donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aleem Khan Falki
Title :
   Mazahiya Adab Ke Kamal Ata Turk Dr.Mustafa Kamal


 

 بیچلر کوارٹرز کے جانباز بیچلر
 
مزاحیہ ادب کے کمال اتاترک ڈاکٹرمصطفی کمال 
 
علیم خان فلکی ۔ جدہ
 
میں جدہ کی ان تمام تنظیموں کو مبارکباد پیش کرتاہوں جن میں خاکِ طیبہ ٹرسٹ، اردو اکیڈیمی جدہ، بزمِ عثمانیہ، زندہ دلانِ جدہ، ٹوئین سیٹیز ویلفیر اسوسی ایشن، اے پی این آر آئز ، اردو گلبن اور ساز اور آواز شامل ہیں یہ تمام تنطیمیں یونائٹیڈ اے پی فورم کے تحت ایک پلیت فارم سے کام کررہی ہیں۔ ان تمام نے اہل جدہ کے اعلٰی ادبی ذوق کا ثبوت دیتے ہوئے آج ایک ایسی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اہتمام کیا جو ہندوستان اور پاکستان کیلئے کم از کم طنزومزاح کا ایک تاریخی حوالہ ہیں۔تنِ تنہا ایک دو سال نہیں ، پانچ دس یا پندرہ سال نہیں بلکہ پورے چوالیس سال سے شگوفہ اور زندہ دلان حیدرآباد کے روح رواں رہے ہیں،وہ شخصیت ہے ڈاکٹر مصطفی کمال کی۔ 
بے شمارطنزیہ و مزاحیہ ادبی رسائل منظر عام پر آئے لیکن حالات کا مقابلہ نہ کرسکے اور دم توڑ گئے ۔ صرف لکھنؤ سے نکلنے والا ’’اودھ پنچ ‘‘ ہی ایک ایسا مزاحیہ ادب کا رسالہ تھا ۔یہ رسالہ لکھنؤ سے ۱۸۷۷ سے ۱۹۱۲ ء تک مسلسل ۳۶ سال شائع ہوتا رہا۔ میں مبارکبا دپیش کرتاہوں جناب مصطفی کمال صاحب کو بھی کہ جتنی تعداد میں لوگ آج آپ کو تہنیت پیش کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں اتنے تو صرف تعزیتی جلسوں میں ہی آتے ہیں اور آج جوبھی آپ کے فن اورشخصیت کے بارے میں کہا گیا ہے،اتنی قدردانی بھی عام طور پر کسی کو جیتے جی کم ہی نصیب ہوتی ہے۔میں اللہ تعالیٰ کاشکرادا کرتاہوں کہ’’ تعز من تشاء و تذل من تشاء ‘‘ اور آپ کی عمراور صحت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہوں۔ اِن کی ہمت ،مستقل مزاجی،ایمانداری،بے لوثی اورشعورپریہ شعر راسخ آتاہے کہ 
محتاج کب رہے ہیں کسی آئینے کے ہم
(پتھربھی مل گیاہے ہمیں تو سنور لئے ( انجم رہبر
مصطفی کمال اُن لوگوں میں نہیں جو حالات کے سنورنے کے محتاج ہوتے ہیں بلکہ اُن دادِ شجاعت حاصل کرنے والوں میں سے ہیں جو حالات سے بے نیاز ہوکر اپنے مقصد کی طرف گامزن رہنے ہی کو منزل سمجھتے ہیں۔ 
 
ادبی تاریخ یہ فراموش نہیں کر سکتی کہ بیچلر کوارٹرز سے اپنا سفر شروع کرنے والاآج بھی اگر چہ وہ بیچلر نہیں رہا بلکہ نانابن چکا لیکن بیچلرزسے بھی کہیں زیادہ مستعدی اورلگن سے اردو کا علم اُٹھائے کھڑاہے۔بے شمار ساتھی کچھ دور ساتھ چلے اور کچھ ہیں جوآج بھی گاہے گاہے ساتھ چلتے ہیں۔ کرشن چندر، کنہیالال کپور، یوسف ناظم، بھارت چند کھنّہ، مجتبیٰ حسین، نریندر لوتھر، فکر تونسوی، رشید قریشی، برق آشیانوی، مسیح انجم، خواجہ عبدالغفور، زینت ساجدہ، احسن علی مرزا، عوض سعید، نعیم زبیری، برہان حسین ، دلیپ سنگھ، جیلانی بانو، مضطر مجاز، گلی نلگنڈوی، سلیمان خطیب، علی صائب میاں، پرویز اللہ مہدی، رضا نقوی واہی، ڈاکٹر ظفر کمالی، عمران اعظمی، ڈاکٹر حبیب ضیا، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، طالب خوندمیری، عابد معز، فیاض فیضی، مصطفی علی بیگ، حمایت اللہ، ڈاکٹر عبدالستار دلوی، پروفیسر آفاق احمد، ممتاز مہدی ، اقبال شانہ اور ایسے کئی نام ہیں جو میرے حافظے میں نہیں لیکن شگوفہ کے کاروان میں شامل رہے اور میرِکاروان مصطفی کمال نے ان کی تخلیقات کو عوام تک پہنچانے میں اہم رول اداکیا۔اور ان میں ایسے بھی نام ہیں جنہیں نمایاں مقام دلانے میں مدیر شگوفہ کی مساعی کو خاص دخل ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا کوئی بڑا ادیب و مزاح نگارایسا نہیں ہے جس نے مصطفی کمال صاحب کی خدمات کااعتراف نہ کیاہو۔ خامہ بگوش، عطاء الحق قاسمی،ضمیر جعفری،دلاور فگار،مشتاق احمدیوسفی، انور سدید، منشا یاد، ڈاکٹر معین قریشی، پروفیسر عنایت علی خان، شجاع الدین غوری، نسیم سحر،خالد عرفان، عاصی اختر، سرفراز شاہد، انور مسعود اور شوکت جمال جیسے نامور قلمکارانِ پاکستان نے خطوط اور اپنی خصوصی تخلیقات کے ذریعے شگوفہ کو رونق بخشی اور ثابت کیا کہ ادب میں قومیت یا جغرافیائی حدوں کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ 
 
مصطفی کمال صاحب کاسفر سترہ سال کی عمر میں ایک فری لانس صحافی کے طور پر ۱۹۵۷ء میں بیچلرز کوارٹرز میں بھارت نیوز کے دفتر سے شروع ہوا ۔ اعزازی اور آزاد صحافی کی حیثیت سے انہیں بہت جلد اردو حلقوں میں شہرت حاصل ہوگئی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سقو طِ حیدرآباد کی دہشت ناک یادیں تازہ تھیں۔مجلس اتحاد المسلمین کاتازہ تازہ احیا ہوا تھالوگوں کے دلوں میں خوف کا یہ عالم تھا کہ مجلس سے تعلق رکھنا گویا کسی ممنوعہ تنظیم سے وابستگی کا اعلان کرنا تھا۔ حکومت پوری پوری کوشش کر رہی تھی کہ مسلمانوں میں پھر سے کوئی قیادت نہ اُبھرے لیکن مرحوم عبدالواحد اویسی ایک نیاعزم اورحوصلہ لے کر اُٹھے۔مصطفی کمال صاحب بِلا خوفِ انجام نہ صرف مجلس کے رکن بنے بلکہ دبیر پورہ اور باغ لشکر جنگ کے علاقوں میں رکنیت سازی کی مہم بھی چلائی۔ اسی دور میں صدر تنظیم کو گرفتار کرلیا گیا اور مجلس کے جلسوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ مصطفی کمال صاحب نے کرائم رپورٹنگ کے روابط کا فائدہ اُٹھایااور دبیر پورہ میں ایک تاریخی جلسہ منعقد کروایا۔ یہ ان اولین جلسوں میں سے ایک تھا جس کو جناب سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم نے مجلس کے نوجوان قائد کے طور پر مخاطب کیاتھا۔اس دور میں خبروں کی اشاعت کے معاملے میں اخبارات کے محتاط رویّے کے باوجود مصطفی کمال صاحب نے مجلس کی خبریں شائع کروانے میں حصّہ لیا۔ 
 
کمال صاحب مزاجاََ ایک انتہائی غیر سیاسی انسان رہے ہیں ورنہ آج ان کی کئی عمارتیں اور کاروبار ہوتے۔طالبِ علمی کے دور سے ان کی تمام تر توجہات اردو کی بقا پر مرکوزتھیں ۔کیونکہ۱۹۴۸ء کے بعد ریاست حیدرآباد کے دفاتر، مجالس مقامی اور تعلیم کے میدان سے مسلم کلچر اور اردو زبان کے خاتمے کی منظم کوششیں جاری تھیں۔ مصطفی کمال رفتہ رفتہ اس دستے میں شامل ہوتے گئے جو نہتا اور بے سروسامان ہونے کے باوجود محض ہمتِ مردانہ کے بل بوتے آگے بڑھ رہا تھا،جس کا بیچلرکوارٹرز دارالخلافہ تھا۔ بلڈنگ کے کئی کمروں میں کوئی نہ کوئی تحریک برپا تھی اور مصطفی کمال کا ان تحریکوں سے گہرا تعلق تھا۔کمرہ نمبر ۲۷ زندہ دلان اور فائن آرٹس اکیڈیمی کا گڑھ تھا ،کمرہ نمبر۱۸ اور ۱۹ حیدرآباد ایجوکشنل کانفرنس کامرکز تھا اور کمرہ نمبر ۱۷ سلیمان اریب کے ماہانہ رسالے ’’صبا‘‘ اور بھارت نیوز کادفتر اور ترقی پسندوں کا اڈہ تھا۔مزدوروں اور سرکاری ملازمین کی انجمنیں بھی اسی عمارت سے کام کررہی تھیں۔ مصطفی کمال صاحب نے ایک کمرہ نمبر ۳۱ ، شگوفہ کی پرورش کے لئے حاصل کرلیا۔ مصطفی کمال نے اپنے آپ کو کبھی کسی ترقی پسندیا غیر ترقی پسند گروہ یا کسی مسلک سے عملاً وابستہ نہیں کیا ۔ اگر ہوئے بھی تو سوائے اردو کی بقا کے مقصد کے کسی اور مشغلے میں داخل نہیں ہوئے۔ ادب برائے ادب کے علمبرداررہے۔ زندگی برائے ادب کا نمونہ بنے رہے ۔ ان کی مقبولیت کی ایک وجہ شائدیہ بھی رہی ہوکہ یہ کرنٹ افیرزپربغیرکرنٹ کے گفتگوکرکے بات منوالیتے ہیں،اچھاہوایہ وکیل نہ بنے ورنہ اتنے ٹھنڈے لہجے میں ہر مقدمہ ہارجاتے لیکن دل جیتنا مقدمہ جیتنے سے کہیں زیادہ اہم فن ہے جس میں انہوں نے ہمیشہ لوہا منوایا ۔شگوفہ اور زندہ دلان کے حوالے سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مزاحیہ شخصیت ہیں لیکن اہل مزاح اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتنے سنجیدہ ہیں۔ اردو کے لئے انتہائی سنجیدگی سے کئی جنگیں لڑتے رہے۔ ۱۹۶۰ء بین کلیاتی بزم اردو تشکیل دی۔ جس کے وہ صدر تھے، اور جامعہ عثمانیہ کے علاوہ ریاست کے اردو تعلیمی مسائل کے حل کیلئے کام کرتے رہے۔ ۱۹۶۴ء میں مجلّہ عثمانیہ کا یادگار دکنی ادب نمبر شائع کیا۔ ۱۹۶۱ء ہی سے انجمن تحفظ اردو آندھرا پردیش کا ساتھ دیا جس کے سربراہ چندر سری واستو اور یم باگا ریڈی تھے۔اس وقت کا وزیر تعلیم نرسمہا راو تھا جو اردو کا مخالف تھا۔ وہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ پانے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہا۔مصطفی کمال بھلا کہاں چپ بیٹھتے ۔انجمن ترقی اردو ہند اور تحفظ اردو کے ہمراہ ڈٹ گئے۔۱۹۶۶ ء میں طنز و مزاح نگاروں کی پہلی کانفرنس منعقدکرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ یہیں سے مجتبی حسین سے واقفیت دوستی میں بدل گئی۔ کئی اہم مشاعرے منعقدکروائے جس کے ذریعے حیدرآباد کا طنز ومزاح منظرِ عام پرآیااور کئی شعرا کو ملک اور بیرون ملک میں بلوایاجانے لگا۔۱۹۶۸ء زندہ دلان حیدرآباد کی مطبوعات کا سلسلہ شروع کیا۔ رضا نقوی واہی اور سلیمان خطیب کے مجموعے شائع کروائے۔ یکم نومبر ۱۹۶۸ء کو شگوفہ وجود میں آیا۔ اردو کیلئے اتنی شدت سے بر سرِ پیکار رہے کہ ۶۷ ۱۹ء میں پی ایچ ڈی کا کام ادھورا چھوڑدیا ۔پھر ۱۹۸۴ میں دوبارہ متوجہ ہوئے اورعثمانیہ یونیورسٹی کواپنی قابلیت اور ذہانت کالوہاماننے کا اعزاز بخشا اور ڈاکٹر کہلائے۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا ’’ حیدرآباد میں اردو کی ترقی، تعلیمی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے ‘‘۔ ماہانہ شگوفہ جو دیڑہ ماہی تھا ۷۳ء سے ماہنامے میں تبدیل ہوا ۔
زندہ دلان یا شگوفہ کامطلب تھا مصطفی کمال۔جس کا مقصدِ کمال یا کمالِ مقصد صرف سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا اور اس پر الحمد للہ آج تک قائم ہیں۔ مصطفی کمال کا یہ کارنامہ بلکہ اردو پر احسانِ عظیم ہے کہ بے شمار نوآموز شاعروں اور ادیبوں کو شگوفہ میں جگہ دی۔ ان کی تخلیقات کے مجموعے شائع کروائے۔ خود اپنا کوئی مضمون ، یا غزل ، خاکہ یا سوانح حیات لکھ کر شائع نہیں کیا۔ لوگ مشہورہونے کیلئے محنت کرتے ہیں لیکن یہ مشہورنہ ہونے کیلئے بڑی محنت کرتے ہیں۔اگر یہ خوداپنی تخلیقات شائع کرتے رہتے تو ان کی کئی کتابیں ہوتیں اورشائدرائلٹی بھی ملتی اور کئی ملکوں کا سفر کرکے سفر نامے لکھ رہے ہوتے۔ لیکن نہ شگوفہ ہوتانہ زندہ دلان۔آدمی بہت خلیق اور بامروّت ہیں لیکن بحیثیت ایڈیٹر بڑے ظالم ہیں۔کسی مضمون پرجب قینچی چلاتے ہیں تونہ کسی ادیب سے مروت برتتے ہیں نہ شاعرسے۔ اگر یہ مضامین کی اسی طرح سرجری نہ کرتے تو آج علیم خان فلکی اور دیگر کئی قلمکاروں کے قلم اتنے صحتمند نہ ہوتے۔ہمیشہ کہتے ہیں کہ مزاح لکھنا لوہے کے چنے چابناہے جوہرایک کے بس کی بات نہیں۔نریندر لوتھر کی تحریک پر ۱۹۸۵ء میں ورلڈہیومر کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ ایک ایسی تاریخی کانفرنس تھی جس کی نظیر اردو ادب کی دنیا میں شاید دوبارہ کوئی پیش نہ کرسکے۔اس کانفرنس کے انعقاد کا سارا بنیادی کام مصطفی کمال صاحب نے کمرہ نمبر ۳۱ سے انجام دیا۔ چودہ زبانوں میں متوازی سیشن منعقدکروائے گئے اور چودہ زبانوں کے شعرا و ادبا کو جمع کیا گیا۔ پاکستان سے شعرا و ادبا نے شرکت کی۔ 
 
کالج آف لینگویجس اور انوارلعلوم ویمنس کالج کے قیام میں بھی مصطفی کمال صاحب کا اہم رول رہا۔ مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی کا نصابی مواد نہایت مختصر مدت میں اردو میں تیارکرنا ایک ایسامشن تھا جس کو محض ڈگریوں کی بنیاد پرکوئی انجام نہیں دے سکتا تا وقتیکہ ہ اس میں اردو کیلئے دن رات ایک کردینے کا جذبہ نہ ہو۔ اس کام کیلئے مصطفی کمال صاحب سے زیادہ موزوں اور کوئی شخص نہیں تھا۔اردو یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں انہوں نے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ اور چھ سال کے عرصے میں دو سو کتابیں ترجمہ اور ایڈیٹنگ کرواکر شائع کیں ۔بانی و وائس چانسلرشمیم جئے راجپوری صاحب نے اس بات کاجدہ میں علیگڑہ اولڈ بوائز کے ایک جلسے میں بھی اعتراف کیا تھاجب وہ عمرہ پر تشریف لائے تھے۔ 
مصطفی کمال صاحب کی جہدِ مسلسل اور کار ہائے نمایاں کے ذکر کیلئے شائد ایک ضخیم کتاب بھی کافی نہ ہو۔ ایسے کئی لوگ تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا کہ سرکاری نوکری کے سہارے چار چار بیٹیوں کی پرورش اور ان کی شادیاں نہیں ہوسکتیں جوڑے کی رقم میں زندہ دلان کے مجلّے اور جہیز میں شگوفہ کے پرچے نہیں دیئے جاسکتے۔ اسلئے اوروں کی طرح تم بھی خلیج یاامریکہ نکل لو،لیکن اس مردِ مجاہد نے اردو سے بے وفائی گوارہ نہ کی اور ایرکنڈیشنڈ کاروں اور آفسوں میں بیٹھ کر ہزاروں کی کمائی پربیچلرز کوارٹرز کے ان تین فلور زپر چڑھنے اترنے کو ترجیح دی جن کی حالت بھی اردو کی طرح تھی۔ ہر فلور پر کچہرے کے ڈھیر اور پان کی پیکوں سے اٹی دیواریں جن پر ایک بار چڑ ھ کر ہماری سانسیں پھول جاتی ہیں لیکن یہ ستّرسالہ شخص آج بھی آرام سے بیچلرز کی طرح کئی بار چڑھتااترتارہتا ہے۔ان کی نذر انتظار نعیم کا یہ شعر کہ حوصلہ دیکھیئے ہر روز قیامت ہے یہاں ہم نے گھر چھوڑا ہے اپنا ، نہ وطن چھوڑا ہے 
آئیے اپنی دس بارہ سالہ رفاقت کے آئینے میں مصطفی کمال صاحب کی شخصیت اورمزاج کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی کم گوئی اور اختصارِ کلام ہی ان کی شخصیت میں پوشیدہ وہ مقنا طیسیت ہے جس کی وجہ سے ان سے بار بار ملنے ہر شخص کھنچا چلا آتاہے۔ قطع کلامی سے انہوں نے کبھی کسی کو زخمی نہیں کیا۔اپنے شعر یا جملے یا کارنامے گفتگو کے درمیان لائے بغیر کوئی آدمی اتنا بڑا ہو سکتا ہے، یہ ان سے ملنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھنے کے باوجود شگوفہ کی خانقاہ میں آکر اپنے اپنے ذاتی اور ادبی مسالک بھول جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں مضمون لکھنا مشکل کام ہے ،یہ غلط ہے ۔ دراصل مضمون پڑھنا ، مشکل نہیں بلکہ مشکل ترین کام ہے اور مصطفی کمال صاحب جس صبر و تحمل سے مضامین پڑھ کر ان کی اصلاح کرتے ہیں اور کئی ناکارہ مضامین کو خوبصورت بنا دیتے ہیں یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ کاش نوبل پرائز کی طرح کوئی صبر پرائز ہوتا جس کے اولین مستحق صرف یہ ہوتے۔
چپ ہوں تو مجسمہ تقریر کریں تو سننے والے مجسمہ۔ یہ مریضوں کی تشخیص کرنے والے ڈاکٹر نہیں بلکہ مزاجوں کی تشخیص کرنے والے دانا حکیم ہیں۔ کبھی گالی دینا نہ سیکھا اگر سیکھ جاتے تو پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ہو کر عیش کرتے ۔ اتنا چست اور چھریرا بدن رکھ کر بھی کبھی کھیل کود میں دلچسپی نہیں لی ۔ اردو کو اپنا ان ڈور گیم اور ادب کو آوٹ ڈور گیم بنالیا۔ جسامت بھی ہمیشہ ان کی فطرت اور مزاج کی طرح ایک رہی۔ خوشی میں موٹے نہیں ہوئے پریشانی میں دبلے نہیں ہوئے۔ اپنے ولیمہ کا سوٹ آج بھی کسی بھی ولیمے میںآسانی سے پہن لیتے ہیں۔ ہم نے جب بھی دیکھا انہیں محنت کرتے دیکھا۔ اسلئے جب کچھ نہ کر رہے ہوں تواس وقت بھی لگتا ہے محنت ہی کررہے ہیں ۔ِ ٓبھیھ لوگ کہتے ہیں ککہ ان ڈاکٹر مصطفی کمال دوستی اوردشمنی کیلئے ہمیشہ دل کھلا رکھتے ہیں لیکن پہل اپنی طرف سے نہیں کرتے ۔ پہلی ملاقات میں ان کے بارے میں اچھی رائے قائم ہو جاتی ہے جسے بدلنے کیلئے بعض لوگ بہت محنت کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ ڈاکٹر نہیں جن سے مل کر سیکنڈ اوپینین کی ضرورت پڑے۔ غریبوں اور مسکینوں کو شگوفہ مفت بھیجتے ہیں لیکن جن لوگوں کو مفت میں مل جاتا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں غریب اور مسکینوں میں شامل کرکے ان کا مذاق اڑارہے ہیں ،بس انہیں یاد دلارہے ہیں کہ ان کا تعلق اس باظرف انسان سے ہے جو کسی کی مدتِ خریداری ختم ہونے پر پیسوں کی یا د دہانی کرواکر شرمندہ نہیں کرتا بس ان کے ظرف کو آزماتا ہے۔ ۴۴ سال معمولی نہیں ہوتے یہ مستقل مزاجی اور حوصلے کی معراج ہے جوکہ یہ شگوفہ نکال رہے ہیں اور دوسرے کئی محاذوں پر جٹے ہوئے ہیں ۔ اتنے طویل عرصے میں تو ایڈیٹر حضرات کئی رسالے اور دفتر بدل چکے ہوتے ہیں لیکن یہ آج بھی ایک ہی رسالہ ایک دفتر اور ایک ہی بیوی پر قائم و دائم ہیں ۔سنا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہے۔ دونوں میاں بیوی اتنے شگوفہ مزاج ہیں کہ ان کے دیوان خانے کے پلاسٹک کے پھولوں سے بھی خوشبو آتی ہے۔ ان کے گھر جائیے چائے اور بسکٹ فوری آجائے گی تا کہ مہمان چائے کے انتظار کے بہانے ملاقات کو طول نہ دے۔ ہماری ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب سے آخر میں اتنی سی گزارش ہے کہ شگوفہ کو ۴۴ سال تک پالا پوسا اور بڑا کیا اب ا س کو گولڈن جوبلی کا شرف حاصل ہونے میں صرف اور صرف چھ سال رہ گئے ہیں پھر اس کی تاریخ بھی گولڈن حرفوں میں لکھی جائیگی۔ شگوفہ کو یوں تنِ تنہا نہ چھوڑیں اہلیان جدہ انشاللہ آ پ کے ساتھ تھے اور ساتھ رہیں گے۔ 
 
aleemfalki@yahoo.com  Jeddah
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 957