donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Mazharul Hoda Qadri
Title :
   Noore Nabawat Wa Resalat Ki Aakhri Raushni

 

 

نورِنبوت  ورسالت ؐ

 

 کی آخری  روشنی


 

محمد  مظہر الہدیٰ قادری


    اس دنیا میں سوالاکھ نبی اور رسول تشریف لائے وہ تمام کے تمام اپنے زمانے میں نور روشنی بن کر آئے، رشدو ہدایت کا مینار بن کر آئے لیکن جب نورنبوت و رسالت کی آخری روشنی، ختم نبوت کی آخری کڑی سیدنا محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم دنیامیں تشریف لائے تووہ صرف اپنے زمانے کی روشنی بن کر نہیں آئے بلکہ تاقیام قیامت اور اس کے بعد ابدالآباد کے زمانوں کیلئے نور اور روشنی بن کر آئے۔ 

    ہر نبی اوررسول نور اور روشنی ہوتا ہے جیسا کہ ہر نبی اور رسول تاریکیوں کو اجالوں سے مبدل کرتا ہے۔ ہرنبی اور رسول ظلمت کدوں کو ر وشن بنادیتا ہے اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے، لیکن ہر آنے والے کی روشنی اس قدر بلند اور درجۂ کمال کی نہیں تھی جتنی بلند اور رفعت کو پہنچنے والی یہ روشنی جو ماہ ربیع الاول میں آنے والے پیغمبر اور ہستی کی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان نبوت کے آفتاب تھے، اتنی بڑی روشنی نہ ان سے پہلے کبھی آئی اورنہ بعد میں کبھی آئے گی۔ 

    ہجرت مدینہ کے وقت جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں د اخل ہورہے ہیں تو پورا مدینہ روشنی سے جگمگااٹھا۔مدینہ منورہ کا اندھیرا روشنی میں بدل گیا۔ ہر طرف روشنی میں بدل گیا۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی، نور ہی نور نظر آنے لگا، تاریکی چھٹ گئی اور ظلمت نور سے مبدل ہوگیا۔ اس حسین اور پرنور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحبا اور خوش آمدید کہنے کیلئے جہاں بڑے بڑے نوجوان اور بزرگ آئے وہاں چھوٹے چھوٹے بچے اوربچیاں بھی آپ کا استقبال کرنے کیلئے آئے،جس اونٹنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے وہ اونٹنی جب مدینہ منورہ کے پہاڑوں سے نمودار ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انورکو دیکھ کر ننھی ننھی بچیوں نے ان الفاظ سے آپ کا استقبال کیا۔ 

طَلَعَ البَدْرُ عَلَیْنَا۔ مِن ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ!

    یعنی آج مدینہ منورہ میں چودھویں ر ات کا چاند آگیا، آج مدینہ منورہ کی سرزمین پر گویا چاند اتر آیا ہے اور پھر صرف چاند ہی نہیں بلکہ چودھویں رات کا چاند۔

    ہلال، قمر، بدر— لفظ بدر ؔپر غور فرمائیں، حضور نور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مدینہ منورہ کے بچے بچیوں نے چہرۂ انور کو دیکھ کر چاند سے کیوں تشبیہ دی اور اگر چاند سے تشبیہ دینی تھی تو چاند کیلئے عربی زبان میں تین لفظ ہیں: (1)ہلال،(2) قمر، (3)بدر۔ ان بچیوں نے ’طلع البدر‘کیوں کہا، ’طلع الہلال‘ اور ’طلع القمر‘ کیوں نہ کہا۔ غور کرنے سے اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ اگرچہ ان تینوں لفظوں کے معنی چاند ہیں مگر ان میں فرق ہے، اس لئے کہ ہلال اسلامی مہینے کی پہلی رات کے چاند کو کہتے ہیں جیسے چاند دیکھنے والی کمیٹی کا نام ’’رویت ہلال کمیٹی ‘‘ ہے اور اس کے بعد دوسری رات سے لیکر تیرہویں رات تک کے چاند کو عربی زبان میں ’’قمر ‘‘کہتے ہیں اور چودھویں رات کے چاند کو ’’بدر ‘‘کہتے ہیں تو معنی کے لحاظ سے فرق تھا۔  ذرا غور فرمائیں کہ مدینہ منورہ کے ان بچوں اوربچیوں کو اللہ تعالی ٰنے اتنی عقل اور فراست دی تھی کہ آج کے بڑے اور سمجھ دار، ذی فہم لوگوں کو بھی اتنی عقل نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ مسئلہ سمجھایا کہ جس طرح د نیا کے آسمان پر چاند جب طلوع ہوتا ہے (پہلی رات)تو چھوٹا ہوتا ہے۔ جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں وہ بڑا ہوتا جاتاہے تو چاند کی روشنی بھی بڑھتی جاتی ہے اور جب چودھویں ر ات کا چاند مکمل ہوجاتا ہے تو ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ چودھویں رات کا چاند ’’بدر ‘‘ مکمل ہوتا ہے جبکہ ہلالؔ اور قمرؔ مکمل نہیں ہوتا۔ 

    مدینہ منورہ کے ان بچوں اور بچیوں نے سمجھایا اور سمجھاکہ اسی طرح ایک آسمان نبوت ہے، اس آسمان کا پہلا چاند یعنی ہلال بن کے حضرت آدم علیہ السلام آئے۔ ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سب ’’قمر‘‘ بن کر آئے، ہر آنے والا پیغمبر اپنے زمانے اور و قت کے لحاظ سے کامل تھا مگر ابھی تک ایسا ’’بدر کامل ‘‘ طلوع نہیں ہوا تھا جس کی روشنی آنے والے تمام زمانوں کیلئے کافی ہو اور اس کے طلوع کے بعد زمانہ کبھی شب تاریک سے دوچار نہ ہو، چنانچہ جب آسمان نبوت پر نور نبوت سیدنا محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم چمکے تو چودھویں رات کے چاند کی طرح ’’بدر ‘‘ بن کر آئے، جس طرح چودھویں رات کے چاند کے بعد روشنی کا کوئی درجہ نہیں اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی بن کر آگئے تو نبوت کا بھی کوئی درجہ باقی نہیں رہا اسی لئے کہا:’ طلع البدرُ علینا‘ تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں آئے ہیں تو کامل روشنی بن کر۔ ’’ختم نبوت ‘‘ کا معنی ’’تکمیل نبوت ‘‘ ہے۔ 

    ختمیِ مرتبت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے نبوت کے نورکی تکمیل فرمادی تو ماہ ربیع الاول میں جو ہستی آئی ہے وہ سب سے بڑی روشنی بن کر آئی ہے کہ جب چاند طلوع ہوتا ہے تو رات کی تاریکیاں کا فور ہوجاتی ہیں اور جب دن کے وقت سورج نکلتا ہے تو وہ دنیا کو منور کر دیتا ہے، چاند بھی روشنی پھیلا رہا ہے۔ میری اور آپ کی نظر میں یہ سورج اور چاند ساری دنیا کو روشنی دینے والے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ سورج اورچاند کی روشنی، نورِنبوت و رسالت محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی روشنی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ سورج اورچاند ایک وقت میں غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی روشنیاں بھی غائب ہوجاتی ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو میرے اور آپ کے پیغمبر ہیں اورماہ ربیع الاول میں تشریف لائے ہیں آپ اتنی بڑی روشنی بن کر تشریف لائے ہیں کہ دنیا میں آنے کے بعد نہ کبھی غروب ہوئے اور نہ کبھی غروب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیامیں بہ جسم جسیم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو بھی روشن تھے اور جب ہماری نظروں سے پردہ فرما گئے تب بھی روشن ہیں۔ اس جہاں میں بھی روشنی ہیں، عالم برزخ میں بھی روشنی ہیں اور عالم قیامت میں بھی نور چمکے گا (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ 

    الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی روشنی بن کر آئے جس پر کبھی فنا نہیں، جس پر کبھی زوال نہیں، یہ روشنی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ قرآن میں پڑھتے ہیں کہ اس سورج، چاند اور ستاروں پر ایک نہ ایک دن غروب و زوال آ جائے گا  (قرآن) لیکن حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی نہ دنیا میں ختم ہوگی اور نہ دنیا کے بعد ختم ہوگی اور نہ قیامت کے دن ختم ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اس دن میں ہی سارے انبیاء کا امام وقائد ہوں گا اور ساری قومیں کل قیامت کے دن میرے عَلَم کے نیچے آکر جمع ہوں گی ‘‘ (بخاری)۔ الغرض ہر چیز پر فنا آجائے گی، اللہ کی ذات اور صفات پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔ جس طرح اللہ کی ذات ہمیشہ رہے گی، قرآن بھی ہمیشہ رہے گا چونکہ قرآن بھی اللہ کا کلام ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ختم کرنا چاہے گا تو قرآن کو اس دنیاسے اٹھالے گا۔ لہٰذا جب تک قرآن باقی ہے، دنیا باقی ہے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو روشنی لائے ہیں وہ انسانوں کی ہدایت کیلئے ہیں اور وہ دو روشنی اللہ نے عطا فرمائی ہے ایک روشنی قرآن ہے، دوسری صاحب قرآن ہے۔ انسان کی ہدایت و نجات کیلئے قرآن بھی ضروری ہے اور صاحب قرآن بھی۔ اگر کوئی شخص قرآن کومانتا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے وہ سرے سے قرآن ہی کا منکر ہے۔ اسی طرح اگر صاحب قرآن کو مانتا ہے لیکن قرآن کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ بھی قرآن ہی کا منکر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامنکر ہے۔

     اس نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہر کتاب کے ساتھ معلم کو مبعوث فرمایا، قرآن علم ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمل، قرآن اجمال ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تفسیر ہیں۔ لکھا ہوا قرآن ساکت ہے تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن ناطق ہیں۔ قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط ہی سے سمجھنا ممکن ہے، انسانوں کی ہدایت کیلئے ان دو روشنی کی ضرورت ہے۔ وضاحت کیلئے یہ مثال کافی ہے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کو دیکھنے کیلئے دو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک داخلی نور یعنی آنکھ کی روشنی اور دوسری خارجی نور، یعنی سورج، چاند، ٹیوب لائٹ وغیرہ کی روشنی۔ خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ کا نور، نور توحید ہے، پیغام توحید ہے، ہر دور، ہر زمانے میں یہ نور کا ر فرما رہا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک منتقل ہوتا ہوا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر تکمیل پذیر ہوا۔ روشنی ایک ہی تھی، ظلمتیں بے شمار، ایک ہی نور سے ظلمتوں کو کافور کردیا۔ ساری دنیا کا اس پر اتفاق ہے کہ روشنی کے بغیر کام نہیں چلتا اگر روشنی نہ ہو تو کاروبارِ زندگی معطل ہوجاتا ہے۔ 

    آئیے اس ایمان کی روشنی سے پوری دنیا کو جگمگادیجئے، اعمال صالحہ کی روشنی سے بد اعمال دنیا کو روشنی عطا کیجئے اور سب سے پائیدار، دائمی اورغیر فانی روشنی قرآ ن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سے خود تاباں ہوں اور ظلمت زدہ انسانیت کو روشن و تاباں کردیں اور نورتو حید سے پوری دنیاکو منور کردیں۔ 

******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 788