donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Azhar Mahmood Chowdhary
Title :
   Daure Hazir Me Shakhsiyat Ka Tasawwur

دورحاضر میں شخصیت کا تصور
 
ڈاکٹراظہرمحمود چودھری،پاکستان
 
Personality has been the theme of discussion for a long time It is something that we possess and can be labelled as good, bad, fine or poor, mostly basis of physical appearance, or make-up. However this is a very limited view. On the other hand the psyshological consept of personality goes farther and deeper than more appearance. thus the question of how to interpret or define personality has occupied the minds off psychologists for a long time and still continues to do so.
 
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں شخصیت کی اصطلاح عام استعمال کرتے ہیں۔ شخصیت کاتصور عام ہونے اور اس کے بارے میں جاننے کے باوجوداس کی صحیح نوعیت اورحقیقت کے بارے میں نہ صرف عام لوگوں میں بہت سے پرانے اور غلط تصورات پائے جاتے ہیںبلکہ اس سلسلے میں ماہرین میں بھی اختلاف پایاجاتاہے۔ شخصیت کوانگریزی زبان میں Personaltiyکہتے ہیں جولاطینی زبان کے لفظ Personaسے ماخذ ہے جس کے معنی ماسک یانقاب کے ہیں۔ اس دور میں اداکاروں کو ڈراموں میں ایک مخصوص قسم کا بہروپ دھارنے کیلئے نقاب پہنایاجاتاتھا تاکہ وہ نوعیت کے مطابق کردار میں حقیقی رنگ بھرسکیں۔ بعدازاں یہ لفظ شخصیت کے مترادف استعمال ہونے لگا۔
 
شخصیت کالفظ عام لوگوں اور تکنیکی لوگوں میں مختلف تصورات رکھتاہے۔ مختلف ماہرین نے اپنے اپنے دور میں شخصیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے۔عوام اس سے مرادآدمیت وانسانیت لیتے ہیں جب کہ ماہرین انسانیت، عمرانیات اور نفسیات نے اس کے مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔ انیسویں صدی کے ایک اطالوی ماہر علم انسانیت لوبروسو نے چہرے کے خدوخال اور جسم کی عمومی بناوٹ کی بنیاد پر شخصیت کی تشریح کرنے کی کوشش کی ۔اس نے سرکے سائز، آنکھوں کے درمیان فاصلے، ٹھوڑی کی شکل، بالوں اور آنکھوں کےرنگ کوبعض شخصی خصوصیات سے منسلک کیا۔ اگرچہ اس نظریےکی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔ پھر بھی لوگوں نے اس کی بنیادپر غلط مفرووضات قائم کررکھے ہیں۔ اب بھی بہت سے لوگوںکاخیال ہے کہ جن افرادکی آنکھیں چھوٹی اور باہم قریب ہوں وہ جرائم کی طرف طبعی میلان رکھتے ہیں۔ بڑے سرکو عقلمندی کی نشانی سمجھاجاتا ہے۔ دراصل اس نوعیت کے تمام عقاید اور خیالات موجودہ سائنسی دور میں غلط اور بے بنیادثابت ہوئے ہیں۔ کسی فرد کی شخصیت پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے متعلقہ فرد کا جسمانی حلیہ، قد،رنگ ،لباس اور چال ڈھال وغیرہ توجہ کامرکز بنتے ہیں۔اگر چہ یہ خصوصیات ایک فرد کے تصور شخصیت کااہم حصہ ہیں تاہم موجودہ دور میں ان کی حیثیت سطحی ہے۔ ابتدائی چند ماہرین کے نظریات بھی اس قسم کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک امریکی محقق ولیم ایچ شیلڈن،۱۹۷۷۔ ۱۸۹۸کے نزدیک فرد کے جسم کی ساخت کامشاہدہ کرکے پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ وہ کس قسم کی شخصیت کامالک ہے۔ شیلڈن نے جسم کوساخت کے اعتبار سے تین اقسام تقسیم کیا پہلی قسم بروں شکل یہ لوگ نازک اندام اور لمبے قد کے مالک ہوتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ڈرپوک، ضرورت سے زیادہ حساس اور فنکارانہ میلان رکھتے ہیں۔ دوسری قسم، بین شکل لوگوں کی ہے۔ یہ متناسب جسم کے مالک ہوتے ہیں یہ لوگ نڈر، مہم جواور پراعتماد ثابت ہوتے ہیں۔ تیسری قسم، اندرون شکل لوگوں کی ہے اس ساخت کے حامل لوگ موٹے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آرام پسند، ملنسار اور نیندکے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اسی سے ملتاجلتاایک نظریہ بہت پہلے کریشمر نے کیااس نے جسمانی ساخت کی بنیاد پر لوگوں کودوقسموں میں تقسیم کیا ۔پہلی قسم، نحیف اور ناتواں ،لوگوں کی بیان کی ہے۔ اس قسم میں دبلے پتلے اور لمبے قد کوشامل کیاگیا۔ کریشمر کے نزدیک اس جسمانی ساخت کے لوگ شرمیلے ، حساس تنہائی پسنداور خاموش طبع ہوتے ہیں۔ دوسری قسم، پستہ قد اورفربہ لوگوں کی بیان کی۔ چھوٹے قدکے موٹے لوگوں کوکریشمراس صنف میں شامل کرتے ہیں۔ اس صنف میں شامل لوگ عمومازندہ دل ،ہنس مکھ اور ملنسار ہوتے ہیں۔ تاہم بعد کی تحقیقات سے شیلڈن اور کریشمہ کے دعوئوں اور نظریات کی تصدیق نہ ہوسکی۔
 
شخصیت ایک نہایت پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کاتعین کرنے والے عوامل کااحاطہ کرناآسان نہیں۔ شخصیت کی نوعیت اور تشکیل کے عمل کودرست طور پر سمجھنے کیلئے بہت سے عوامل کوپیش نظررکھناپڑتاہے۔ شخصیت کے موضوع پرنفسیات میں بہت سارے نظریات پائے جاتے ہیںخاص طورپر جدید نظریات مثلاًتحلیل نفسی پر مبنی نظریات شخصیت فرائیڈ،یونگ ،ایڈلر آموزش پرمبنی نظریات سکنر، بندوارا انسانیت پسند نظریات راجرز میسلو، درخائم اوصاف پرمبنی نظریات شخصیت آلپورٹ، کیٹل ،آئزنک وغیرہ ۔فرائیڈ کے نزدیک شخصیت کے تین اجزاہیں۔ انہیں وہ لاذات، انااور فوق انا کانام دیتاہے۔ فرائیڈکے نزدیک بعض اوقات یہ تینوں نظام آپس میں تعاون کرتے ہیں لیکن اکثر ان میں تصادم رہتاہے۔ اسی تصادم اور تعاون کے نتیجے میں فرد میںشخصی اوصاف پیداہوتے ہیں۔ لاذات میں غیرمنطقی خیالات پائے جاتے ہیں۔ لاذات حیوانی خواہشات کوابھارتاہے۔ انسانی حدوداور معاشرتی معیارکی پابندی نہیں کرتا، اسی لئے اسے انسانیت کے درجے سے گرادیتی ہے جب کہ انا، فرد کی خودی اور ذات ہے۔ یہ شخصیت میں فہم کے ذریعے توازن قائم کرتی ہے۔ یہ تہذیب وتمدن، معاشرتی اقدار، مذہب اور دیگر اخلاقی اقدار کی پابندی کرتی ہے۔ انا شخصیت کی منتظم ہے کیونکہ ہر فرد کے کردار کوکنٹرول کرتی ہے۔ فوق انا شخصیت کے اخلاقی اور اصلاحی پہلوکانام ہے۔ یہ حقیقت کی بجائے مثالیت پسندہے۔ فرائیڈکے نزدیک شخصیت کی نشوونماابتدائی پانچ چھ سال میں مکمل ہوجاتی ہے جب کہ ماہر نفسیات یونگ کے نزدیک شخصیت کی نشودنماتمام عمر جاری رہتی ہے۔ یونگ کے نزدیک شخصیت دروں بینی اور بیرون بینی کے جملہ اوصاف کے مجموعے کانام ہے۔ دروں بین شخصیت کے مالک لوگ کم گو، تنہائی پسند اور غوروفکر میں مصروف نظرآتے ہیں۔ ان کی دلچسپی کامر کز اپنی ذات ہوتی ہے جب کہ برون بین شخصیت کے مالک لوگوں کی دلچسپی کامرکز اپنی ذات کی بجائے اردگردکے لوگ ہوتے ہیں۔ تاہم کوئی فرد بھی مکمل طورپر دروں بین یابروں بین نہیں ہوتابلکہ ہرفرد میں یہ دونوں خصوصیات موجودہوتی ہیں۔البتہ ایک خصوصیت غالب ہوتی ہے۔
 
ایڈلر نے اپنے نظریہ شخصیت میں معاشرتی عوامل کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ اس کے نزدیک معاشرتی محرکات شخصیت کی تشکیل پر اثراندازہوتے ہیں۔ ہرفرد میں ایک فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی حیثیت تسلیم کرائے۔ اپنی اس خواہش کوپورا کرنے کیلئے معاشرتی، مذہبی ، اخلاقی اور قانونی اقدار کے تقاضوں کے مطابق اپنے جذبات وایثارکی قربانی دے کر اور معاشرتی فلاح وبہبودکوسامنے رکھ کراپنی اعلیٰ شخصیت تسلیم کراناچاہتاہے۔
 
کرداریت پسندمکتبہ فکر کاخیال ہے کہ فرد کی شخصیت بنیادی طورپر آموزش کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے ۔ان کے خیال میں فرد کی شخصیت ان اعمال اور عادات کے مجموعے کانام ہے جوروزمرہ زندگی کے تجربات اورتعلیم وتربیت کے ذریعے سیکھتا ہے اور یہ آموزش تشریط کے عمل کے ذریعے واقع ہوتی ہے۔ شخصیت کم وبیش ان مستقل رداعمال کے مجموعے کانام ہے جن کااظہار وہ اپنے ماحول میں موجودمہیجات کی جانب کرتاہے۔ اس نظریے کی روسے شخصیت کوایک معین اور طے شدہ شئے نہیں سمجھا جاتابلکہ یہ خیال کیاجاتاہے کہ گردوپیش کے مخصوص حالات مخصوص قسم کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ پیدائش کے وقت فردکے اندر کوئی مخصوص قوت موجودنہیں ہوتی جواس کی شخصیت کی تشکیل کے عمل کوکنٹرول کرتی ہے بلکہ مختلف مہیجات کے ردعمل میں سیکھے جانے والے افعال کے مجموعے کوہی شخصیت کہاجاتاہے۔
 
کارل راجرزنے انسانیت پسند نظریہ شخصیت پیش کیا۔ راجرزکے نزدیک انسان نہ تو مشینی انداز میں سیکھے ہوئے افعال کا مجموعہ ہے اور نہ ہی لاشعوری اور جسمانی ضرورتوں کامرقع بلکہ اس کے اندر ایک بنیادی قوت تحقق ذات موجودہے جوفرد کی نشوونما کے عمل کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کی تمام صلاحیتوں کوفروغ دیتی ہے اور ایک بھرپور شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ فرداپنی شخصیت کی تشکیل میں خود بھی فعال کردار ادا کرتاہے اس کے سامنے کئ ممکنہ راستے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتاہے کہ فرد اپنی شخصیت خود بناتاہے۔ ماہرین نفسیات جو وصفی نظریات شخصیت کے کتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے نزدیک شخصیت فرد کے تصورذات اورجملہ اوصاف کے مجموعہ کانام ہے۔ ان کے نزدیک اوصاف سے مراد کم وبیش فرد کی مستقل خصوصیات ہیں جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ یہ اوصاف فرد کے کردار میں مختلف اوقات میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جوفرد جن اوصاف کامالک ہوگا اسی طرح کی اس کی شخصیت ہوگی مثلابااصول ،مہم جو، مضطرب ،ملنسار، گرم جوش، شرمیلا، نرم دل، ہمدرد، خلوت پسندوغیرہ۔ لہذا شخصیت کے مختلف نظریات اور مختلف ماہرین نفسیات کی آرائ کومدنظررکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شخصیت صرف فرد کے لباس اور ظاہری طورپر طریقوںکانام نہیں بلکہ یہ اس کے اندرونی احساسات ، خیالات ،خارجی وداخلی کردار، دلچسپیوں ،اقداراور ذہانت جیسے اوصاف کا مجموعہ ہے۔ شخصیت ساکن نہیں بلکہ مسلسل تبدیل ہونے والی شئے ہے۔ حالات وواقعات، علم ،عقل وبالیدگی ہرلحظہ اس میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں شخصیت کی تشکیل میں وراثت اور ماحول دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے شخصیت ماضی، حال اور مستقبل میں تسلسل پیداکرتی ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1075