donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Feza Perween
Title :
   Babaye Urdu Maulvi Abdul Haq : Ab Kahan Duniya Me Aisi Hastiyan

بابائے اردو مولوی عبدالحق:اب کہاں دنیا میں ایسی ہستیاں


فضہ پروین


 مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
 تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں


             جب  بھی اردو زبان و ادب کا کوئی محقق ،نقاد ،دانش ور یا طالب علم اردو ازبان و ادب کے ارتقا پر نظر ڈالتا ہے تو اس کی نگاہیں جس ہفت اختر شخصیت کے افکار کی تابانیوں اور تخلیقی کمالات کی ضیا پاشیوں  سے چندھیا جاتی ہیں وہ مولوی عبدالحق ہیں ۔انھوں نے تخلیق ادب ،تحقیق اور تنقید میں اپنے منفرد اسلوب سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات پیدا کیے ،جمود کا خاتمہ کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ایک عظیم محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے پاکستانی کی قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آ ب زر سے لکھنے کے لائق ہیں ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ،اپنے مزاج کے اعتبار سے علم وادب کا ایک دبستان اور علم و فضل کے لحاظ سے ایک دائرۃ المعارف تھے ۔اردو ،دکنی ،فارسی ،عربی اور عالمی ادبیات پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔افکارتازہ کی مشعل فروزاں کر کے وہ وہ جہان تازہ تک رسائی کے آرزو مند تھے ۔ان کی فقید المثال علمی فضیلت نے اردو داں طبقے کو قاموس و لغت سے بے نیا ز کر دیا۔   جب تک دنیا باقی ہے اردو زبان و ادب کے ارتقا کا سلسلہ جاری رہے گااور اردو زبان و ادب کے قارئین کے سر ان کے بار احسان سے خم رہیں گے ۔

          علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 16۔نومبر 1872 کی صبح ہاپوڑ  ضلع غازی آباد (بھارت )کے افق سے طلوع ہوا (وکی پیڈیا انسائیکلو پیڈیا)جب کہ مولوی عبدالحق کی تاریخ پیدائش کے متعلق ایک تاریخ یہ بھی ہے 20.اگست  1870جس کے بارے میں مجھے بابائے اردو پر تحقیقی  کا کرنے والے دانش ور مصطفیٰ حمید ی  صاحب نے  ابراہیم جلیس کی تحقیق کے حوالے سے مجھے  فون پر مطلع کیا۔بادی النظر میں مو خر الذکر تاریخ پیدائش درست ہے ۔ ،  16۔اگست 1961کی شام  کراچی میں غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔ان کی وفات سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے ایک درخشاں عہد کی تکمیل ہوئی ۔ایک ایسا عہد جس میں ہر طرف تعمیر و ترقی کے غلغلے بلند ہو ئے ۔مولوی عبدالحق کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی گھرانے سے تھا ۔ہاپوڑ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے عظیم تاریخی مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں سے 1894میں بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علم و ادب کا گہوار ہ بن چکا تھا ۔پورے بر عظیم سے تشنگان علم اس سر چشمہ ء فیض سے سیراب ہونے کے لیے کشاں کشاں یہاں آتے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کے مواقع سے فیض یاب ہوتے ۔یہاں ایسے یگانہء روزگار فاضل موجود تھے جو خاک کو اکسیر کرنے ،ذرے کو آفتاب کی تابانیا ں عطا کرنے اور مس خام کو کندن بنانے کی صلاحیت سے متمتع تھے ۔نو عمر عبدالحق کوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قیام کے دوران جن نابغہ ء روزگار ہستیوں سے ملاقات اور اکتساب فیض کا موقع ملا ان میں سر سید احمد خان ،  نواب محسن الملک ،نواب وقار الملک ، پر و فیسر ٹی ۔ڈبلیو آرنلڈ ، علامہ شبلی نعمانی ، سید محمود ،سر راس مسعود اور بابو مکھر جی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان زعما کے فیضان نظر سے اس ہو نہار طالب علم کی قسمت ہی بدل گئی اور ان کی تربیت نے اپنے شاگر د کی صلاحیتوں کو اس طرح صیقل کیا کہ وطن، اہل وطن او ر  اردو زبان کے بارے میں ان کے نظریات میں ایک ولولہ ء تازہ پیدا ہو گیا ۔علی گڑھ تحریک کی مقصدیت ،اصلاح اور قومی دردمندی سے بھرپور جذبات سے وہ بہت متاثر ہوئے ۔ان کا خیال تھا کہ بر عظیم میں اردو کی ترقی ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے تہذیبی ،ثقافتی اور معا شرتی اقدار و روایات کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔سر سید احمد خان اوران کے نامور رفقائے کار نے بر عظیم کی ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کا جو خواب دیکھا تھا ،اسے وہ اپنا نصب العین بنا چکے تھے ۔اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے سر سید احمد خان اور ان کے ممتاز ساتھی جس انداز میں سر گرم عمل تھے اس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ان کے مستقبل کے عزائم پر اس کے انمٹ نقوش ثبت ہوئے ۔ان کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ دو قومی نظریہ کی اساس میں اردو کو بھی کلید ی اہمیت حاصل ہے ۔وہ اردو کوبر عظیم کی تہذیبی او ر ثقافتی ترقی کی ایک علامت کے طور پرپیش کرنے کے متمنی تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ عہد مغلیہ(1526-1857 )کی تہذیبی ،ثقافتی اور ادبی علامات میں اردو کو ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میںدیکھا جا سکتاہے جس کے محیر العقول اثرات سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کر کے فکر و نظر کو مہمیز کیا جا سکتا ہے ۔ گیسو ئے اردو کو نکھارنے کی دلی تڑپ لیے علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدانھوں نے 1903 میں علی گڑھ ہی میں انجمن ترقی اردو قائم کی ۔انجمن ترقی اردو کا سب سے بڑا اعزازوامتیاز یہ ہے کہ اسے ابتدا ہی  میں عظیم المرتبت مشاہیر کی سر پرستی حاصل ہو گئی ۔انجمن ترقی اردو کے پہلے صدرپروفیسر ٹی ۔ڈبلیو آرنلڈ تھے اور اس تاریخی انجمن کے پہلے سیکرٹری علامہ شبلی نعمانی تھے ۔انجمن ترقی اردو نے علی گڑھ تحریک کے زیر اثر علوم و فنون کی ترقی اور اردو زبان کی تدریس پر بھر پور توجہ دی ۔مولوی عبدالحق نے وہی لائحہء عمل اختیار کیا جو کہ سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے قومی فلاح کے لیے منتخب کیا تھا ۔وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر رہ کرنہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ ملی اقدار و روایات اور قومی وقار کی سر بلندی کے خواہاں تھے ۔وہ ایک وسیع النظر دانش ور تھے اردو زبان کے ذریعے وہ اپنا پیغام محبت دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتے تھے۔وطن ،اہل وطن اور اردو کی محبت ان کے ریشے ریشے میںسرایت کر گئی تھی۔

        اپنی عملی زندگی کاآغاز مولوی عبدالحق نے برطانوی عہد حکومت میں ہوم ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ ٹرانسلیٹرکی حیثیت سے کیا ۔وہ 13سال تک دہلی میں اس منصب پر فائز رہے اور اپنا کام بہ طریق احسن انجام دیا ۔اس کے بعد ان کا تقرر اورنگ آباد (جو کہ مرکزی صوبہ جات کی حدود میں شامل تھا )میں صوبائی انسپکٹرسکولز کی حیثیت سے ہوا ۔اس عرصے میں انھوں نے پورے علاقے میں تعلیمی ترقی اور بیداری کی ایک نئی روح پھونک دی ۔تعلیمی پس ماندگی اور جمود کا خاتمہ ہو گیا اور دلوں کو ایک ولولہء تازہ نصیب ہوا ۔گھر گھر میں تعلیم اور ترقی کے چرچے ہونے لگے ۔مولوی عبدالحق کی مساعی رنگ لائیں اور اس علاقے میں شرح خواندگی اور معیار تعلیم میں مسلسل اضافہ ہونے لگا ۔وہ ایک رجحان ساز ادیب اور دانش ور تھے ۔علم و ادب کے ساتھ ان کی والہانہ محبت ،قلبی لگائواور روحانی وابستگی کو محسوس کرتے ہوئے انھیں آل انڈیا محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس کا سیکرٹر ی منتخب کیا گیا ۔سر سید احمد خان نے اس عظیم اور تاریخی تنظیم کی داغ بیل 1886میں ڈالی ۔اس طرح روشنی کے جس فقید المثا ل سفر کا آغاز ہوا اس کے اعجاز سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیںاور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں مدد ملی ۔مولوی عبدالحق کی شبانہ روز محنت کے اعجاز سے اس سو سائٹی نے فروغ علم کے لیے جو انتھک جد و جہد کو اس کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔ مولوی عبد الحق نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے منشور کے مطابق ا ردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اپنی صلا حیتیں وقف کر رکھی تھیں ۔ ان کی مقناطیسی شحصیت کے اعجاز سے اردو زبان و ادب کو بہت پذیرائی ملی۔

    مولوی عبدالحق نے عثمانیہ کالج (اورنگ آباد ) میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔  جب وہ 1930 میں ملازمت سے ریٹائر ہو ئے تو وہ عثمانیہ کالج(اورنگ آباد ) کے پر نسپل کی خدمات پر مامور تھے ۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حید ر آباد کے لیے اہم خدمات انجام دیں ۔ وہ اس تاریخی جامعہ میں صدر شعبہ اردو تھے۔وہ عثمانیہ یونیورسٹی کی روح رواں تھے ۔تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نظام عثمان علی خان آصف جاہ ہفتم نے ریاست حیدر آباد میں  1917 میں عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تو مولوی عبدالحق نے اس کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے ریاست حیدرآباد جانے کا فیصلہ کر لیا۔مولوی عبدالحق نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسا نصاب تعلیم وضع کیا جس میں تمام مضامین کی تدریس کے لیے اردو زبان کو منتخب کیا گیا ۔انھوں نے اردو ،فارسی اورعربی زبان کے کلاسیکی ادب کی ترویج و اشاعت میںکلیدی کردار ادا کیا۔اس طرح ایک عظیم الشان تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملی ۔ان کی قیادت میں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو نے  ترقی کے متعدد نئے باب رقم کیے ۔ان کی موجودگی میں حیدرآباد کو ایک ممتاز علمی و ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔اردو زبان میں تحقیق اور تنقید کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت پروان چڑھی ۔

        مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔انجمن ترقی اردو کے ساتھ انھوں نے جو عہدوفا استوار کیا تمام عمر اس پر کابند رہے ۔اردو زبان میں تصنیف و تالیف کو وہ علاج گردش لیل و نہار سمجھتے تھے ۔ان کے تعمیری کام کو  دیکھتے ہوئے  یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں بابائے اردو تھے ۔ان کی سر پرستی سے اس زبان نے عالمی ادبیات میں معتبر مقام حاصل کیا۔اردو زبان و ادب کے ایسے شیدائی اب کہاں جو اپنا سب کچھ اس زبان کی ترویج و اشاعت پر وار کر بھی ستائش اور صلے کی تمناسے بے نیا ز اپنی دھن میں مگن رہیں اور اردو کی خدمت کو ایک ایسی نیکی سے تعبیر کریں جس کا صلہ خالق کائنات کے حضور سے یقینی طور پرملے گا ۔کاش نئی نسل اس اسلوب کی تقلید کرے ۔

 گیسوئے اردو ابھی منت پذیر  شانہ ہے
 شمع یہ سودائی ء دل سوزیء پروانہ ہے

         مولوی عبدالحق کے اشہب قلم کی جولانیوں کا ایک عالم معترف تھا ۔جب 1896میں انھوں نے حیدر آباد دکن سے ماہ نامہ ’’افسر ‘‘جاری کیاتو ان کی تخلیقی فعالیت اور علمی بصیرت کی دھاک بیٹھ گئی ۔ان کی مجتہدانہ روش نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ۔اردو زبان میںتراجم اور تخلیقات کے ایک سنہری دور کا آغاز ہوا۔مولوی عبدالحق نے اپنی فعال اور مستعد شخصیت کے اعجاز سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیا ۔انھوں نے اردو ادب کی متاع گم گشتہ سے اہل عالم کو متعارف کرایا۔مولوی چراغ علی جیسے یگانہء روزگار فاضل کے د ووقیع مقالات کو انھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے اس اندا زمیں پیش کیاکہ ان سے استفادہ و استحسان کی متعدد صورتیں سامنے آتی چلی گئیں ۔ایسے متعدد تخلیقی فن پارے جو ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے تھے ،انھیں ازسر نو پوری آب و تاب کے ساتھ ان کی اصل شکل میںاپنے عالمانہ مقدمات کے ساتھ پیش کرکے مولوی عبدالحق نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ان کی یہ علمی و ادبی خدمت تاریخ ادب میں ہمیشہ یادرکھی جائے گی ۔مشاہیر ادب کے لکھے ہوئے کئی اہم تذکرے رفتہ رفتہ نا یاب ہوتے چلے گئے اور تشنگان علم کو ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ۔مولوی عبدالحق نے بڑی محنت ،لگن اور جاںفشانی سے ان نایاب تذکروں کی تلاش کا عمل جاری رکھااور بالآخر انھیں ڈھونڈ نکالا۔ان تذکروں کی اشاعت سے اردو ادب کے وہ نو آموز محقق جو سرابوں میں بھٹک رہے تھے انھیں نشان منزل مل گیا ۔اس طرح اردوتحقیق کا ایک نیا  دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا جس کی ندرت اور بو قلمونی نے قارئین ادب کو مسحور کر دیا ۔مثال کے طور پر میر تقی میر کی خود نوشت ’’ذکر میر ‘‘،گردیزی ،ابراہیم شفیق ،مصحفی اور میر حسن کے تذکرے جو اردو ادب کے کلاسیکی دور کے بارے میں اہم معلومات سے لبریز تھے کافی عرصے سے نایاب تھے ۔مولوی عبدالحق نے ان کے درست متن کی اشاعت میں جس جگر کاوی کا ثبوت دیاوہ اپنی مثال آپ ہے ۔اردو میں متنی تحقیق کا اتنا بڑا دانش ور آج تک پیدا نہیںہوا۔انھوں نے تذکرہ گلشن ہند اور مآثر الاکرام کی اشاعت میں اپنی خداداد ذہانت ،فکر پرور اور بصیرت افروز تنقیدی صلاحیت کا جس پر تاثیر انداز میں استعمال کیا ان کی بہ دولت یہ کتب معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا ہوئیں۔اپنی ذاتی محنت اور جدو جہد سے انھوں نے اردو ڈکشنری کی صورت میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا جو بڑے ادارے بھی اجتماعی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہیں ۔ان کی یہ عظیم الشان کامرانیاں انھیں معاصر ادب میں وہ منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہیں جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں ۔

  کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
 ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

          مولوی عبدالحق کی تصانیف کو دنیا بھر میں زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔ان کی مقبولیت کا راز ان کے سادہ ،عام فہم اور دل نشیں اسلوب میں پوشیدہ ہے ۔ان کی شہرہء آفاق تصانیف میں مستند نوعیت کی  انگلش اردو ڈکشنری ،قواعد اردو ،مقدمات ،دیباچہ داستان رانی کیتکی،مکتوبات ،چند ہم عصر  اور تنقیدات شامل ہیں ۔ایک بلند پایہ محقق،عالمی شہرت کے حامل دانش ور ،زیرک نقاد ،معامل فہم مدبر ،محب وطن پاکستانی ،حریت فکر کے مجاہد ،رجحان ساز مفکر ،با کما ل معلم اور سب سے بڑھ کر اردو زبان کے بے لوث خادم کی حیثیت سے تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ا یا م کا مرکب کبھی نہیں بنے بلکہ وہ ہمیشہ ایام کے راکب کی حیثیت سے سامنے آئے اور اپنی قوت ارادی کو رو بہ عمل لا کر حا لا ت کا رخ بدل دیا ۔ان کی علمی ،ادبی اور ملی خدمات تاریخ ادب کے درخشاں عہد کی یادگار ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد مولوی عبدالحق نے دہلی سے ترک سکونت کر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ۔دہلی میں ان کے کتب خانے میں ہزاروں  نادر و نایاب مخطوطات ،یادداشتیں ،مضامین، کلاسیکی ادب کی کتب اور بیش بہا علم کے موتی موجود تھے ۔حیف صد حیف کہ ان کی اس متاع بے بہا کے ساتھ وہی ظالمانہ سلوک کیا گیا جو ہلاکو خان نے بغداد کے کتب خانوں سے کیا تھا ۔مولوی عبدا لحق کے کتب خانے کو دہلی میں نذر آتش کر دیاگیا ۔وہ بڑی مشکل سے نومبر 1947 میںپاکستان پہنچے اور ایک نئے عزم کے ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی میں منہمک ہو گئے ۔اگرچہ ان کی صحت خراب تھی اور وسائل بھی انتہائی محدود تھے مگر ان وہ اپنے عزم صمیم پر ڈٹ گئے اور اردوزبان کی ترقی کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔تحریک پاکستان  میں مولوی عبدالحق کی تحریک ارد ونے جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے انھیں آزمائش اور ابتلا اور جان لیوا صدمات سے دو چار ہونا پڑا مگر وہ صبر وتحمل اور استغنا کا پیکر بن کر منزلوں کی جستجو سر گرم عمل رہے اور کبھی حر ف شکایت لب پر نہ لائے۔انھیں جن کٹھن حالات کا سامناکرنا پڑا اور وہ جن مرحلوں سے گزرے اس کا اندازہ صرف اہل درد ہی لگا سکتے ہیںالفاظ ان کے جذبات کوپیرایہء اظہار عطا کرنے سے قاصر ہیں ۔ رام ریاض نے کہا تھا

 نہ تو جلا نہ کبھی تیرے گھر کوآگ لگی
 ہمیں خبر ہے کہ جن مرحلوں سے ہم گزرے

 ۔ یہاں انھوں نے کتب خانوں کے قیام ،اردو مجلات اور کتابوں کی اشاعت کے کاموں پر بھر پور توجہ دی ۔کراچی میں اردو کالج کا قیام سے ان کے دیرینہ خواب کی تعبیر تھی ۔ان کی خواہش تھی کہ اسے اردو یونیورسٹی کی شکل مل جائے ۔پاکستان میں ان کی قومی خدمات کو ہر سطح پر سراہا گیا ۔ان کی عظیم شخصیت کی یاد میں پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ان کی تصویر کوایک یادگار ٹکٹ کے طور پر شائع کیا۔یہ ٹکٹ 16۔اگست 2004کو جاری ہوا ۔پاکستانی ادب کے اس عظیم معمار کو یہ شان دار خراج تحسین تھا ۔ان کی وفات سے اردو زبان وادب کی تر ویج و اشاعت کے ایک انقلابی عہد کی تکمیل ہوئی ۔وفا کے سب ہنگامے اپنے اختتام کو پہنچے ۔اب تو پورا ماحول ہی سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ایسا کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جسے ان کا متبادل قرار دیا جا سکے ۔انھوں نے جو اسلوب اپنایا وہ دوسرے لوگوں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔اس

 خاک نے کتنے گنج  ہائے گراں مایہ اپنے دامن میں چھپا رکھے ہیں ۔ان کا تصور کریں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

 سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایا ں ہو گئیں
 خاک میں کیا صورتیں ہو ں گی کہ پنہاں ہو گئیں

          خاکہ نگاری پر مشتمل اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’ چند ہم عصر ‘‘میں مولوی عبدالحق نے کچھ شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں ۔ایک عظیم محقق ،نقاد،ماہر تعلیم ، ماہر لسانیات اور مدبر کی حیثیت سے ان کی تخلیقی فعالیتوں کا دائرہ متنوع اور لا محدود نوعیت کا تھا ۔خاکہ نگاری کی جانب توجہ دے کر انھوں نے اس صنف ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مزین کر دیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اسلوب کے اعجاز سے یہ شخصیات متکلم ہو کر قاری کے سامنے آگئی ہیں اور وہ چشم تصور سے نہ صرف انھیں دیکھتا ہے بل کہ  ان سے ہم کلام بھی ہوسکتا ہے ۔اپنی زندگی میں وہ جن لوگوں سے ملے اور ان سے قریبی رابطہ رہا ان کی شخصیت کو نہایت خلوص ،درد مندی اور غیر جانب داری  سے ان خاکوں میں بیان کر دیا ۔ان خاکوں میں وہ اپنے فن کی معراج پر کھائی دیتے ہیں ۔ان کے جان دار اسلوب نے ان خاکوں کو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مالا مال کر دیا ہے ۔ان کے اسلوب کا نمایاں ترین وصف یہ ہے کہ وہ اپنے مسحور کن انداز بیان سے جہاں تک ممکن ہو ان شخصیات کی زندگی کے جملہ نشیب و فرازسے قاری کو آگاہ دیتے ہیں ۔انسان شناسی میں انھیں جو مہارت حاصل تھی  وہ ان کے خاکوں سے صاف ظاہر ہو رہی ہے ۔ان شخصیات کی تاب و تواں ،جذبات و احساسات ،عملی زندگی کی سرگرمیاں اور گفتگو کے انداز اور رویے کے موسم جس طرح ان کی سوچ پر اثر انداز ہوئے وہ اپنی پوری تابانی  اور شان دل ربائی کے ساتھ ان خاکوں میں دعوت فکر دیتے ہیں ۔انھیں پڑھ کر کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔ مولوی عبدالحق نے ان شخصیات کو جس حال میں دیکھا ان کی زندگی کا جو ڈھب انھیں متوجہ کر پایا اسے انھوں نے بلا کم و کاست پیش کیا ۔شخصیات کی من و عن لفظی مرقع نگاری کا یہ انداز ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔وہ الفاظ کو فرغلو ں میں  لپیٹ کر پیش کرنے کے سخت خلاف تھے ۔ لفظی مرقع نگاری میں وہ اپنی مثال آ پ تھے ۔نواب محسن الملک (سید مہدی علی خان)کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

    ’’تقریر کے وقت منہ سے پھول جھڑتے تھے ،۔آواز میں شیرینی اور دل کشی تھی۔ اکژ لوگ جو ان سے ملنے  یا کسی معاملے میں گفتگو کرنے آتے تو ان کی ذہانت کے قائل ہوجاتے ۔ ان کی خوش بیانی ایسی تھی کی اکژ اوقات مخالف بھی مان جاتے تھے ۔ دکن میں رہتے رہتے اور محض امراض کی وجہ سے وہ شدید موسم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے زمانے میں  وہ بمبئی چلے آتے ۔ بدر الدین طیب جی کے سامنے ایسی فصیح اور پر درد تقریر کی کہ دونوں آبدید ہ ہو گئے اور تھوڑی سی دیر میں ان کی دیرینہ مخالف کو ہمدردی سے بدل دیا اور ایک گراں قدر عطیہ کالج کے لیے ان سے وصول کرلیا۔‘‘

         مولوی عبدالحق اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اہل ایماں دنیا میں مثل خورشید جہاںتاب ضو فشاں رہتے ہیں۔وہ ایک افق سے غروب بھی ہو جائے تو کسی اور افق کو اپنی تابانیوں سے منور کر دیتے ہیں ۔مولوی عبدالحق کی عظیم الشان علمی و ادبی خدمات ،فقید المثال تحقیقی و تنقیدی کامرانیاںتا ابد اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی رہیں گی ۔ایسی جامع صفت شخصیت کا نام لوح دل پر ہمیشہ ثبت رہے گا اور جریدہ ء عالم پر ان کا دوام  ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں سے کو ن واقف ہے ؟زندگی کا ساز بھی عجب ساز ہے یہ مسلسل بج رہاہے اور اس سے جو نغمے پھوٹتے ہیں وہ زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس اجاگر کرتے ہیں ۔جب بھی کوئی درد آشنا ساز ٹوٹتا ہے تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے ۔خم و ساغر اور در و دیوار پر غیر مختتم اداسی کے بھیانک سائے چھاجاتے ہیں اور رتیں بے ثمر ہو کر رہ جاتی ہیں ۔مولوی عبدالحق کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے علوم و فنون ،شعر و ادب ،تنقید و تحقیق اور لسانیات کے جو بلند آہنگ نغمے چھیڑے ان کی دل نشیں آواز آج بھی سنائی دے رہی ہے ۔ان کی خلوص اور دردمندی سے معمور آواز کی باز گشت دلوں میں ایک ہلچل پیدا کر دیتی ہے ۔اس سے ایک ہی پیغام ملتا ہے کہ بڑھے چلو منزلوں کی جستجو میں کوئی پل رائیگاں نہیں نہیں جانا چاہیے ۔اردو زبان و ادب کے اس عظیم محسن کی یاد ہمیشہ دلوں میں موجزن رہے گی ۔ان کی محبت سے دامن دل معطر رہے گا ۔صوفی غلام مصطفٰی تبسم کے یہ اشعار ہمارے جذبات حزیں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ان کی یاد ہی اب ہمارا سب سے بڑا اور بیش بہا اثاثہ ہے ۔اللہ کریم ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

 ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی
 کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تیری آئی
 پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تیری یادیں
  جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی


Fiza Perveen
Mustafaabad Jhang City  

    
***********************************************

       

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 992