donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Ali Kolkata
Title :
   Seeratun Nabi S.A.W. Ke Paigham Ki Asri Maanviyat

 

سیرتُ النبیؐ کے  پیغام کی عصری معنویت


سید علی، کلکتہ


    سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ پورے بنی نوع انسان کیلئے کامل نمونہ اورہر دور کیلئے رہنما ہیں۔ آپ اکے ہر قول اور فعل میں حکمت ہے اور فوزو فلاح کی وہی راہ ہے جو آپ انے بتائی ہے او ریہ کہ جو نظام زندگی حضور ا نے دیا وہی انسانیت کیلئے صحیح اور درست ہے۔ مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کسی نبی اور رسول اکو اللہ تعالیٰ نے اس لئے نہیں بھیجا کہ انہیں صرف مان لیاجائے کہ وہ اللہ کے رسول اور نبی ہیں بلکہ ان پر ایمان لانے کے ساتھ ان کی غیر مشروط اطاعت و پیروی بھی ضروری ہے اور ایمان کا عین کا تقاضا ہے۔ حضرت نبی کریم ا ا للہ کے آخری رسول اور خاتم النّبیین ہیں اور آپ اپر دین اسلام مکمل ہوگیا اس لئے آپ انے قیامت تک کیلئے عقائد، عبادات و معاملات سے لے کر اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست اور بین الاقوامی اصول و ضوابط کی تفصیلات صراحت کے ساتھ بتادی اور ان پر عمل کرکے دکھا دیا۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ کی پوری زندگی کو نمونہ بنانے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے عبادات پر زیادہ توجہ دی اور دیگر شعبۂ حیات میں آپ اکے عمل کو فراموش کردیا، حالانکہ اسلام کا تقاضا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو سیرت النبی اسے ساری دلچسپی مجرد حصول ثواب کیلئے رکھتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضور اسے قرب اور عقیدت و محبت کی ہر کوشش خدا کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے اور اس پر اجر کی توقع رکھنی چاہیے لیکن ایسی کوشش کا اوّلین مدعا تزکیۂ نفس، اصلاح معاشرہ اور قیام عدل و قسط بھی ضرور ہونا چاہیے۔ دنیا میں عقیدہ کی خرابی سے لیکر سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور سیاسی برائیوں کو دور کرنا بھی سیرت کا زریں پہلو ہے۔ اسلام کے پیش نظر صرف مسلمانوں کی ہمہ جہتی اصلاح نہیں، پورے بنی نوع انسان اور خدا کی زمین پر بسنے والی تمام قوموں اور ملکوں کی فلاح و اصلاح بھی عین مطلوب ہے اوریہی سنت رسولؐ رہی ہے۔ ہمارے ہر سمت جرائم اور منکرات کی فضا قائم ہو اور امت رسولؐ صرف اپنی اصلاح پر توجہ مرکوز رکھے، صحیح اسوہ رسول اکی پیروی نہیں کہی جا سکتی۔

    حضرت نبی کریم اکا پیغام دراصل دنیا کی وہ عظیم اصلاحی و دعوتی تحریک ہے جس کے  پیش نظر نہ صرف اعتقادی، اخلاقی و روحانی اصلاح و ترقی ہے بلکہ پوری انسانی زندگی کی اصلاح ہے۔ وہ ایک ایسی ہمہ گیر اور انقلابی تحریک ہے جو بیک وقت عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بھی تحریک ہے اور معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کے موزوں حل کی تحریک بھی۔ ایسی تحریک کی کہیں مثال نہیں ملتی کہ جس نے صرف 23 برسوں میں دنیا کی کایا پلٹ دی ہو اور فرد اور معاشرہ کو اندر سے باہر تک اور باطن سے ظاہر تک بالکل بدل کر رکھ دیا ہو اور نئے قالب میں ڈھال دیا ہو۔ رسول اکرم ا نے جو کچھ پیش کیا اس کی بنیاد توحید ہے۔ عقیدہ کی خرابی سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ رسول ا اللہ نے جب اسلام کی دعوت شروع کی تو اس وقت عرب میں بت پرستی، جوا، شراب، بدکاری، سود خوری، چوری، لوٹ کھسوٹ، بے رحمی، کشت و خون، قتل و غارت گری نیز دیگر گندے اور بے حیائی کے کاموں سے معاشرہ لت پت تھا اور عربوں کو جانور کی سطح تک پہنچا دیا تھا۔ وہ مردار کھاتے تھے، لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے تھے، غرض کہ وہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی پستی میں گر گئے تھے۔ وہ رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ایسے نامواقف اور ناساز گار حالات میں توحید پرستی کی دعوت اور معاشرہ کی اصلاح کا کام گویا مروجہ عقیدہ اور حالات کے خلاف کھلا تصادم تھا لیکن توحید کی دعوت کی کشش اور رسول ا  کے صابرانہ کردار سے سعید روحیں متاثر ہوتی چلی گئیں اور تیرہ برسوں میں ایک چھوٹا سا مقدس گروہ ایسا تیار ہوگیا جن کے اخلاق و کردار اور سیرت میں اسلام رچ بس گیاتو انہیں دیکھ کر لوگ سوچنے لگے کہ یہ کیسا انقلاب ہے جس نے ایمان لانے والے اور رسول اکے پیروکاروں کی زندگی بدل دی۔23 برسوں کے قلیل عرصے میں حالات بدلے اور ایک صالح معاشرہ اور ایک چھوٹی سی ریاست وجود میں آگئی جہاں عدل و قسط کی حکمرانی تھی۔ اس ریاست کی اساس نہ آمریت پر تھی نہ بادشاہت اورنہ ہی لادینیت پر بلکہ قرآن پر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف امن و آشتی کی فضا قائم ہوگئی۔ مساوات، انصاف، محبت و خیر خواہی، رحم کا جذبہ ابھر آیا اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہوگیا۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے باہر کے نظام کے ساتھ اندر سے انسانی قلب و ذہن کو بدل ڈالا اور نیا کردار پیدا کیا جس کے نتیجے میں لوگ آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔ دشمنیاں اور عداوتیں مٹ گئیں، پڑوسیوں اور غیر مسلموں کے حقوق کو تحفظ مل گیا۔ کیا ہم مسلمانوں کے سامنے رسول ا کا یہ اسوہ، یہ کردار یہ انقلاب ہے؟ کیا ہم سیرت رسول اکی روشنی میں ملک کے عوام، معاشرہ اورملک کو نئی راہ نہیں دکھا سکتے اور تباہ کن مسائل اور سماجی عذاب سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کرسکتے۔ کیا آج معاشرہ اورملک ایسے نظریہ اور نظام کا منتظر نہیں ہے جو امن و انصاف، جمہوری اور بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکے اور سماجی برائیوں، تمدنی بحران، معاشی کرائسس اور سیاسی مسائل سے نجات دلانے کیلئے رسول ا کی سیرت کی روشنی میں قائم ہو۔ 

    اس وقت دنیا اور ہمارا ملک ہندستان بڑے سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ کرپشن اور بد عنوانی، اخلاقی انحطاط، معاشی بحران، استحصال، ناانصافی اور ظلم، چوری، شراب نوشی، قتل و غارت گری، بے حیائی و فحاشی اور بڑھتی عصمت دری کے واقعات، لڑکیوں کی پیدائش سے نفرت، جوا، سٹہ، کالا بازاری، کھانے پینے کی چیزوں میں مضر اشیاء کی ملاوٹ، ناپ تول میں دھوکہ بازی، ذخیرہ اندوزی اور رنگ ونسل، زبان و علاقہ اور ذات برادری کی آگ میں پورا ملک جھلس رہا ہے۔ کیا امت مسلمہ کی اللہ کے رسول اسے سچی محبت و عقیدت اور پیروی سیرت کا یہ دینی تقاضہ نہیں ہے کہ وہ اس بگڑے حالات میں سدھار لانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیا یہ دینداری کے خلاف ہے؟ ہمیں عرب کے بگڑے بد ترین حالات میں رسول اللہا کی سیرت و کردار کی یاد کیوں نہیں یا د آتی۔ رسولؐ اللہ نے تو پورے مشرک معاشرہ میں اسلام کی پوری دعوت لوگوں تک پہنچائی۔ مخالفین کے ہر وار کو سہا اور معاشرہ کو بدل کر رکھ دیا۔ ہم ایک جمہوری ملک میں بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اسلام کی حقانیت جس میں تمام سماجی و اخلاقی و سیاسی برائیوں کا مجرب علاج ہے اسے پیش کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے۔ اگر ہم اللہ کے رسول اکے پورے پیغام کو نہیں پہنچا سکتے تو رسول اللہ سے ہماری محبت و عقیدت کا دعویٰ کتنا کھوکھلا ہے، اس کا ہر مسلمان اندازہ کرسکتاہے۔ پورا ملک اس وقت سماجی، اخلاقی، معاشی اور تہذیبی، سیاسی بحران میں مبتلا ہے جس گرداب سے نکلنے کا نسخہ صرف مسلمانوں کے پاس ہے لیکن وہ اپنی خیر امت اور داعیانہ حیثیت سے بے خبر ہیں۔ اسلام اور رسولؐ اللہ کی سیرت کو صرف مسلمانوں تک محدود کر رکھا ہے اورنہ خود بدلتے ہیں نہ دنیا کو بدلنے کی فکر کرتے ہیں۔ 

    ہم مسلمانوں نے رسول اللہ ا کی سیرت و پیغام کو مخصوص مہینہ اور مخصوص تاریخ کیلئے مختص کردیا ہے۔ کیا اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام کیا ہے اور رسول اللہ ا کی سیرت کیا ہے اسے ہر روز اپنے قول و عمل سے پیش کرتے ہیں۔ اسلام کا جو تقاضا رسول اللہ ا کی امتی سے بھی ہے۔ قرآن کا جو حکم و ہدایت اللہ کے رسول ا اور صحابہ کرمؓ کیلئے تھا وہی آج بھی اسلام کے ماننے والوں کیلئے ہے۔ ہم اللہ کے رسول ا سے محض محبت و عقیدت کا سالانہ جشن ولادت مناکر حق ادا نہیں کرسکتے جب تک آپ ا کی لائی ہوئی شریعت پر، آپ اکی سنت پر پوری طرح عمل کرنے کی پوری کوشش نہ کریں اور دنیا اور اپنے ملک کے عوام تک اسلام کی دعوت و پیغام نہ پہنچادیں۔


اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 916