donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md. Sanaullah Qasmi
Title :
   Asre Hazir Mein Talimat Nabvi Ki Manviyat

عصرحاضر میں تعلیماتِ 

نبوی کی معنویت


(مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی (نائب ناظم امارت شرعیہ


     رب العزت نے جب سے یہ دنیا قائم کی، پہلے دن سے ہی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انبیاء و رسل کو مبعوث کرنا شروع کیا بلکہ جب اس دنیا میں کوئی انسان نہیں تھا صرف آدم علیہ السلام تھے، اس ایک انسان کو نبی بنایا، دنیا آباد ہوتی گئی، آبادیاں بڑھتی رہیں، کائنات کا نظام وسیع ہوتا رہا او ر اس وسعت کے حساب سے انبیاء و رسل بھیجے جاتے رہے۔ تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب مختلف علاقوں کیلئے الگ الگ رسولؑ بھیجے گئے تاکہ وہ احکام الٰہی کو لوگوں تک پہنچائیں، خود کرکے دکھائیں اور وہ لوگوں کیلئے آئیڈل ہوں، یہ احکام الٰہی آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ بھی رہیں۔ اس لئے آسمانی کتابیں اور صحیفے بھیجے گئے، ضرورت کے اعتبار سے یکبارگی یا قسطوں میں، پھر ایک دور وہ آیا جب خالق کائنات نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیین بناکر مبعوث کیا، کتاب اللہ کی شکل میں تیئس سال میں قرآن کریم کو قیامت تک کیلئے دستورِ حیات بناکر نازل کیا اور عالم الغیب اور علیم بذات الصدور نے اس پورے نظام کی تکمیل کا اعلان کردیا اور نعمت باری کے اتمام کا مژدہ سنا دیا، رعایت قیامت تک آنے والے لوگوں کی ملحوظ رکھی گئی اور قرآن کریم کو قیامت تک کیلئے تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا۔ 

    آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو جامع کمالات اور صفات کے ساتھ جوامع الکلم بنایاگیا اور ملفوظات نبوی بھی دین کا حصہ قرار پائے۔ زبان نبوت سے یہ اعلان بھی کروادیا گیا کہ زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات و ملفوظات بھی وحی الٰہی سے ہی صادر ہوتے ہیں اور معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کی قرآن کریم کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی۔ اب یہ ساری تعلیمات قرآن و احادیث میں مذکور اور محفوظ ہیں اور ان تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور اس نے ہر دور میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے۔ جب جب ان تعلیمات سے انسانوں نے دوری اختیار کی، انسانیت کراہنے اور سسکنے لگی۔ انسانوں کے خود ساختہ دستور، قوانین اور نظام زندگی نے بنی نوع انسان کو سکون، راحت و آرام پہنچانے کے بجائے اسے نت نئے مسائل اور پریشانیوں سے دوچار کیا۔ موجودہ دور اس کی منہ بولتی تصویر اور عصر حاضر کے مسائل و مشکلات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور افراط و تفریط کی گرم بازاری ہمیں تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہا ہے، یہی ایک صورت ہے جس میں پریشان دنیا کا مداوا ہے ۔ہم نے ایک کے سامنے سرکا جھکانا چھوڑ دیا تو پتہ نہیں کتنی جگہوں پر جبیں سائی کرنی پڑ رہی ہے ۔ ہمیں ’’یک در گیرو محکم گیر‘‘ کا حکم دیاگیا تھا ہم نے بہت سے دروازوں سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں۔ نتیجہ میں ہمیں ہلاکت و بربادی، افلاس و پسماندگی ملی۔ہمیں غصہ پر قابو کا حکم دیاگیا تھا اور جو اسے پچھاڑ دے اس کے قوی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، ہم ا س معاملہ میں اتنے کمزور ثابت ہو رہے ہیں کہ ہماری شبیہ جذباتی اور جوشیلی بن گئی ہے، تحمل اور برداشت کامادہ ہم میں باقی نہیں ہے، جس کے مضر اثرات کھلی آنکھوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔ 

    ہمیں غیبت، چغل خوری، تجسس، ذات برادری کی لعنت سے دور رہنے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سماج بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن ہم اس پوری لعنت کو ترقی اور رفع درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے، اس کیلئے تنظیمیں بنائی جانے لگیں اور ہم آپس میں دست و گریباں ہونے لگے۔ دھوکہ دہی مسلمانوں کے شایان شان نہیں تھالیکن مادی منفعت کے حصول کی ہوس میں یہ شان جاتی رہی۔ اب پھٹے کپڑے اور خراب مال کو اچھا کہہ کر اچھی قیمت پر فروخت کردینے والا ہی اچھا سیلزمین ہے۔ گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹ کے سفوف ملانے کے واقعات بھی حیرت انگیز نہیں ہیں۔ لوگوں پر رحم کرنے والے پر اللہ کی رحمت کے نزول کی بشارت دی گئی تھی لیکن ظلم و جور ہمارا شیوہ بن گیا، علم ہماری شناخت کا ذریعہ تھا، ہم جہالت میں ممتاز ہوکر رہ گئے، اللہ کا خوف باقی نہیں ہے۔ ہمیں امت وسط اور خیر امت بناکر لوگوں کو صحیح راستے پر لانے کاکام سپرد کیاگیاتھا، ہم خود گم کردہ راہ ہوگئے، راہبری کس طرح کرسکتے ہیں۔ سود کی لعنت سے پاک تجارت اورمعاشی نظام ہماری پہچان تھی لیکن ہمیں سودی کاروبار کرنے تک میں عار نہیں ہے۔ کوششیں اس کی بھی ہوتی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ہندستان میں سود کو جائز قرار دے دیا جائے۔ 

    ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں اُف تک کہنے سے روکا گیاتھا، ان کیلئے اپنے کاندھے جھکا دینے کا حکم دیاگیا اور ہم ان کیلئے ’اولڈ ایج ہوم‘ کی تجویز لا رہے ہیں تاکہ ہماری بے لگام زندگی میں وہ کہیں پر رکاوٹ نہ بنیں۔ ہمیں اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیاگیاتھا، عورتوں کو بے پردہ نکلنے اور بنائو سنگھار کرکے غیروں کے سامنے آنے سے منع کیاگیاتھا، ہم نے ان حدود و قیود کو اس طرح توڑا کہ رشتوں کا احترام باقی نہیں رہا۔ ہمیں ’ام الخبائث‘ شراب کی حرمت بتائی گئی تھی کہ اس میں گناہ بڑا ہے، ہم نے اس کو شیر مادر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا۔ جوئے، قمار سے ہمیں روکا گیاتھا لیکن ہم نے اسے جلد مالدار ہونے کا نسخہ سمجھ لیا، اب جوئے خانے کے لائسنس دئیے جاتے ہیں اور گھوڑدوڑ کے مقابلے میں کھلے عام جوا کھیلا جاتا ہے۔ ہمیں اسراف و فضول خرچی سے منع کیا گیا تھا اور فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیاگیاتھا۔ ہم مختلف تقریبات میں ہزاروں روپئے کے پٹاخے پھوڑ رہے ہیں، دو دو سو روپئے کے شادی کارڈ چھپوا رہے ہیں اور کئی کئی سو بلکہ ہزارہزار روپئے کی پلیٹوں پر دعوت ولیمہ کررہے ہیں۔ بینڈ باجے، رقص و سرود، ڈیکوریشن اور استقبالیہ کے نام پر جو تماشے ہم کررہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ انسانی اعضا کی تجارت کو حرام قرار دیا گیاتھا، ہم پورے کے پورے سالم جوان لڑکے کو تجارت کا مال سمجھ بیٹھے ہیں۔ لڑکی والوں پر شادی میں کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا، ہم تلک و جہیز کے ساتھ کھانے تک کے مینو طے کرنے میں لگے ہیں۔ ہمیں مہر دینے کا حکم دیاگیا تھا، ہم نے اسے دَین مہر بنا دیا۔ 

    ہم نے اسلامی تعلیم کو چھوڑا تو خاندان ٹوٹنے لگا، ہمیں پورے خاندان کا نگراں بنایا گیا تھا اور اس حوالے سے ہماری باز پرس بھی ہونی ہے لیکن ہمیں کلبوں، تفریح گاہوں، سنیما گھروں اور دوستوں کی مجلسوں سے فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے گھر ،خاندان اور بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکیں۔ پاکیزہ زندگی گزارنا ہمارا طرۂ امتیاز تھا، آج اس کا خیال تک قصہ پارینہ ہے، اس لئے عصر حاضر میں تعلیمات نبویؐ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اس سے بہت دور ہوگئے اور ہم کا مطلب صرف مسلمان نہیں ہیں تمام انسان ہیں، اس لئے کہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کیلئے رسولؐ بناکر بھیجے گئے۔ اللہ تمام جہاں کا رب، رسول تمام جہاں کے رسولؐ اور قرآن کریم تمام جہاں کی ہدایت کیلئے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ جس نے اس دعوت کو قبول کرلیا ہے اس پر سارے احکام لاگو ہوتے ہیں اور جو ابھی ایمان نہیں لائے ان پر پہلے ایمان لانا اور پھر تمام احکام پر عمل کرنا ضروری ہے جو لوگ بغیر ایمان لائے بھی تعلیمات نبویؐ کے دوسرے حصوں کو اپنی زندگی کا محور بنائیں گے وہ بھی دنیا میں اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی اس قسم کی آواز لگاتے رہتے ہیں کہ حکومت کرنی  ہے تو اس کا طریقہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے سیکھو اور انسانی ہمدردی اور اکرام انسانیت کا درس اسلام سے حاصل کرو۔ 

    آئیے ہم پھر تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ چلیں، اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاریںاور نفس کے شر سے بچاکر اپنے اور اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور جن پر مامور فرشتے صرف اللہ کی مانتے ہیں، ان کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ہوتا ہے کر گزرتے ہیں۔ لایعصون اللہ ماامر ھم و یفعلون مایؤمرون ۔

……………………………………

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 984