donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abida Rahmani
Title :
   Dayie Aazam

 

داعئی اعظم


(اسلام کی مختصر تشریح، اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہم اپنا جائزہ لیں! )

از عابدہ رحمانی
 
ہمارے نبی کریمؐ کو جب اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور سورہ مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ قم فانذر۔ کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو خبردار کر دو۔
کس چیزسے خبردار کر دو ان کے بُرے اور بھلے انجام سے۔ تو رسول پاکؐ کے وقت کا بیشتر حصہ اللہ کی طرف بلانے میں صرف ہونے لگا۔ آپؐ گھر گھر جا کر دستک دیتے، جہاں کوئی اجتماع دیکھتے وہاں پہنچ جاتے، کسی کو اکیلا پاتے تو اس کے پاس چلے جاتے اوراللہ کے دین کی ہدایت کرتے تھے۔ وہ انتہائی مشکل اورتاریک دور تھا۔ اس میں مشعل ہدایت جلانا آسان کام نہ تھا لیکن آپؐ ہر طرح کی دُشنام طرازی، بدسلوکی، ظلم و زیادتی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا تھا کہ لوگوں کے رویے سے آپؐ پر مایوسی طاری ہونے لگتی تو آپؐ اللہ کے حضور روتے اور گڑگڑاتے کہ یا اللہ تیرے یہ بندے کیوں تیری طرف نہیں پلٹتے۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی تسلی کے لیے قرآن میں کئی آیات نازل کی ہیں۔ سورہ کہف میں اللہ فرماتا ہے۔
فعلک باخع نفسک علیٰ اثارھم ان لم یومنو بھذا الحدیث اسفا (الکہف 6
شاید آپ ان لوگوں کے پیچھے غم میں اپنی جان ہی ہلاک کر ڈالیں گے اگر یہ لوگ اس کلام ہدایت پر ایمان نہ لائیں۔
بندگانِ خدا کو آتشِ دوزخ سے بچانے کے لیے آپؐ کی بے چینی اور بے قراری کی یہ کھلی دلیل ہے۔ ان بندگانِ خدا سے محبت ہی تھی کہ آپؐ ہر وقت ان کی ہدایت کے لیے بیقرار رہے۔
لعلک باخع نفسک الاتکونو مومنین۔ (الشعراء) 
شاید آپ اس غم میں اپنی جان ہی کھودیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
نبیؐ نبوت کے بعد تقریباً 23برس تک زندہ رہے اور جسم و جان کی تمام قوتوں سے کام لے کر خدا کی مخلوق کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے۔ جب آپ نے آخری حج کے موقع پر خطبہ حجتہ الوداع میں لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ میرے بارے میں کیا کہو گے؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہم اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔اس پر آپؐ نے اللہ کو گواہ بنایا۔ 
وصال کے وقت اسلام سارے عرب میں پھیل چکا تھا۔عائشہؓ نے جب رسول اللہ ؐسے اُن کی زندگی کے سخت دن کے بابت پوچھااس پر رسول اللہؐ کا جواب کہ اُن کی زندگی کا سب سے سخت دن طائف کا تھا ۔ جب وہاں کے لونڈوں نے انہیں لہولہان کر دیا تھا ۔ لیکن اُن کی زبان پر اُن کے لیے دعائے خیر تھی ۔آپؐ نے عذاب کے فرشتوں کو کہا کہ ان کی آنے والی نسلوں میں اللہ تعالیٰ کے نام لیوا ہونگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری مثال اس شخص کی ہے جس نے آگ روشن کی تو کیڑے پتنگے اس پرگرنے لگے وہ ان کو پوری قوت سے روک رہا ہے لیکن وہ گرے جا رہے ہیں۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں لیکن تم گرے جا رہے ہو۔
نبیؐ نے نسل، قوم اور زبان کی بنیاد پر دعوت نہیں دی اور اس کو سخت ناپسند فرمایا۔
***
 
 
قرآن کیا ہے۔ ۔۔ ؟


(1 جس زبان میں قرآن نازل ہوا وہ اس کے ادب کا بلند ترین اور بہترین نمونہ ہے۔ موزوں ترین الفاظ، بہترین پیرایہ، زبان، کلام بے حد موثر، چودہ سو سال گزرنے کے بعد وہی تاثیر، زبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور فرق نہیں پڑا، ایک لفظ بھی متروک نہیں ہوا۔
(2 دنیا کی واحد کتاب جس نے نوعِ انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پرگہرا اثر ڈالا۔پہلے قوم کوبدل ڈالا، پھر قوم نے دنیا کو بدل ڈالا۔ چودہ سو برس سے اثرات کا سلسلہ جاری ہے۔ 
(3 اس کتاب کے موضوعات کا دائرہ ازل سے ابد تک پوری کائنات پرحاوی ہے۔ کائنات کا آغاز و انجام، نظم و نسق، کائنات کا خالق اور ناظم، اس کی صفات اور اختیارات اور پورے نظام عالم۔صحیح اور غلط راستے کی تقسیم، نظام زندگی کا نقشہ، عقائد، اخلاق، تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست ، عدالت، قانون، حیات انسانی کے ہر پہلو، صحیح اور غلط راستوں کی پیروی کرنے کے نتائج، بڑی وضاحت کے ساتھ دوسری زندگی کے متعلق دلائل، محاسبہ اعمال، کیسی زبردست شہادتیں، جزا و سزا کا عمل، فلسفہ سائنس اور عمرانیات کے تمام آخری مسائل و علوم کا جواب موجود ہے۔
(4 کتاب پوری کی پوری دنیا کے سامنے نہیں آئی بلکہ چند ابتدائی ہدایات کے ساتھ ایک تحریک اصلاح کا آغاز ہوا۔ تحریک کے رہنما کا بیان یہ کہ جملے اس کے طبع زاد نہیں بلکہ خداوند کریم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں۔ سالہا سال تک مسلسل اجتماعی تحریک کی جدوجہد، واعظ اور معلم اخلاق، ایک مظلوم جماعت کے سربراہ، ایک مملکت کے فرمانروا کی حیثیت، ایک برسرجنگ قوم کا سپہ سالار، فاتح کی حیثیت، شارع اور مقنن، بکثرت مختلف حالات اور اوقات، مختلف حیثیتوں میں جو باتیں کہی جاتیں وہ جمع ہو کر مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر و عمل بنا دیں، اس میں کوئی تضاد نہ ہو۔ کامل مطابقت، تحریک کا آغاز کرتے وقت اس کے محرک کے سامنے کا پورا نقشہ تھا۔
(5 جس رہنما کی زبان سے یہ جملے جاری ہوتے تھے وہ کسی گوشے سے نہیں نکلتا تھا بلکہ ان کے درمیان رہتا تھا۔
اس کی اپنی زبان کی احادیث موجود ہیں۔ خطبے کے بیچ میں قرآن کی آیات بالکل مختلف ہیں۔
(6 رہنما مختلف اوقات میں مختلف حالات سے دوچار رہا۔
(7 وسیع اور جامع علم کے اہل عرب، یونان، روم و ایران پر فوقیت، ریگستان، عرب کے ایک اُمّی کے علم کے ہر گوشے پر اتنی وسیع نظر حاصل تھی۔ 


***
اخلاص یا خلوصِ نیت
کسی بھی کام کو بہترین طریقے سے ادا کرنے کے لیے اخلاص یا خلوص نیت انتہائی ضروری ہے۔ اگر نیت میں اخلاص نہ ہو تو وہ صرف دکھاوا رہ جاتا ہے۔
یہی حال عبادات اور دینی معاملات کا ہے۔
قرآن پاک میں سورہ البینہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَمَااُمِرُواَلاَّلیَعبدُواللہَ مُخلِصینَ لَہُ الدِّینَ حُنفَآء وَیُقَیموُالصَّلَوۃ وَیُؤتُوالذَّکوٰۃ وَذالِکَ دِینُ القَیمہِ۔(نہیں حکم دیا گیا ان کو مگر یہ کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور یہی ٹھیک دین ہے۔)
تبلیغِ دین کے سلسلے میں اخلاص بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ داعی کی ساری تگ و دو اس کے لیے ہونی چاہیے کہ اللہ اس سے راضی ہو۔ کسی تعریف و ستائش اور صلے کی تمنا اور خواہش کے بغیر اسے اپنا کام کرنا چاہیے اس کا اجر صرف اور صرف اللہ سے مانگے۔ جیسا کہ انبیائےکرام کا شیوہ رہا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ انبیائے کرام کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے فرماتے ہیں۔’’میں تم سے اس کام کے لیے کوئی اجر نہیں مانگتا میں تو اس کے لیے اپنے رب سے اجرمانگتا ہوں جو عالمین کا رب ہے۔‘‘
انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے کہ جب وہ کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اسے خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، اسے داد دیں، شاباش دیں، اس سے اکثر تو حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن اس سے انسان میں تکبر ونخوت نہیں آنا چاہیے۔
فرض کر لیں کہ کوئی بہت اچھا مقرر ہے تو وہ اس سے پھول نہ جائے کہ میں کتنی اچھی تقریر کرتا ہوں، لوگ دم بخود ہو کر سنتے ہیں، میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتا ہوں، یا پھر کوئی مضمون نگار ہے تو وہ خود ہی فخر و غرور میں مبتلا ہو جائے کہ میرے قلم سے کیا نگارشات نکلتے ہیں۔ یوں تو تمام تر صلاحیتیں من جانب اللہ ہیں لیکن داعی چونکہ راہِ خدا کا ہی مسافر ہے تو اگر کبھی اس کے دل میں غرور و تفاخر آئے تو اسے اعوذباللہ، استغفراللہ کہ کر دور کرنے کی کوشش کرے ورنہ یہ آیت دوہرا لے۔
سبحٰنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العیم الحکیم۔
دعوت دین کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے یا کوئی اچھا عمل کرتے ہوئے اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ خود بنفسِ نفیس مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کو میرا یہ عمل کتنا محبوب ہے تو پھر کسی انسان کی تعریف و ستائش کی تمنا باقی نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی خلوص اور بے غرضی زیادہ ہو گی اور ہم اپنے اپنے ہر نیک عمل پر صرف اللہ سے اجر کے خواستگار ہوں گے۔ 
جیسے کہ حدیث میں انمالاعمال بالنیات
 تبلیغ دین کی کٹھن راہ میں عیش، آرام، جان و مال، عزت اور شہرت کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اب جو شخص اس راہ سے گزرے اوراس کے دل میں نام و نمود کی خواہش ہو اور دنیاوی اہمیت حاصل کرنے کے بت بیٹھے ہوں تو اس کا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ 
***

Comments


Login

You are Visitor Number : 958