donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Fazil Husain Parwez
Title :
   Payare Nabi SAW Se Agar Hame Waqayi Mohabbat Hai

پیارے نبی ﷺ سے


اگر ہمیں واقعی محبت ہے؟


ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔

فون:9395381226


    ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوگیا۔

    مسلم اکثریتی آبادی والے محلے روشنیوں سے جگمگانے لگے۔۔۔ دیواروں پر جلوس و جلسہ ہائے میلاد النبی ا کے پوسٹرس مکانات، دکانات، عمارتوں کی چھتوں کے ساتھ ساتھ برقی کھمبوں اور دیگر مقامات پر سبز پرچم نظر آنے لگے۔ جشن میلادالنبی ا کی تیاری ہے۔۔۔ اس عظیم المرتبت ہستی کا جشن میلاد منایا جارہا ہے جو سارے عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں‘ جو محسن انسانیت ہیں‘ شافع محشر، ساقی کوثر ہیں۔ بے شک آپ سے محبت ایمان کی کسوٹی ہے۔

    خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکمیل ایمان کے لئے امت کی آپ ا سے محبت کے معیار سے متعلق فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں‘‘

(بخاری و مسلم)
    ایک اور روایت میں مسلم نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں۔
    ’’کوئی بندہ یا کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے اہل و عیال اس کے مال و اسباب اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجائوں‘‘۔

    اور الحمد للہ آج ہر مسلمان اپنے پیارے نبی ﷺ سے اپنے اپنے انداز ، اپنے اپنے طریقوں سے اپنی بساط کے مطابق اپنی محبت کے اظہار کی کوشش کررہا ہے۔ میلاد النبی ﷺ کے جشن کی روایت کا آغاز جب کبھی سے ہوا ہو اس کا مقصد یہی رہا ہوگا کہ اس بہانہ قوم کو سیرت طیبہ سے واقف کروایا جائے، آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو رہنمائے زندگی بنانے کی عملی تربیت دی جائے۔

    حضرت عبداللہؓ بن عمروسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہوجائے جسے میںلے کر آیا ہوں‘‘۔

    جشن میلاد کے سلسلہ کا آغاز یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کو عام کرنے کے لئے ہوا تھا۔ ہمیں یاد ہے سیرت طیبہ سے متعلق طلباء میںتحریری ، تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے، نعت خوانی کی محفلیں سجائی جاتی تھیں، مساجد میں اور شہر کے مرکزی مقامات پر جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کا اہتمام کیا جاتا۔

    جس میں سیرت طیبہ کے مختلف پہلوئوں کو پیش کیا جاتا۔ الحمد للہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، بلکہ پہلے سے کہیں بہتر انداز میں جلسے منعقد ہورہے ہیں ، جماعتی اور مسلکی اختلافات کو فراموش کرکے نامور مذہبی رہنما حبِ نبوی ﷺ سے سرشار توحید کے پرچم تلے متحد ہوجاتے ہیں اور دنیا کو یہ دکھادیتے ہیں کہ اختلافات اپنی جگہ پر، حبِ نبوی ﷺ میں سب ایک ہیں۔

    گذشتہ چند برسوں سے جشن میلاد النبی ﷺ کا اہتمام بڑے شاندار پیمانے پر کیا جانے لگا ہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے محلوں میں اس موقع پر میلے بھی لگنے لگے ہیں۔ بعض مقامات پر تو مذہبی مقامات کے ماڈلس کی نمائش بھی کی جارہی ہے، بڑے پیمانے پر جلوس نکالے جارہے ہیں۔ ان جلوسوں میں بینڈ باجے، ڈی جے کا بھی اہتمام کیا گیا، نعتیہ اشعار پر رقص بھی کیا گیا۰۰۰ جامعہ نظامیہ کے بشمول کئی مذہبی اداروں نے اس کے خلاف فتاوے جاری کئے۔ کئی سیاسی قائدین نے نوجوانوں کو جشن میلاد النبی ﷺ کے نام پر ہنگامہ آرائی ، شب گزاری ایک دوسرے پر گلال، آرایش، رنگ ڈالنے کی رسومات سے گریز کرنے کی تلقین کی۔افسوس اسبات کا ہے کہ بعض گروہوں پر نہ تو مذہبی قائدین کی وعظ و نصیحت کا اثر ہورہا ہے اور نہ ہی سیاسی قائدین کی تاکید کا۔ یہ ایک خطرناک علامت ہے، آگے چل کر اس کے نقصانات کیا ہونگے اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا۔

    جشن یا خوشی کے اظہار میں ہماری نوجوان نسل نادانی یا لاعلمی میں غیروں کے شعائر اختیار کرنے لگے ہیں۔ روشنی ضروری ہے، مگربجلی اپنی محنت کے پیسہ سے ہو تو بہتر ہے۔ جلوس ضرور نکالے جائیں مگر باجے گاجے کے ساتھ نہیں، کیونکہ موسیقی تو اسلام میں منع ہے، جس سے پیارے نبی ﷺ نے منع فرمایا ، آپ ﷺ کی ولادت کے جشن پر اس کا استعمال کیا ان سے محبت و عقیدت ہے، یا آپ ﷺ کی تعلیمات کی خلاف ورزی۰۰۰

    جلوس کا پیغام کیا ہے۰۰۰ یہ پیغام کسے دیا جارہا ہے۰۰۰ جس کے لئے یہ پیغام دیا جارہا ہے کیا وہ اس پیغام کو سمجھ پارہا ہے۰۰۰

جلوس کے نام پر کہیں ہم دوسروں کی دل آزاری تو نہیں کررہے ہیں۰۰۰

    رات کے اوقات میں جبکہ دوسرے ابنائے دطن آرام کررہے ہوتے ہیں، ان کے علاقوں میں سائلنسر نکال کر بایک پر نعرہ لگاتے ہوئے انہیں تکلیف پہنچاکر کیا ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کررہے ہیں۔ امن ، پیار محبت کے پیغام کو عام کرنے کی بجائے کہیں ہم نفرت اور دشمنی تو پیدا نہیں کررہے ہیں۔

    ہم ایسے وقت جشن میلاد النبی ﷺ کا اہتمام کررہے ہیں، جب وقفہ وقفہ سے بدبخت اسلام دشمن عناصر شانِ رسالت مآب میں گستاخی کررہے ہیں، ان کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔احتجاج کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ ہم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر توہین رسالت مآب کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔

    اب ذر امحتاط طریقہ سے اسبات کا بھی ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیں کہ کہیں ہمارا اپنا کوئی عمل نادانستہ طور پر شان رسالت ﷺ میں خدانخواستہ گستاخانہ تو نہیں۔ جشن کے نام پر سڑکوں پر لائوڈاسپیکر پر نعتیہ کلام نشر کیا جاتا ہے۰۰۰

    جتنی مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک ہمارے گوشہ سماعت کو عزت و افتخار بخشے اتنی مرتبہ ہمیں درود پڑھنے کا حکم ہے ورنہ ہمارے حق میں ہلاکت کی بد دعا دی گئی ہے۔ کیا نعتیہ کلام سن کر ہم اتنی مرتبہ درود پڑھ سکتے ہیں۰۰۰ اور کیا اتنی بلند آواز میں نعتیہ کلام نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ شان اقدس میں تو آواز کو دھیمی رکھنے کاحکم ہے۔ یہ آداب حُبِّ رسول میں شامل ہیں۔

    اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ آیا لائوڈاسپیکر کی اس آواز سے ہمارے غیر مسلم برادران کے آرام، ان کے کام کاج میں خلل تو پیدا نہیں ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس سے غلط پیغام پہنچے گا۔ اپنی خوشی کے اظہار کے لئے غیر حضرات مروت میں خاموشی اختیار کربھی لیں تو ان کے دل میں ہمارے متعلق ایک خلش پیدا ہوجائے گی جو آگے چل کر نفرت اور دشمنی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ہمارے لائوڈاسپیکر اکثر ہاسپٹلس کے قریب بھی بجتے رہتے ہیں، جن سے مریضوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے، ہمیں تو محسن انسانیت ﷺ کے میلاد کے جشن کے موقع پر مریضوں کی عیادت کرنی چاہیے، انہیں آرام پہنچانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کتنا ہی اچھا ہوتا اس دن ہم مریضوں کو پھل فروٹ پیش کریں۰۰۰ان عیادت کریں، ان کی ڈھارس بندھائیں۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کے اظہار کے لئے ہم جشن منارہے ہیں، سرکارﷺ سے محبت تو تب ہی ہوگی جب ہم آپ کی تعلیمات پر عمل کریں اس کی تبلیغ کریں۔ نماز کو آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ۔ جشن میلاد النبی ﷺ کے مقصد کی تکمیل تب ہی ہوگی جب ہم اپنا محاسبہ کریں گے کہ آیا ہم حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کررہے ہیں یا نہیں۔ معاملت داری میں ہم ایماندار ہیں یا کسی کے ساتھ بے ایمانی کررہے ہیں، یتیموں ، مساکین کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہے، کیا ہم بیویوں کے ساتھ ایسا ہی انصاف کرتے ہیں، جیسا ہمارے نبی کریم ﷺ فرماتے تھے۔

    سیاست ہو ثقافت، تعلیم ہو یا تبلیغ یا حقوق ہمسائیگی ہو ۔ عزیز و اقارب کے ساتھ ہمارا حسن سلوک۰۰۰ کیا ہم اس عظیم ترین ہستی کی تقلید کررہے ہیں جس کی میلاد کا ہم جشن منارہے ہیں۔ ہمارا یہ دعویٰ ہیکہ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی محبت کے لئے جاں بھی نثار کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس جذبہ کو سلامت رکھے۔ فی الحال پیارے نبی کی تعلیمات پر ہی عمل کرلیں، یہی دنیا اور آخرت میں کامیابی اور سرفرازی کی ضامن ہے۔ اپنے اخلاق اور کردار کو اسوۂ حسنہ کے آئنہ میں دیکھ کر سنواریں، سدھاریں، انا کو کچل دیں تاکہ شیطان آپ ہی آپ مرجائے، انا کچلی جائے گی تو انکساری، تواضع پیدا ہوگی، احترام باہمی کے جذبے بیدار ہونگے۰۰۰ سلام میں پہل کی توفیق ہوگی تو دوسروں کے دل میں جگہ بنے گی۰۰۰

    جشن میلاد النبی ﷺ آپ سب کو مبارک۰۰۰ آیئے اس موقع پر ہم اپنا جائزہ لیں، اپنے آپ کو پیارے نبی کریم ﷺ کے اسوۂ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۰۰۰ غیبت، چغل خوری، حقوق تلفی، سے توبہ کرلیں، نماز کی پابندی ، وعدہ کی پابندی ، لین دین میں ایمانداری اختیار کریں ، سودسے پرہیز کریں۔ جن سے دوریاں پیدا ہوگئیں، انہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا کی خاطر دور کرکے گلے لگالیں۰۰۰ جو پیسہ ہم خرافات پر خرچ کررہے ہیں اس پیسہ کا صحیح استعمال کریں۰۰۰ کسی کو سودی قرض سے نجات دلادیں۰۰۰ کسی کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرلیں۰۰۰ کسی کے علاج و معالحہ میں مدد کریں۰۰۰ کسی مستحق کی شادی میں کچھ اپنا حق ادا کریں۰۰۰
    جشن کے نام پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیے جو خرچ کئے جارہے ہیں ، یہ رقم ان کی تجوریوں میں جارہی ہے جو آپ کو آپ کے مذہب کو مٹانے کے لئے سازشیں کررہے ہیں۔ اپنے جوش میں آپ اپنے دشمنوں کو معاشی طور پر مستحکم کررہے ہیں۰۰۰ اور پھر جشن تو بارہ دن یا ایک دن کا نہیں۔ آخری سانس تک جشن منانے کی ضرورت ہے۔

    اصل جشن تو یہی ہے کہ نمازیوں سے مساجد آباد رہیں۔ مساجد مسلکی جھگڑوں سے پاک رہیں۰۰۰ بکھرے خاندان ۰۰۰ ایک ہوجائیں۰۰۰ دل کی کدورت صاف کی جائے۰۰۰ پڑوسی ہمارے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرنے لگیں۰۰۰

یہی تعلیمات نبوی ﷺ ہیں ۔ ان تعلیمات پر عمل کے بغیر جشن محض دکھاوا ۔ ڈھکوسلہ ہے۔

(یو این این)


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 818