donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : News Desk
Title :
   Khudkar Samundari Robot Tair Kar Australia Pahunch Gaya

 

خودکار سمندری روبوٹ تیر کر آسٹریلیا پہنچ گیا

 

ایک خودکار روبوٹ نے امریکی شہر سان فرانسسکو سے آسٹریلیا تک کا سفر کامیابی سے تیر کر طے کر لیا ہے۔اس روبوٹ نے نو ہزار ناٹیکل میلوں کا سفر ایک سال کے عرصے میں طے کیا۔146لیکوئڈ روبوٹکس145 نامی امریکی کمپنی نے اس ڈرون روبوٹ کے ذریعے بحر الکاہل کے درجۂ حرارت، پانی میں نمک کے تناسب اور دیگر معلومات جمع کیں۔کمپنی کا کہنا تھا کہ اس کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مشکل سمندری حالات برداشت کر سکتی ہے۔مائیکرونیژیا سے تعلق رکھنے والے جہاز رانی کے معروف ماہر پائیس ماؤ پیائیلگ کے اعزاز میں اس روبوٹ کا نام پاپاماؤ رکھا گیا ہے۔ پائیس ماؤ پیائیلگ کی وجہِ شہرت یہ تھی کہ وہ سمندروں میں اپنا راستہ بغیر روایتی آلات کے استعمال کے ڈھونڈتے تھے۔کمپنی نے ایک بیان میں بتایا کہ اپنے اس سفر میں پاپاماؤ نےسمندری طوفان، شدید سمندری لہروں اور شارک مچھلیوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے 146گریٹ بیریئر ریف145 کے گرد اپنا راستہ بھی تلاش کیا۔اس منصوبے میں جمع کی گئی معلومات میں سے کم ہی پہلے سیٹلائیٹ کے ذریعے جمع کی جا سکتی تھیں جیسا کہ پودا نما ایک جانور فائیٹوپلینکٹن کی تعداد جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں بدل کر دیگر سمندری حیوانات کے لیے خوراک فراہم کرتا ہے۔ تاہم کمپنی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تجربے کے بعد بہت مفصل معلومات جمع کی گئی ہیں جو کہ ماحولیات کے ماہرین کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔لیکوئڈ روبوٹکس کے مزید تین روبوٹس ابھی سمندر میں ہیں جن میں سے دوسرا روبوٹ آئندہ سال آسٹریلیا پہنچے گا۔ روبوٹس کے ایک اور جوڑے کو جاپان کی جانب روانہ کیا گیا تھا مگر ایک کو نقصان پہنچنے کے بعد اس کا رخ مرمت کے لیے امریکی ریاست ہوائی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ہر روبوٹ میں دو حصے ہیں۔ اوپر والا حصہ ایک چھوٹے 146سرف بورڈ145 کی 

مانند ہے اور وہ نیچلے حصے سے ایک تار کی مدد سے منسلک ہے۔ نیچلے حصہ میں تیرنے میں مدد کے لیے روبوٹ کے کئی بازو ہیں۔یہ روبوٹ ایندھن کا استعمال نہیں کرتے بلکہ سمندری لہروں کی تونائی کے مدد سے آگے بڑھتے ہیں۔ اوپر والے حصے پر لگی شمسی لوح یا سولر پینل کی تونائی سے مختلف سینسرز چلتے ہیں جو کہ ہر دس منٹ کے بعد معلومات جمع کرتے ہیں۔برقی آلات اور سمندر کا جوڑ خطرناک لگتا ہے مگر یونیورسٹی آف برمنگھم کے شعبۂ کمپیوٹر سائنس کے ڈاکٹر جیرمی وائٹ کہتے ہیں کہ سمندری روبوٹس میں دلچسپی بے وجہ نہیں۔146سمندر ایک انتہائی وسیع جگہ ہے چنانچہ خودکار روبوٹس کو آزمانے کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔یہ روبوٹ آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور ان کا دوسری چیزوں سے ٹکرانے کا خطرہ بہت کم ہے۔

**************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 469