیورینس ہے کیا ؟ تقریبا
ڈیڑھ  دو  صدی قبل جب تاجر تجارت کا سامان پانی کے چھوٹے چھوٹے جہازوں کے ذریعہ سمندری راستے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ
لے جایا کرتے تھے تو مختلف قسم کے خطرات سے انہیں دوچار ہونا پڑتا تھا جیسے سمندر میں اٹھنے والے طوفان سے انکے جہاز یا کشتیاں غرق ہو
جایا کرتی تھیں جن کی کشتیاں ڈوب جاتیں انکی زندگی بھر کی پونجی آن واحدمیں ختم ہو جاتی تھیں۔ وہ شخص اسکی تاب نہ لاکر یا تو ہلاک ہو جاتا تھا یا پاگل دیوانہ ہو جاتا یا مفلس و قلاش ہو جاتا تھا پھر دوسرا خطرہ سمندر میں سمندری قزاق کا  ہوتا تھا جو مال بردار جہازوں کی تاک میں لگے رہتے اور سمندر میں کسی نہ کسی جہاز کے سامان کو لو ٹ کر چلتے بنتے تھے۔ ایسے میں بھی جہاز کا مالک خسارہ اٹھانے کی حالت میں نہیں رہ پاتا تھا بلکہ مکمل طور پر لٹ جاتا تھا۔ اگرتاجر نے قرض لیکر تجارت کا سامان جہاز پر بھیجا تھا تو سمجھ سکتے ہیں کہ اسکے ساتھ کیا ہو تا ہوگا۔ جب ان سب کارنا موں نے شدت اختیار کر لی اور جہاز کے لٹنے کی تعداد بڑھنے لگی توتاجروں نے متفقہ طور پر فیصلہ لیا کہ کیوں نہ ہم لوگ ان خسارہ کو آپس میں بانٹ لیں تاکہ یہ نقصان کسی ایک تاجرکا نہ رہ جائے بلکہ تھوڑا تھوڑا بوجھ سبھی اٹھا لیں ، بمصداق سب کی لاٹھی ایک کا بوجھ،لہذا یہی فیصلہ کر کے جب جہاز سمندر میں آگے بڑنے لگے تو کبھی قزاق نے کبھی سمندری طوفان نے اپنی زد میں لیکر کچھ جہازوں کو نقصان
پہونچایا جسکی بھر پائی ان تاجروں نے کر لی لہذا اب وہ پہلے والی حالت نہ رہی بلکہ کچھ رقم کے اخراجات سے ہی انکا اسباب بچ گیا وہ قلاش
ہو نے سے بچ گئے۔ اس طرح آگے چل کر اس تنظیم میں اور سدھار کیا گیا اور انشیورینس کا خیال ذہن میں پیدا ہوا۔


       آج تو موٹر سائکل،موٹر کار، قرض لیکر مکان تعمیر کرنے پرحکومت نے ہی انشیورینس کرانے کو با لکل لازمی قرار دے دیا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جس طرح ووٹر آئی ڈی کارڈ، پاسپورٹ،امتحان میں بیٹھنے کے لئے، کالج میں داخلہ کے لئے، نوکری پانے کے واسطے امتحان میں
بیٹھنے کے لئے، پین کارڈ بنوانے کے لئے،حج فارم بھر نے کے لئے، بینک میں اکائونٹ کھولنے کے لئے ، اسکالر شپ پانے  کے لئے          حکومت نے فوٹو کھچوانا اور اسکا چسپاں کر نا لازمی کرد یا ہے، اسکے بغیر ان چیزوں کا تصور ہی محال ہے۔
        جیسا کہ اوپرذکر کیا گیا ہے کہ جب تاجروں کے جہاز سمندر میں ڈوبنے اور قزاقوں کے ذریہ لوٹنے کے نقصان کو ختم کرنے کے لئے 
میرین انشیورینس کی پیدائش ہوئی اسی طرح ایسا دیکھا گیا کہ ایک سو افراد میں سے کوئی دس افراد کی موت یقینی ہو جاتی ہے جو گھر کا کمانے والا ہوتاہے جسکی وفات کے بعد وہ کنبہ بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے یا اسکی فیملی کا پرسانحال نہ حکومت ہو تی ہے نہ سماج نہ خود اس کے اپنے خاندان کے لوگ، ایسی حالت میں انشیورینس کا سہارہ ایک ایسا سہارہ بن گیا کہ یہی آڑے وقت میں کام آنے والا سب سے مظبوط خدمتگار بن گیا۔ اپنی استعداد  کے مطابق انشیورینس کی قسط سالانہ جمع کر کے ایک معینہ مدت کے بعد وہ رقم کچھ فائدے (بونس ) کے ساتھ واپس مل جاتی ہے یا خدا نخواستہ اگر وہ شخص درمیان میں کسی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے تو اس نے جتنی رقم کا انشیورینس کروایا تھا اسکی فیملی(نومینی) کو یہ رقم مل جاتی ہے۔یہاں بھی وہی حکمت کار فرما ہے کہ وہ ایک سو افراد جنہوں نے انشیورینس لیا ہے وہ ان دس آدمیوں کے رقوم آپس میں بانٹ لیتے ہیں جو فوت ہو جانے والے ہیں۔ اس طرح کسی کو کو ئی نقصان اٹھانا نہیں پڑتا۔ اس عمل کی دیکھ ریکھ کے لئے انشیورینس کا فتر قائم ہے جو ایک سرپرست کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور اس پر قانون کی نگاہ رہتی ہے۔
         آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں جسکا شکار کوئی نہ کوئی ہو تا رہتا ہے۔ کوئی ٹرک کے نیچے آ کر فوت ہو جاتا ہے تو کسی کا مر ڈ ر ہو جاتا ہے یا کو ئی کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو کر مر جاتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ اگر وہ کوئی تاجر ہے اسنے اپنا انشیورینس نہیں کروایا ہے اور اوپر ذکر کئے گئے کسی سانحہ کا شکار ہو جاتا ہے، اس کے دو تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور بیوی، کیا کرینگے۔ اس کے کنبہ میں
بھی ان وارثین کی ذمہ داری لے نے کی سکت نہ ہو۔ سب سے پہلے تو فاقہ کشی کی نوبت آجائے گی اور بچوں کی تعلیم منقطع ہو جائیگی۔دوسری  
طرف سوچیں کہ اگر اس شخص کا انشیورینس ہے تو اسے ایک اچھی رقم مل جائیگی جسکی بدولت اسکی بیوی کوئی شغل اختیار کر سکتی ہے اور بچے بھی 
اسکول سے نہیں نکالے جا سکیںگے، جن کے پاس دولت ہوتی ہے ان کے رشتہ دار بھی کئی نکل آتے ہیں۔ 
        اب سے قبل تک بینک میں نوکری کرنے کو غلط اور حرام قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ وہاں سود کا کاروبار ہوتا ہے اور سو د کا لکھنا سود کی رقم کا اٹھانا سود میں معاونت کرنا سب غیر شرعی ہے۔ اس شوال کے مہینے میں ( احکام شریعت جو کیو ٹی وی کا بہت ہی مقبول پروگرام ہے  جسے مفتی محمد اکمل صاحب پیش کرتے ہیں) اسی پروگرام میں بتایا گیا کہ روپیہ گھر میں نہیں رکھ سکتے ہیں کیونکہ گھر میں روپیہ چوری چلے جانے کا خطرہ رہتا ہے لہذہ ان رقومات کا بینک میں رکھنا جائز ہے جہاں اس کی حفاظت پر معمور لوگ اگر نہ ہوں تو اسکی حفاظت کیسے ہو گی اس رو سے
بینک میں کام کرنا بھی جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ میرے علاوہ ہزاروں ناظرین نے یہ پروگرام دیکھا ہوگا۔
        دوسری طرف دیکھیں کہ آئے دن دوکانوں مکانوں کو آگ لگنے کی وجہ سے( خواہ وہ آگ کسی فسادی نے لگائی ہو یا بجلی کے شورٹ
 سرکٹ کی وجہ سے) یا پڑوسی کے مکا ن یا دوکان میں آگ لگی جسکی لپٹ سے دوسرے مکان دوکان کے مال و اسباب بھی جل کر خاک ہو جا تے ہیں ایسی حالت میں دوکاندار جس نے کل ہی مال منگوایا ہے اور یہ حادثہ پیش آجائے تو اسکی کیا حالت ہو گی۔ ایک دیگر بات یہ ہے کہ آج کل علاج کا خرچ بھی اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ معمولی آپریشن میں ( جیسے گال بلاڈر سے پتھری نکالنے کے آپریشن) ایک لاکھ روپیہ کا خرچ آتا ہے۔ عام آدمی اس خرچ کا تصور کر کے ہی دم توڑ دے۔ لیکن اگرکسی نے امراض کے علا ج کیلئے ہیلتھ انشیورینس کر وا یا ہے جسکا پر یمیم بہت مختصر اور آسان ہوتا ہے تو ایک خطیر رقم کا علاج ایک بڑے ہسپتال میں کروا کر اپنی زندگی میں برکت لا سکتا ہے۔


       ہر د فتر میں کچھ ملازمین ہوتے ہیں جو اس دفتر میں چھوٹے موٹے اخراجات کے لئے نقد رقم اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس کے لئے ہر


دفتر کے حکام ان ملازم کے لئے سرکاری خرچ پر معمول کے مطابق فی ڈی لیٹی انشیورینس کروا تے ہیں تاکہ کسی قسم کے نقصان کی تلافی انشیورینس کمپنی سے کی جا سکے اور اس د فتر کو یا ملازم کوکوئی نقصان اٹھانا نہ پڑے ۔ ایک بینک یا بیما کمپنی جو روزانہ لاکھوں روپیہ کا اپنے صارفین سے اپنے یہاں لین دین کے ذریعہ جمع کرتے ہیں پھر اس رقم کو دوسرے بینک میں لیجاکر جمع کر تے ہیں اس جمع کرنے کے دوران اگر کسی قسم کی لوٹ ہو جائے اسکا بھی ٹرانزٹ انشیورینس ہو تا ہے۔ حتی کہ ملک کا کوئی خلائی جہاز فضاء میں چھوڑا جاتا ہے اور کسی وجہ سے وہ ناکام ہو جائے اس کے لئے بھی انشیورینس کا پروٹکشن موجود ہے تاکہ کروڑوں یا اربوں روپیہ کا نقصان ملک کو نہ اٹھانا پڑے۔آئے دن اپنا قیمتی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے رہتے ہیں اور اسمیں کسی قسم کانقصان نہ ہو اس کے لئے انشیورینس کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسے اگر کوئی قیمتی سوئٹر اپنے کسی رشتہ دار کو بھوپال بھیجنا ہو تو اسے رجسٹرڈ پار سل کے ساتھ ساتھ اس سوئٹر کی قیمت سے تھوڑا زیادہ کا انشیورینس بھی کر واتے ہیں جس کی فیس بھی دیتے ہیں۔ اس طرح پوسٹ مین اسے بڑے احتیاط کے ساتھ بغیر کٹے پھٹے اس تھیلے کو پانے والے کی خدمت میں جو بھوپال میں موجود ہے پہونچا دیتا ہے۔ اس طرح بھیجنے والا بھی مطمئن رہتا ہے اور بھیجا گیا سامان بھی بغیر کسی نقصان کے مطلوبہ آدمی تک پہنچ جاتا ہے ورنہ ڈا ک محکمہ اس کی پوری بھرپائی کرتا ہے۔ ایسا ہی انشیورینس ملازمین اپنے ٹرانسفر کے وقت کراتے ہیں اور اپنے گھریلو سامان انکی نئی منزل تک بڑی آسانی کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔اگر سامان بھیجتے وقت کوئی سامان ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے تو اس کا حر جانہ انشیورینس کمپنی اٹھا تی ہے اور سامان لے جا نے والی کمپنی بہت احتیاط کے ساتھ منتقل کرتی ہے یہی ہے اسکا فائدہ۔ مذکورہ بالا بحث کے ذریعہ ہم نے انشیورینس کمپنی کے کام کرنے اور انشیورینس کر وانے والے اطمینان پر بھر پور روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ انشیورینس کمپنی کسی انسان کے نہ مرنے کا ذمہ اٹھا تی ہے ویسا نہیں ہے بلکہ انشیورینس کمپنی تو کسی بیمار کی بیمار پرسی تک نہیں کرتی چہ جائیکہ علاج کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لہذا لوگوں کی سوچ بدلنے لگی ہے اور انشورینس کے اصل مقصد کو لوگ جاننے لگے ہیں۔ ایک غلط عقیدہ کو خیر باد کہا جا نے لگا ہے۔ با لفرض دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی ہر مرد و زن حتی کہ نومولود بچے کے لئے پانچ لاکھ روپیہ کا انشیورینس لازمی قرار دے دیا جائے تو کیا ہم تب بھی اس کو نہیں اپنا ئیںگے جیسا کہ فوٹو کھچوانے کے معاملہ میں ہے ۔ ایک اور مثال سے اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ بینک میں اکاو نٹ کھولتے وقت تمام کاغذات کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جمع کرنا لازمی کر دیا گیا ہے تو ہم کہاں چوں و چرا کرتے ہیں۔ شریعت کی رو سے صدقئہ فطر گھر کے تمام افراد حتی کہ نومولود بچے کے لئے بالغ حضرات کے برابر ہی صدقئہ فطر ادا کر نا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ اگر ہمارے اوپر کوئی بھی حکم مسلط کر دی جائے یا لازمی قرار دیدیا جائے تو ہم اسے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ انشیورینس کروا نا کوئی نفع کمانا نہیں ہے اس کے لینے کے لئے جو اہم شرطیں ہیں وہ ہے انشیورینس کمپنی کی پری میم( فیس ) چکانے کی صلاحیت ۔ اگر کم آمدنی کا کوئی شخص ایک موٹی رقم کا انشیورینس کروانا چاہے تو انشیورینس کمپنی انکار کر دے گی۔ اگر کوئی موٹر سائکل جسکی قیمت پچاس ہزار روپیہ ہے تو کوئی آدمی اسکے لئے دو لاکھ کا انشیورینس نہیں کر ا سکتا ہے۔ اسی طرح کار کے معاملہ میں بھی یہی قائدہ لاگو ہوگا کہ کوئی نینوں کار ، جسکی قیمت ایک لاکھ چالیس ہزار ہے، کا انشورینس پانچ لاکھ کا کروا ہی نہیں سکتا ہے۔لہذہ ان باتوں سے صاف ظاہر ہو گیا کہ انشیورینس کوئی نفع کمانے کے لئے یا جوا کی طرح نہیں ہے۔آپ اس طرح بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایک دو کان دار جس نے اپنی دوکان میں دو لاکھ کا سامان اور دیگر املاک رکھا ہو وہ پچاس لاکھ کے لئے ا پنی دوکان کا انشیورینس نہیں کروا سکتا ہے۔
لہذہ کل ملاکرہر فرد کو خود ہی انشیورینس کروا لینا ضروری ہے تاکہ وہ ہر قسم کے آفات بلیات عرضی و سماوی سے ان کی محافظت کر سکے۔ آخر کار ہم  بیمار پڑتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاکر علاج کرواتے ہی ہیں۔ اس وقت میں آپکو اپنے گردونواح پر نظر دوڑانے کے لئے اصرار کرتا ہوں، خواہ آپ کسی گائوں دیہات یا شہر یا کسی میٹرو سیٹی میں رہتے ہوں، کہ آپ کے اطراف میں ایک سال کے عرصہ میں کتنے لوگ کن کن حالات  میں جاں بحق ہو ئے یا کتنے لوگ مہلک بیماری سے فوت ہوئے یا ایکسی ڈنٹ کا شکار ہوئے اور انہیں ہسپتال میں بھرتی ہونا پڑا۔ ا  ان میں کچھ ہی لوگوں کا انشیورینس رہا ہو گا۔اگر سارے لوگ انشیورینس سے کورڈ ہوتے تو انکے لواحقین یقینی طور پرمالی امداد کے حقدار ہوتے جبکہ اگر انکا انشیورینس نہیں ہے تو دیکھے نگے کہ انکے پس ماندگان کس مصیبت سے دوچار ہوئے۔یہ بھی دیکھیں کہ آپ کے اطراف 
میں کتنے لوگوں کی دوکان میں یا گھروں میں چوری کی وارداتیں ہوئیں۔ کتنے مکانوں یا دوکانوں میں آگ لگی اور کتنے لوگوں کو انشیورینس کی وجہ سے بازیابی میں کچھ بھی مشکلات کا سامنا نہ کانا پڑا جبکہ بغیر انشیورینس کئے ہو ئے دوکانوں مکانوں کے مالکوں کی زبوں حالی کا تصور ہی کافی ہے۔پچھلے کے بی سی سیزن چھہ میں ایک شخص ٹی وی پر آیا تھا جسکا تعلق کسی گائوں سے تھا جو ایک نہایت غریب انسان تھا۔ اس نوجوان نے بینک سے قرض لے کر ا یک موبائل کی دوکان شروع کی تھی۔ بڑی محنت اور لگن سے اور مستعدی کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہا تھا، ہر مہینہ بلا ناغہ بینک کی قسط بھی چکا رہا تھا۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایک شب کسی نے اسکی دوکان میں لگاد ی۔اس دوکان کے سارے اسباب یہاں تک کہ سارے فرنیچر جل کر خاک ہو گئے۔ جب تک اسے آگ لگنے کی خبر ملتی سب کچھ راکھ ہو چکا تھا۔ اسکی دوکان کا انشورینس نہیں تھا اسے کہیں سے کوئی مدد نہ ملی دوسری طرف بینک والے بھی اپنے قسط کی واپسی کے لئے بار بار تقاضہ کرنے لگے اور رفتہ رفتہ دبائو بھی بڑھانے لگے۔ یہ ساری باتیں اسی پروگرام میں آبدیدہ ہو کراس نوجوان نے بتایا تھا۔ میں اسکے متعلق اور کچھ کہنا نہیں چاہتا بلکہ وہ نوجوان ایک قلیل پریمیم کی رقم دیکر اپنی املاک کو جلنے سے تو نہیں بچا سکتا تھا مگرانشیورینس سے اپنی املاک کے مالی نقصان کو بہت حد تک کم کر سکتا تھا۔ لیکن انشیورینس کی اہمیت کو اسنے نظر انداز کیا اور انعام کا روپیہ حاصل کرنے کے لئے  کے بی سی میں آگیا۔ خدا نہ کرے ایسے دن کسی اور کو دیکھنا پڑے۔ آئے ہم سب بلکہ ایک ایک فرد انشیورینس کروائیں اور بر ے د ن اور آفات نا گہانی سے بچائو کے لئے ایک ڈھال کا انتظام کر لیں ورنہ مذکورہ نوجوان کی طرح کف افسوس ملنے کے دن کسی کو بھی دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ میں اس مضمون کے ذریعہ دانشوروں سے گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے کار آمد مشوروں سے معاشرہ کی رہ نمائی کریںاور انشیورینس کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔


         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                                   عبدالستار
                           ولی مینشن،سعدپور ہ قلعہ،مظفرپور۔ ۸۴۲۰۰۲
                            ۹۸۳۵۶۶۶۶۲۲۔۔ ۹۸۵۲۹۵۳۷۳۳
                    میل  :   اے بی ڈی یو اس اس۲۰۱۲ ایٹ جی میل ڈوٹ کوم

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 782