donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Alimuddin Faiziul Rizvi
Title :
   Rasool Akram SAW Ki Seerat Haliba Dayemi Namunae Amal Hai

 

رسول اکرم صلی  اللہ علیہ وسلم کی 

سیرت حلیبہ دائمی نمونۂ عمل ہے


محمد علیم الدین فیضی الرضوی

 (Mob:8798107381)


     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و شخصیت کے اتنے جامع اور گونا گوں پہلو ہیں کہ زندگی کے جس زاویے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے یہ ہر طرح سے جامع اورمکمل زندگی کی اُمنگوں اور حوصلوں سے لبریز اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے معمور نظر آتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ بچپن سے لیکر جوانی اور جوانی سے وصال تک ہرموڑ پر دنیا والوں کے لئے چراغ ہدایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے پرائیویٹ کہہ کر اس پر پردہ ڈالا جاسکے۔ خلوت وجلوت، مسجد و میدان ، جنگ ، گھر اور باہر ، سیادت و سیاست ، معیشت و معاشیات ، اخلاق وسماجیات ، عد ل و انصاف ، شجاعت و بہادری ، سخاوت وقناعت غرض کہ زندگی کے ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے اور سیرت وکردارکا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔ 

    مثلاًتجارت ہی کو لیجئے ! ایک تاجر اور ایک کاروباری انسان کی زندگی کاسب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر اور ایفائے عہد کا پابند ہو۔ اگر کسی تاجر کی زندگی میں یہ دو وصف مفقود ہو تو وہ کبھی اچھا تاجر نہیں بن سکتا۔ ایک صحابی حضرت عبداللہ ابن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں نبوت سے پہلے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تجارتی معاملہ کیا تھا۔ ابھی وہ معاملہ پورے طورپر طے نہیں ہوا تھا کہ میں کسی ضرورت سے یہ وعدہ کرکے چلا آیا ابھی آتاہوں۔ اتفاقاً تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یا د نہ آیا۔ تیسرے روز مجھے جب اپنا وعدہ یاد آیا تو میں اسی مقام پر پہنچا۔ جہاں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا منتظر بنایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ اسی جگہ پر اسی طرح میرے منتظر ہیں۔ میرے اس پیمان شکنی اور نقص عہد پر بغیر کسی ناراضی کے ارشاد فرمایا ، تم کہاں تھے؟میں تین دن سے اسی مقام پر تمہارا منتظر ہوں۔ حسن معاملہ اور ایفائے عہد کی یہ وہ مثال ہے جو سارے تاجروں اور اہل معاملہ کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ 

    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل وانصاف کے تعلق سے فرمائی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا مگر جو کوئی شریعت کی حد تو ڑتا تھا تو اُسے سزا دیتے تھے۔ ایک بار قبیلۂ قریش کے خاندان بنی فخزوم کی ایک خاتون چوری کے الزام میں پکڑی گئیں۔ اشراف قریشی کے اصرار پر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما نے اس عورت کی بابت سفارش پیش کرنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ایک نہ سنی ،اور غضبناک لہجہ میں فرمایا کہ اُسامہ ! تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سزائوں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا۔ فرمایا !اے لوگو! تم سے پہلے کی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اورجب بڑے لوگ کرتے تھے تو ان کا جرم نظر انداز کردیا جاتا تھا۔ خدا کی قسم ! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرے گی تو اللہ کے قانون کے مطابق محمدؐ بھی اس کا ہاتھ کاٹ ڈالے گا۔ اسی طرح نرمی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ مسجد نبوی میں ایک بدوی آیا۔ اتفاق سے اسے پیشاب کی حاجت ہوئی تو وہ وہیں مسجد کے صحن میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ نے دیکھ کر چاروں طرف سے اُسے ڈانٹنا شروع کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ نے صحابہ کو روکا اور فرمایا کہ تم سختی کے لئے نہیں بلکہ نرمی کے لئے بھیجے گئے ہو۔ اس کے بعد اس بدوی کو بلاکر سمجھایاکہ یہ مساجد عبادت کے گھر ہیں یہاں نماز پڑھی جاتی ہے، یہ پیشاب یا پاخانہ کی جگہ نہیں ہے اور لوگوں سے فرمایا کہ اس پر پانی بہادو۔ 

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بابت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاسے دریافت کیا گیا تو انہوںنے ساری داستان ایک ہی جملہ میں کہہ دی۔ انہوںنے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق من وعن قرآن تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو برا نہ کہتے تھے۔ آپؐ برائی کرنے والے کے ساتھ بھی برائی نہیں کرتے تھے بلکہ اُسے معاف فرما د یتے تھے۔ آپؐ جب گھرمیں تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے آتے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ کو پہلے خود سلام کرتے۔ غلام وآقا ، حبشی وترک میں فرق نہ کرتے۔ رات دن کا لباس ایک ہی رکھتے کیسا ہی حقیر شخص دعوت دیتا فوراًقبول فرماتے۔ آپ کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے۔ کسی پر لعنت نہیں کرتے تھے۔ دوسروں کی ایذاسانی پر صبر فرماتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہوجاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھراکر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں ایسے وقت میں ہم لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں کھڑے ہوکر ا پنا بچائو کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھکر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔

    حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سخاوت محتاج بیان نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فرمادیا کہ عالم سخاوت میں اس کی مثال نادرونایاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کافرکا بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام ’’جعرانہ‘‘ میں حاضر دربار ہوا تو آپ نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمایا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کامیدان بھرگیا۔ چنانچہ صفوان مکہ جاکر چلا چلا کر اپنی قوم سے یہ کہنے لگا۔ کہ اے لوگو ! دامن اسلام میں آجائو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر صفوان خود بھی مسلمان ہوگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک سائل حاضر ہوا۔ آپ نے اُسے بٹھایا۔ پھر دوسرا اور تیسرا۔ آپ نے ان سے بھی کہا۔ بیٹھو ، میرے پاس اس و قت کچھ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ دے گا تو تمہاری حاجت پوری کردوں گا۔ اتنے میں کسی نے چار اوقیہ چاندی ہدیہ کی۔ آپ نے ا یک ایک اوقیہ تینوں سائلوں میں تقسیم کردی اور چوتھی کی بابت اعلان کردیا کہ جسے ضرورت ہولے لے مگر رات ہوگئی اورکوئی اس کا خواہش مندنہ ہوا۔ مجبوراً جب سونے کے لئے لیٹے تواُسے سرہانے رکھ لیا مگر نیند نہ آئی۔ بار بار اٹھتے اور نماز پڑھنے لگتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا تو انہیں تشویش ہوئی۔ انہوںنے دریافت کیا’’کیا طبیعت ناساز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں ‘‘ انہوںنے کہی ’’پھر آپ اس قدر بے چین کیوں ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرہانے سے چاندی نکال کر دکھائی اور فرمایا اس نے مجھے بے چین کر رکھا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے اس حال میں موت نہ آجائے کہ یہ چاندی میرے پاس ہو۔ اس مختصر سی تحریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے چند پہلو ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لکھنے والے تمام عمر لکھتے رہیں اور بیان کرنے والے بیان کرتے رہیں تب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف بھی کماحقہ بیان نہ ہوسکے۔ 

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1219