donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Miscellaneous Articles -->> Mutafarrik Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Tareekh Ki Malkiyat Aur Dafaa


تاریخ  کی ملکیت اور دفاع


کے اشرف


تاریخ  کیا ہے ؟ واقعات کے تسلسل کا ریکارڈ  جن پر اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے علاقوں میں طاقت ور افراد اور اقوام  اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ہم سب تاریخ کی پیداوار ہیں اور تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے بیشتر مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم تاریخ  کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ تاریخ کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہی ہم پر اُس کے دفاع کی بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کی پیدا وار ہونے کے باوجود کیا انسان کو تاریخ کی ملکیت کا دعویٰ کرنا چاہئے؟ اور اگر وہ ایسا کر لیں تو کیا اُنہیں تاریخ کا دفاع کرنا چاہئے؟
میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں بحثیت انسان تاریخ کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اُس کا دفاع کرنے میں ہلکان ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنی تاریخ  کی ملکیت کے حق سے دست بردار ہو جائیں اور پھر اُس کے دفاع کے فریضے سے خود کو الگ کرلیں  تو  نہ صرف ہمارے بہت سے عقلی و فکری  مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ ہم اپنے مستقبل کی بہتر تشکیل کر سکتے ہیں۔
اس بات کی وضاحت کے لئے مجھے  انسانوں کی اجتماعی زندگی میں تاریخ کے چند اُن عوامل کا ذکر کرنا ہے جن کے ذریعے انسان تاریخ کے قیدی بن  جاتے ہیں اور پھر اُن کے لئے تاریخ سے الگ ہو کر سوچنا اور عمل کرنا تقریباً  ناممکن ہو جاتا ہے۔  یہ کام انسانوں کے اُن گروہوں کے لئے اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جن کی تاریخ کے دھارے ایک سے زیا دہ تاریخوں سے جُڑے ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر برصغیر کے  مسلمانوں کےلئے  اپنی تاریخی شناخت  عرصہ دراز سے ایک بہت بڑا مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمان دانشور اب بھی اس بحث میں اُلجھے ہیں کہ اُن کی شناخت ہندوستان سے جُڑی ہے یا اسلامی مشرق وسطی ٰ سے۔
اِ س تفصیل میں جائے بغیر کہ تاریخی شناخت قائم کرنے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوستان کی طرف دیکھنا چاہئے یا اسلامی مشرق  وسطیٰ کی طرف یا ثقافتی طورپر ہندوستان کی طرف اور فکری طور پر اسلامی مشرق وسطیٰ کی طرف۔  میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ بھی دراصل تاریخ  کی ملکیت کے دعوے سے جُڑا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے حق ملکیت سے دست بردار ہو جائیں تو پھر نہ صرف شناخت کا مسئلہ غائب ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں اُس کے دفاع فریضے سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
شناخت کے حوالے سے تاریخ  کی ملکیت میں کم پیچیدگیاں ہیں لیکن جب تاریخ کی ملکیت سیاست اور مذہب کے دائروں میں داخل ہوتی ہے انسانوں کے لئے تاریخی پیچیدگیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں جن سے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات تاریخ  کی ملکیت  کے استحقاق سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ کروڑوں انسان نسل در نسل قتل و غارت کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اِس حوالے سے تاریخ  کی مذہبی ملکیت انسانوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس سے بھی بدتر صورت ِحال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب تاریخ مذہب بن جائے  یا مذہب تاریخ  میں تبدیل ہو جائے۔ اس صورت میں تاریخ سے مکمل   دست برداری اور بھی ضروری ہو جاتی ہے۔
اِن سب معروضات سے غرض یہ نہیں کہ ہم تاریخ کا مطالعہ چھوڑ دیں۔ تاریخ کا مطالعہ ضرور ہونا چاہئےلیکن تاریخ کی ملکیت  یا دفاع کے لئے نہیں۔ کیونکہ جیسے ہی ہم تاریخ کی ملکیت یا دفاع  کا فریضہ سنھبالتے ہیں ہم تاریخ کے ہاتھوں میں انفرادی اور اجتماعی طور ہتھیار بن جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
تاریخ ہمارے ذریعے اپنے مردہ مگر مکروہ مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرتی ہے۔  اور وہ مقاصد دراصل ان بااثر شخصیات کے مقاصد ہوتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے مختلف لمحات میں اپنے مقاصد کے لئے اپنے اثرورسوخ کو تاریخ کے بہاؤ پر اثر اندوز ہونے کے لئے استعمال کیا ہوتا ہے۔
یہ بااثر شخصیات زندگی کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہیں۔ اِن میں پیغمبران اکرام، بادشاہ، فلسفی ، سیاست دان ، شاعر، ادیب ، سماجی راہنما  اور مذہبی رہنما سبھی شامل ہیں۔
کسی بھی صحت مند سماج کو تاریخ کی ملکیت سے آزاد  رہنا چاہئے کیونکہ اُس کی صحت کا دارو مدار تاریخ کو اپنے  معاملات پر اثر انداز ہونے سے روکنے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کی مسلسل افزائش اکثر تاریخ کے تقاضوں سے متصادم ہوتی ہے۔ ہمیشہ آگے بڑھتا علم انسان سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ تاریخ کے مجبوریوں سے دست بردار ہو اور اپنے لئے نئے علم کی روشنی میں نئی راہیں تراشے۔  جو سماج علم کے اِن تقاضوں کے مدِ نظر  اپنے لئے جتنی آسانی سے نئی راہیں تراشنے کا ہنرجانتے ہیں اوراس عمل کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اُن پر ترقی کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
یہ سب جاننے کے بعد اگر ہم اسلامی معاشروں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں  اور دوسرے معاشروں سے اُن کا تقابلی مطالعہ کر یں تو  یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ  مسلمان معاشرے مکمل طور پر تاریخ کی گرفت میں ہیں ۔  مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر نہ صرف تاریخ  پر ملکیت کا حق بڑی شدت سے جتاتے ہیں بلکہ اِس کے دفاع کے لئے لڑنے مرنے کو اولیں فریضہ سمجھتے ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ کافی حد تک مذہب میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک طرف   اُن کا مذہبی شعور اُن کے تاریخی شعور  کاحصہ ہے تو دوسری طرف اُن کا تاریخی شعور مکمل  طور پر مذہب میں پیوست ہے۔ وہ تاریخ اور مذہب کو ایک دوسرے سے جدا دیکھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ اِس طرح ماضی کی بااثر شخصیات اب بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے اُن کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ جس سے اُن کی سماجی اور اجتماعی  زندگیوں میں اتنی اُلجھنیں پیدا ہو چکی ہیں کہ اُن سے نکلنے کے لئے اُن کو کوئی راستہ نہیں سوجھتا۔
اگر مسلمانوں کواِن الجھنوں سے نکلنا ہے تو اُنہیں مذہب اور تاریخ کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہوگا۔ تاریخ پر اپنا حق ملکیت ختم کرنا ہوگا اور اس کے دفاع سے مکمل دست برداری اختیار کرنی ہوگی۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ ہمیشہ زندگی میں عضوئے معطل بنے رہیں گےا ور اُن کی اجتماعی الجھنیں اور مسائل ہمیشہ اُن کا پیچھا کرتے رہیں گے۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 941