donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Miscellaneous Articles -->> Mutafarrik Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaq Ahmad
Title :
   Kitni Buri Baat Hai


کتنی بُری بات ہے


اشفاق احمد


جو امریکن قوم اور امریکن لوگ ہیں، یہ بھی بڑے کمال کے ہیں، اور ان کو کچھ ایسی سوجھتی ہے، اور ان کے دماغ میں اس طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیںجو عملی صورت اختیار کرکے مختلف کھلونوں کے روپ میں جب ہمارے سامنے آتے ہیں تو آدمی حیران ہوہوجاتاہے۔ اب یہ دیکھ لیں ساری دنیا کے اندر کیسی کھدیڑ مچائی ہوئی ہے۔ اپنوں کو،کسی شخص کو اور کسی کمیونٹی کوکسی گروہِ انسانی کو آسانی سے زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا بس ایک وتیرہ ہے۔ ان لوگوں میں سے بہت سے ہمارے دوست بھی ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں، وہ یہاں بہت اونچے عہدے

پر فائز ہیں، مسٹر مورلک ان کا نام ہے۔ ان کے ساتھ ایک جھگڑا رہتا ہے، کبھی لڑائی، کبھی چھینا جھپٹی اور بے قدری، ہم ان کے ساتھ کچھ تھوڑا بہت کرلیتے ہیں جھگڑ ا،لیکن ہمیں کمزور رہنا پڑتا ہے ان کے سامنے۔ اس لیے کہ ان کی سوچ بڑی تیز ہے اور ان کی پیشرفت بھی بڑی آگے کو بڑھنے والی ہے۔ مورلک ایک دن مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم لوگ بہت اچھے لوگ ہو، لیکن تم سارے ریفریجریٹر کے اندر زندگی بسر کرنے کے عادی ہو۔ میں نے کہا، ریفریجریٹر میں کیسے؟

کہنے لگا، تم ہر چیز کو محفوظ کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھنے کے عادی ہو۔ اپنی انسانی زندگی کو بھی۔ تمھارے بچے ہیں، مثلاً پیارے پیارے ،تم ان کو اٹھا کے ریفریجریٹر کے اندر رکھ دیتے ہو کہ یہ فریش اور تروتازہ رہیں، اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ جب ہم سبزی یا پھلوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے ان کو ریفریجریٹر میں رکھتے ہیں، لیکن کہنے لگا کہ ریفریجریٹر کے اندر رکھی ہوئی یہ چیزیں جو ہیں، باہر سے تو تروتازہ رہتی ہیں آپ کا بھی تجربہ ہوگا، سب کا ہے نا۔ اندر سے وہ اتنی اچھی، اور مزیدار کھانے کے قابل نہیں رہتیں، نہ لذت میں، نہ

تاثیر میں، جتنی کہ تازہ ہوتی ہیں، اس نے کہا۔ میں نے تمھارے ملک کا ایک عجیب و غریب رواج دیکھا ہے کہ والدین یہ چاہیںگے کہ بچے جو ہیں وہ ہم اٹھا کے شام کو،دن کو ریفریجریٹر میں رکھ دیں، تاکہ وہ تروتازہ رہیں اور ان کی خوبصورتی جو ہے، وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک رہے۔ بچے یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین بوڑھے ہورہے ہیں، ان کو بھی ہم ریفریجریٹر میں رکھ دیں۔ تو آپ لوگوں نے ایک عجیب سارویہ زندگی کا اختیار کیا ہوا ہے، جو نہ توHumanہے اور نہ بہادر قوم سے اس کا تعلق ہے۔ تو میں نے کہا، تم

یہ عجیب بات کررہے ہو۔ٹھیک ہے، ریفریجریٹرمیں جب چیزیں رکھی جاتی ہیں، تو ان کو مجموعی طور پر ایک ہی جگہ پر گھسیڑنہیں دیا جاتا ۔ ان کو الگ الگ کرکے رکھا جاتا ہے، تاکہ ٹماٹر ایک طرف رہیں، بینگن ایک طرف، مٹھائی ایک طرف رہے، پانی ایک طرف، تو ایسے ہی آپ الگ الگ رہتے ہیں۔بیوروکریسی جو آپ کی ہے وہ ایسے فریج میں رہتی ہے کہ اس کے قریب کوئی جا نہیں سکتا۔ آپ کے استاد جو ہیں، ٹیچر جو ہیں، پروفیسر جو ہیں، وہ بھی ایک اپنی خانہ بندی کرکے بیٹھے ہیں، ان کی بھی اپروچ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹرلے لیں، وکیل لے لیں وہ سارے کے سارے ان لوگوں

کے متعلق نہیں ہیں، جن لوگوں سے متعلق یہ ملک ہے۔ان کو ضرورت پڑتی ہے، مثلاًڈاکٹرزہیں، بینگنوں کی طرح پڑے ہیں اور وہ وہاں ہی سے اپنا آرڈر جاری کرتے ہیںہونا یہ چاہیے کہ ان کے، اور مریض کے مابین ایک ارتباطِ باہمی رہے اور وہ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے رہیں۔ ٹیچر جو ہے، استاد جو ہے وہ اپنے طالب علم کے ساتھ ملتا رہے، اور ان کو جانتا پہچانتا رہے، Human Beingکے درمیان جب تک تعلق نہیں ہوگا کتاب آپ کو فائدہ نہیںدے گی۔ اگر کتاب ہی فائدہ پہنچا سکتی، تو اللہ تعالیٰ ایک رسی کے

ذریعے دنیا میں ایک کتاب اتار سکتا تھا ہر گھر میں۔ اس کے لیے کیا مشکل تھا، لیکن نہیں اس کے ساتھ پیغمبر ضرور بھیجنا ہوتا ہے،کیونکہ جب انسان نہیں ہوگا، ان کے سامنے اس کی مثال نہیں ہوگی، اس کی شکل وصورت سامنے نہیں ہوگی، تب تک ان لوگوں کو تقویت نہیں ہوگی کہ یہ ہمارے جیسا انسان ہے۔ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ بابوں کی آپ بڑی بات کرتے ہیں۔ بابوں میں کیا خوبی ہوتی ہے۔ بابوں میں خوبی ہوتی ہے کہ بادشاہِ وقت اپنے جوتے اتار کر ان کی جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے۔ حالانکہ کیا ہوتا ہے ان کے پاس کچھ دینے کو۔ بابا جو ہوتا ہے وہIMFنہیں ہوتا نا۔

ہم توIMFکے پاس سر کے بل جاتے ہیں۔ بابے کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے ابھی ایک بی بی کہہ رہی تھی کہ اخلاق کی سر بلندی ایسی ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ انسانی وقار، اور یہ اشرف المخلوقات کا لیول اتنا اونچا بھی ہوسکتا ہے، اور ہم جو ہوتے ہیں ’’ثم رددنہ اسفل سفلین‘‘ تو ہم ڈر کے مارے سر جھکا جاتے ہیں کہ ہم چوتھے لیول کے آدمی ہیں۔ تو جیسا میں نے کہا کہ مورلک کی یہ بات میرے دل کو لگ رہی تھی۔ اس نے کہا، تم اتنے محتاط ہوکہ اپنے بچوں کے لیے اسپیشل اعلیٰ درجے کے

اسکول بنا دیے، وہ ایک اور طرح کے ریفریجریٹر ہیں کہ یہاں پر میں اپنا بچہ لے جاکر داخل کرادوں اور یہ بالکل تروتازہ رہے، اور جب ضرورت پڑے گی، تو نکال کر اس کو زندگی کے کاموں میں لے آئیں گے۔ پھر اس نے کہا میری تم سے محبت ہے اور تمھاری وجہ سے پاکستان سے محبت ہے، تم ایسے کرو ریفریجریٹرمیں زندگی گزارنے کے بجائے ٹوسٹر میں زندگی گزارا کرو، تاکہ تھوڑا سا سینک لگے تم کو، اور جو تم میں کچا پن ہے وہ پختگی میں تبدیل ہو اور جب تمھاری ضرورت پڑے چھلانگ مار کر باہر نکلو۔ ٹوسٹ دیکھا ہے، نکلتا ہے ہاں، اور اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
تو تم تو ٹوسٹر سے بہت گھبراتے ہو،اپنی زندگی کو سینک دینے کو تیار ہی نہیں ہو، تعلیم دلواتے ہو صرف نوکریاں حاصل کرنے کے لیے۔ وہ بات جو انسانیت پیدا کرتی ہے، وہ تو سینک لگنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں ہوتی، لیکن تم اتنے محتاط ہو اور اتنے خوفزدہ ہو کہ حالات اور زمانے کا سامنا کرنے کے لیے تم اس قسم کی صورتِ حال پیدا کرتے رہتے ہو۔ اس نے کہا، میں تو تھوڑا سا خوش ہوں تمھارے ملک میں جو ابھی فوجی ٹریننگ ہے کا کول وغیرہ کی، وہ ٹھیک ہے، باقی کے تو آپ نے سارے ادارے تباہ کردیے ہیںاور مجھے اندیشہ ہے کل کو یہ اس کے ساتھ بھی تم لوگ یہی نہ کرو۔

میں پچھلے دنوں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا، پتا نہیں کہاں۔ اس میں بالواسطہ طور پر تو نہیں بلاواسطہ طور پر یہ بات آتی ہے، اس میں کوئی بتارہا تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا۔ آج کل یہی ہے نا اور لڑکوں کے ساتھ بہت اچھا ہوتا ہے۔ لڑکوں کو ناشتے میں انڈا پراٹھا ملتا ہے، لڑکیوں کو کہتے ہیں، تو کڑی ہے کوئی بات نہیں تو بعد میں کھانا یا نہ کھانا، ہمارے ہاں ایسا ہوتا رہا ہے۔

ہمارے گھر میں میری ماں کہتی تھی میری بہن سے کہ ابا کے بوٹ پالش کر۔ وہ بیٹھی بوٹ پالش کررہی ہوتی تھی اور ہم مزے سے کھانا کھارہے ہوتے تھے، تو یہ باتیں ساری رہتی رہی ہیں تو میں نے جب یہ دیکھا، میں بڑا حیران ہوا کہ یااللہ یہ تو ہمیں کس طرف کھینچے لیے جارہا ہے، تو میں نے اپنی ماں سے اس وقت یہ پوچھا۔

میں نے کہا کہ یہ رویہ جو تھا آپ کا اس کی کیا وجہ تھی۔ انھوں نے کہا، یہ بہت ضروری رویہ تھا۔اس لیے کہ اس لڑکی کو آگے جاکر بچے پیدا کرنے تھے،ان بچوں کو پالنا تھا، اگر اس کو انڈا کھانے کی عادت اب پڑجاتی تو وہ سارے انڈے کھا جاتی اور بچے اس کے بیٹھے رہ جاتے ٹیبل کے اوپر۔ یہ اس کی ٹریننگ تھی، یہ ہم جانتے تھے، اس بات کو۔ اور کہنے لگی، میرے پیارے بچے!یہ اسی طرح سے تھا کل کو تم رونے لگ جائو گے کہ جو جنٹل مین کیڈٹ ہوتا ہے، اس کی کاکول میں کتنی سخت ٹریننگ ہوتی ہے۔ صبح سردیوں میں چار بجے اٹھا دیتے ہیں، اس کو پھر پانی میں

غوطہ لگواتے ہیں، پھر خاردار تار میں اس کا بدن چھلتا ہے، پھر اس کو کہتے ہیں کراس کنٹری ریس لگائو۔ وہ بے چارا کراس کنٹری لگاتا ہے۔ میں صدقے جائوں پھر آکے اس کو ناشتا ملتا ہے۔ کتنی بری بات ہے لیکن ہرگز بری بات نہیں۔ اس کو تو کارگل کے اوپر Faceکرنا ہے دشمن کو، وہ تو وہاں کھڑا

ہے ایسی برفوںمیںجہاں اور کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا۔اس طرح عورت جوتھی وہ ایک طاقتور Phenomenonتھی اور اس کو مضبوط ہونا تھا، اور اُس کی مضبوطی دشمنی کی بات نہیں ہے۔ یہ جھاکا جو ولایت والے دیتے ہیں جھوٹ کہتے ہیں۔ ہماری تو عورت بہت عزت دار ہے، اس سے بڑی محبت ہے، اتنی محبت ہے کہ دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں ہر ایک شے کے پیچھے، ہر گاڑی پر ماں کی دعا لکھا ہے۔ کبھی کسی نے باپ کی دعا نہیں لکھا ہوتا ہے۔ باپ سے نہیں۔ ہم محبت کرتے ہیں ماں سے۔عورتیں پیاری ہوتی ہیں خیر۔ یہ ایک بات دوسری طرف چلی گئی۔ ورنہ ہم تو تعریف

کی دیکھا دیکھی اپنی بچیوں کو بھی بُرا کہنے لگے ہیں۔ وہاں بھی برابری کے نعرے لگانے لگے ہیں۔
مورلک کہنے لگا یہ ٹوسٹر کی زندگی جو ہے یہ کامیاب آدمی پیدا کرتی ہے، اور سینک لگنے کی ضرورت ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے اندر جو رویہ ہے وہ بڑا گڈی گڈی بڑا لیے دیے رہنے کا انداز ہے۔ ہاتھ ملتے رہتے ہیں آپ ہر وقت ڈٹ کر اپنے آپ کو نہیں بتا سکتے کہ آپ پاکستانی ہیں،اور آپ کا، ایک فخر ہے، جیسا کیسا بھی فخر ہے۔ تو میں نے کہا، بھئی ہمارا کیا فخر ہے ہم توبالکل شرمندہ ہیں۔ مثلاً ہم میں کیا خوبی ہے۔اس نے کہا کہ دنیا کی واحد قوم ہے جو بڑی مہمان نواز ہے۔ ٹھیک ہے، ہم غریب ہیں،ہم چھوڑ رہے ہیں اپنی روایات۔ لیکن آپ سیالکوٹ میں جائیں

کہیں گے جی کھانا کھاکے جائیں۔ ہمارے امریکا میں یہ نہیں ہے، ہالینڈ میں یہ نہیں ہے، آپ اس پر فخر نہیں کرسکتے؟ میں نے کہا، نہیں ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں، اور ہم فخر نہیں کرسکتے۔ اس نے کہا،پھر اپنے آپ کو تھوڑا سا ٹوسٹر میں رکھا کرو۔سینک لو، پھر فخر کی بات کرو۔ میں نے کہا،یہ یارتم عجیب سی بات کرتے ہو۔

 ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1311