donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Miscellaneous Articles -->> Mutafarrik Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Zameen Se Jurhi Hui Sonchey

زمین سے جُڑی ہوئی سوچیں


کے اشرف


کسی ثقافت اور تہذیب کی بنت جن سوچوں کے تار پود سے ہوتی ہے وہی  اُس کی دخلی اور خارجی توانائیوں کی جہتیں اور  رخ  متعین کرتی ہیں۔
ماضی میں کیا تھا  ۔کونسی ثقافت پدرم سلطان بودکا مثالی نمونہ تھی اِس بحث میں اُلجھے بغیر ہم یہ  پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں میں عروج کی جن منزلوں کو مغربی تہذیب نے سر کیا ہےاُس کی انسانی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔یہاں بات کو مختصر رکھنے کے لئے ہم  مغربی تہذیب کے اُن کارناموں اورمعجزوں  کا ذکر نہیں کریں گے جن سے زندگی کے ہر شعبے میں آج دنیا بھر کے انسان مستفیدہو رہے ہیں اور جن کا  بہترین عملی نمونہ خود مغربی ممالک  اور مغربی  سماج ہیں۔بلکہ بحث کا  فوکس قائم رکھنے کے لئے ہم اُن فکری جہتوں کا ذکر کریں گے جن کے تارپود سے مغربی تہذیب  کی بنت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مغربی تہذیب  نے وہ  عظیم معجزے سر انجام دئیے ہیں جن سےآج پوری دنیا کے انسان مستفید ہو رہے ہیں۔
ہمارے عظیم فلسفی، شاعر اور نقاد نے اس تہذیب کو برق و بخارات پر قائم تہذیب ہونے کی وجہ سے فیضان سماوی سے یک بینی 


و دو گوش خارج کرکے اس کی خود کشی کی پیشین گوئی کی تھی لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ  آج برق و بخارات پر قائم یہ تہذیب ہی  علم کے ہر شعبے میں دنیا کی رہنمائی کر رہی ہے۔ جو غیر مغربی سماج فکری طور پر جتنے مغربی تہذیب سے فیضیاب ہو رہے ہیں وہاں انسانوں میں زندگی کا تحرک اتنا زیادہ  ہے جب کہ فکری طور پر مغرب سے کٹے ہوئے معاشرے رفتہ رفتہ اندرونی انحطاط سے ٹوٹ پھوٹ کا  مسلسل شکار  ہیں۔ اس انحطاط  کا خاص طور پر وہ اقوام یا سماج شکار ہیں  جن کا سارا فوکس فیضان ِسماوی پر مرکوز ہے۔


مغربی تہذیبی منطقے سے باہر اگر اُن اقوام پر نظر دوڑائی جائے  جہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل  پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن میں سر فہرست مسلمان ممالک ہیں۔اُن ممالک کے دانشوروں کی فکری ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ وہ مغربی تہذیب کی توانائیوں کے اسباب و علل کی دیانت دارانہ تفہیم کی بجائے اپنے اُن عوام کو مسلسل مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں کی داستانیں سناتے رہتے ہیں جن کی زندگیوں  میں آخری رمق مغربی تہذیب کے علمی چشموں کے فیض سے  ابھی تک موجود ہے۔ ورنہ
ایڑھیاں رگڑتے ہوئے ان کے سماج کب سے فنا کی  آخری منزل تک پہنچ چکے ہیں۔


مغربی تہذیبی منطقے سے باہر جو اقوام  مغربی علمی سرچشموں سے جڑی ہیں اُن کی صورتِ حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔اُن اقوام  میں   جنوبی کوریا، جاپان، ہندوستان اور چین سر فہرست ہیں۔ان اقوام نے  ایک خاص تدبر اور حکمت عملی سے خود کو مغربی  تہذیبی و تعلیمی سرچشموں کے ساتھ پہلے جوڑا اور پھر اُن سر چشموں کو مقامیت  میں ڈھالنے  کی سر توڑ کوششیں کیں ۔ اُن کی اِس حکمت ِعملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی تہذیبی منطقے سے باہر واقع یہ اقوام  بڑی تیزی کے ساتھ وہ مراحل طے کر رہی ہیں جو بذات خود مغربی تہذیب کو طے کرتےکئی صدیاں لگیں۔


اِس  مختصر تمہید کے بعد ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ زمین سے جُڑی ہوئی سوچوں کی طرف۔  ہیگل اور مارکس کے جدلیاتی  فلسفے میں فرق کے بارے میں بتاتے ہوئے شاید اینگلز نے لکھا تھا کہ ہیگل کا  جدلیاتی فلسفہ سر پر کھڑا تھا جسے کارل مارکس نے پیروں پر کھڑا کر دیا۔
تاریخ میں ایک    وقت  تھا جب مغربی تہذیب  بھی  طویل عرصے تک  فیضانِ سماوی  سے نہ صرف مکمل طور پرفیضیاب تھی بلکہ اِس کے سارے امور کا دارو مدار بھی ہماری طرح  فیضان ِسماوی پر تھا۔  ہماری طرح  اُن کے سب کام بھی مکمل مذہبی جوش و خروش کے ساتھ سرانجام پاتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ مغربی تہذیب نے اپنا  علمی رُخ  فیضان ِسماوی سے فیضان ِزمینی کی طرف موڑ لیا۔


یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو ا تھا۔یہ رُخ موڑتے ہوئے مغربی تہذیب کے بہت سے سوچنے سمجھنے والے  بیٹوں کو بہت سی قربانیاں دینا پڑیں۔ کچھ زندہ جلائے گئے، کچھ  تہہِ تیغ ہوئے، کچھ نے قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں، کچھ نے ہجرتوں کی 
تکالیف برداشت کیں تب جا کر کہیں  مغربی تہذیب  کی سوچوں کا رشتہ آسمان سے ٹوٹ کر زمین  کے ساتھ استوار ہوا۔


گویا جو تہذیب ہیگل کے  جدلیاتی فلسفے کی طرح  اب تک اپنے سر پر کھڑی تھی   اب اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔مغربی تہذیب کا علمی  رشتہ ایک بار آسمان سے ٹوٹ کر زمین سے کیا جُڑا اُن پر زمینی ترقیوں کے ایسے دروازے کھلے کہ آسمان اُن کی جولاں گاہ بن گیا۔کئی نئے علوم نے جنم لیا۔ سوچنے کے انداز بدلے۔ زمانے کا رنگ اور ساز بدلے ۔ یورپ کی تاریک گلیاں نئی فکر کی چمک دمک سے روشن ہو گئیں۔ یورپی تہذیب پوری دنیا پر قابض ہو گئی ۔ فطرت نے اب تک جو راز اربوں سال سے اپنے عمیق سینے میں چھپا رکھے تھے ایک ایک کرکے یورپی محققین پر کھلتے گئے۔ فطرت نے اپنی قوتوں کی باگ ڈور مغربی تہذیب کے علمبرداروں کے ہاتھ میں تھما دی۔ یہ معجزہ صرف سوچوں کا محور آسمان سے توڑ کر زمین سے قائم کرنے کی وجہ سے ہوا۔


اِس تمہید اور تفصیل کے بعد ہم اپنے دانشوروں سے صرف یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں  کہ از راہ ِ کرم اپنی تہذیب اور قوم کواُن چنگلوں سے نجات دلائیں  جو مُصر ہیں کہ وہ اپنی تہذیب اور قوم کا رشتہ ہر قیمت پر آسمان سے جوڑے رہیں گے اور  اسے کسی صورت میں  زمین سے استوار نہیں ہونے دیں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ  ایسا کرنے سے اُن بدہیت عفریتوں  کوپینے کے لئے انسانی خون ضرور ملتا رہے گا لیکن اِس کا عملی
نتیجہ ہماری تباہی و بربادی کی شکل میں ابھی سے  ہمارے سامنے ہے۔


ہر وقت فیضان ِسماوی  کے چکر میں  اُلجھی تہذیبوں اور اقوام  کے افراد کو زمین میں قبریں تو ضرور مل جاتی ہیں لیکن اِس سے زیادہ اُنہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔


کیا ہماری تاریخ میں ابھی وہ وقت نہیں  آیا کہ ہم اپنی سوچوں کا محورو مرکز  اس زمیں کو بنائیں جس پر ہم فیضانِ سماوی کے چکر میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح کئی صدیوں سے رینگ رہے ہیں۔ جس طرح مغربی تہذیبی منطقے سے باہر آباد کچھ اقوام نے مغربی علمی سرچشموں سے حقیقی رشتہ جوڑ کو اِس زمین پر اپنی کامیابیوں کو مختصر عرصہ میں یقینی بنایا ہے کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟  یقناً کر سکتے ہیں لیکن  اس کے لئے بنیادی شرط یہی ہے کہ ہم اپنی سوچوں کا رخ آسمان کی طرف سے زمین کی طرف موڑ دیں۔ اپنی سوچوں کا محور و مرکز اس زمین کو بنائیں۔ اپنی سوچوں کو اس زمین سے جوڑیں۔  ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم ایسا کرسکیں توآسمانوں  کے راستے ہمارے لئے خود بخود کھلتے جائیں گے۔

******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1485