donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mazhar Saleem
Title :
   Hasan Agha Zanicha

 

حسن اغا، زنیچا

 

مظہر سلیم مجوکہ


 
1198

ء کی بات ہے اس وقت ہمارا بھی دنیا کے بڑوں میں شمار ہوتا تھا۔ قسطنطنیہ سے سلطان روم تین براعظموں پر حکومت کر رہا تھا اور یوگوسلاویہ اس سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ تھا۔ اس وقت مغل بادشاہ بھی دارالسلطنت دہلی سے ہمالیہ تلے کے سارے براعظم ہند کو جنت نشان بنائے ہوئے تھا۔


اس وقت جب کہ اگرچہ ہم گلستان اندلس کے آشیانے سے بستر لپیٹ چکے تھے۔ لیکن پھر بھی مراکش سے ملایا تک ہم ہی خلافتہ فی الارض کے ذمہ دار تھے۔ اس زمانے میں یوگوسلاویہ کی اسلامی سرزمین پر، علاقہ والماسیہ کے قلعہ ایموتسکی (Imotsaki) کے قریب ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا جس میں کوئی ندرت نہ تھی۔ وہی چیز سیکڑوں گھروں میں اس سے پہلے بھی پیش آئی ہو گی اور اس کے بعد بھی یعنی ساس بہو کے جلاپے میں ایک مسلمان سپہ سالار حسن آغا اپنی حسین اور نیک بیوی فاطمہ کو اس لیے طلاق دے دیتا ہے کہ اس کے زخمی ہونے کی خبر ملنے کے باوجود بیوی اس کی عیادت کو نہ آئی۔ ماں کی مامتا سے پوچھنا چاہیے کہ اپنے پانچ بچوں سے، جن سے ایک ابھی شیر خوار ہی تھا، جدا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔


عدت گزرنے کے بعد اولیا اور رشتہ دار اس کا ایک مقامی قاضی سے نکاح کراتے ہیں۔ نئے شوہر کے ہاں جاتے وقت راستہ ایسا تھا کہ پرانے شوہر کے مکان پر سے گزرنا تھا، اس نے برقع پہن لیا کہ نہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ سکے اور نہ بچے اسے دیکھ سکیں۔ لیکن جب وہ گھر آیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئی۔ بچوں کو محبت سے لپٹایا، پیار کیا، تحفے تحائف بھی دئیے۔ بچے بھی محبت سے اس سے لپٹ گئے۔ اس پر باپ نے بچوں کو پکارا ’’یہاں آئو، اس ظالم سنگ دل ماں کی باتوں میں نہ آئو۔‘‘ یہ جفاکارانہ جملہ سن کر فاطمہ پر کیا گزرتی ہے۔ یہ نظم اس کا اظہار ہے ۔


اس افسوس ناک کردارنگاری میں نہ معلوم کیا بات تھی۔ بیسیوں زبانوں میں پچاسوں اہل قلم نے اسے ترجمہ کر کے منتقل کیا۔ اصل یوگوسلاوی شاعر تو معلوم نہیں لیکن ان مترجموں میں جرمنی کے گوئٹے، انگلستان کے اسکاٹ اور برائوننگ، فرانس کے میریے اور روس کے پُشکن جیسے معروف نام بھی آتے ہیں۔
 
اس نظم کے ترجمے اطالوی، جرمن، فرانسیسی، ہنگروی، لاطینی، انگریزی، چکوسلواکی، پولینڈی، روسی، سویڈنی، سلووینی، اسپینی، یوکرینی، ایسپرانٹو، رومانوی، عبرانی، ولندیزی، البانی، مقدونی، ڈنمارکی کی ہی میں نہیں، عربی، فارسی، ترکی ، ملاوی میں بھی ہو چکے ہیں۔ متعدد زبانوں میںتو کئی کئی ترجمے ہوئے لیکن اردو میں نہ ہونا شرم کا باعث تھا۔ دیرآید درست آید تو ٹھیک نہ ہو گا لیکن کبھی نہ آنے سے دیر سے آنا بہرحال بہتر سمجھا جائے گا۔ مجھے نہ شاعری سے لگائو، نہ ادبیات سے دلچسپی۔


اصل پر دسترس نہ ہونے سے سات آٹھ زبانوں کے ترجمے سامنے رکھ کر اردو میں منتقل کرتا ہوں کہ فرض کفایہ تھا، اسے کوئی بھائی نظم کا جامہ پہنانے کا وقت پائیں تو ہمارے دور افتادہ یوگوسلاوی بھائیوں کی ہمت افزائی ہو گی جو موجودہ مشکل زمانے میں اپنی ثقافتی شخصیت اور مذہبی انفرادیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، ایک مرحوم یوگوسلاوی رفیق پروفیسر محمد طیب اوکچ نے بتایا کہ ترکی لفظی ترجمہ اصل سے سب سے زیادہ مطابق ہے۔ میں نے اس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا ہے۔


اس زبان زد نظم کا ترجمہ


1۔ سبز پوش پہاڑوں میں یہ سفید سفید کیا چمک رہا ہے؟
برف کے تودے ہیں یا کلنگوں کے جھرمٹ؟
2۔ برف کو تو پگھل چکنا چاہیے
کلنگ کو تواڑ کر جا چکنا چاہیے۔
3۔ یہ ہیں نہ برف کے تودے نہ کلنگ
بلکہ ہیں خیمہ ہائے آغا حسن
4۔ وہ سہے زخموں سے چور چور
ماں اور بہن آئی ہیں عیادت کے لیے ازدور
5۔ بیوی سخت درد مند
آنے سے مگر آتی ہے اسے شرم
6۔ جب زخم اس کاکچھ بھر گیا
تو اس نے باوفا بیوی کو یہ کہلوایا
7۔ خبر دار! اب سفید بنگلے میں میرا انتظار نہ کرنا،
نہ میرے بنگلے میں، نہ رشتہ داروں کے ہاں
8۔ بیوی سنتی ہے یہ سخت پیام
ششدررہ جاتی ہے ، دل ہوتا ہے پاش پاش
9۔ شوہر کے محل کے اطراف گھوڑوں کی ٹاپ سنتی ہے۔
نراس محل کے ایک برج پر چڑھتی ہے
10۔ ایک کھڑکی سے کود کر خود کشی کرنا چاہتی ہے۔
اس کی وہ ننھی لڑکیاں گھبرا کر اس کے پیچھے دوڑتی ہیں۔
11۔ اماں، اماں بھاگ نہیں۔
یہ گھوڑے ابا کے نہیں، ملنے آئے ہیں ماموں جان پنتورو وچ(Pintorovic)
12۔ یہ سن کر بیگم حسن پلٹ پڑتی ہے۔
اور آ کے بھائی سے لپٹ جاتی ہے۔
13۔ بھائی جان! دیکھو یہ شرمناک بات
پانچ بچوں کی ماں کو ملتی ہے طلاق
14۔ بھائی کچھ نہیں بولتا، چپ ہو جاتا ہے
ریشمی استر والے جیب میں سے طلاق نامہ نکالتا ہے۔
15۔ اس میں مہر لے کر ماں کے گھر جا کے رہنے کا حکم تھا۔
اس کو پڑھ کر وہ لڑکوں کی پیشانی اور لڑکیوں کے رخسار چومتی ہے۔
16۔ مگر گہوارے میں کے شیر خوار سے جدا ہونا ممکن نہ تھا۔
سخت گیر بھائی اسے اس سے بھی چھڑاتا ہے۔
17۔ جبراً گھسیٹ کر اسے ایک گھوڑے پر سوار کرتا ہے۔
اور آبائی مسکن میں لاتا ہے
18۔ آبائی گھر آئے چند ہی دن گزرے ہوں گے
مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہو گا
19۔ حُسن بھی ہے، حسب و نسب بھی
کیوں نہ ہر طرف سے ایک ہو منگنی
20۔ سب سے زیادہ اصرار ہے ایموتسکی کے قاضی کو
اس پر وہ پر درد آواز سے کہتی ہے! اپنے بھائی کو
21۔ پیارے آ کا بھائی مجھے کسی اور سے بیاہ نہ دو۔
میرے بچوں کے خیال سے میرا دل پاش پاش نہ کرو۔
22۔ بھائی کچھ نہیںسنتا۔
ایموتسکی کے قاضی سے کرا دیا جاتا ہے نکاح
23۔ وہ مکرر بھائی سے التجا کرتی ہے
ایک پرچے پر کچھ لکھتی ہے
24۔ اور ایموتسکی کے قاضی کو بھجوانا چاہتی ہے
کہ تمھاری منگیتر ادب سے سلام کرتی ہے
25۔ اور دل و جان سے یہ التماس کرتی ہے۔
کہ سرداروں کے ہمراہ رخصتی کے لیے یہاں آنے کے وقت
26۔ ایک برقع لائو کہ حسن آغا کے محل کے سامنے سے گزرتے وقت
اپنے بچوں کو نہ دیکھنے پائوں
27۔ اس خط کے ملتے ہی قاضی صاحب سرداروں کو جمع کرتے ہیں۔
اور اس کو رخصت کرا لینے جاتے وقت اس کے لیے برقع بھی لے جاتے ہیں۔
28۔ نوشہ کے ساتھ دلہن کے ہاں پہنچتے ہیں
اور تزک و احتشام سے اسے لاتے ہیں
29۔ حسن آغا کے گھر کے سامنے سے گزرتے وقت
اس کی دونوں لڑکیاں کھڑکی سے ماں کو دیکھ کر پہچان جاتی ہیں۔
30۔دو لڑکے بھی باہر آتے ہیں
اور ماں سے مخاطب ہوتے ہیں
31۔پیاری اماںہمارے ہاں آئو
اور کھانا ہمارے ساتھ کھائو
32۔اس کو دیکھ کر وہ نوشہ کے ہمراہیوں میں سے
جو سب سے سامنے تھا اس سے کہتی ہے
33۔اے نوشہ کے ساتھیوں کے سردار
اے برادر دین و ملت
34۔گھوڑوں کو اس محل کے سامنے ذرا ٹھہرائو
اپنے یتیم بچوں کو کچھ تحفے دینا چاہتی ہوں
35۔گھوڑے محل کے سامنے ٹھہر جاتے ہیں
وہ اپنے بچوں کو قیمتی ہدیے دیتی ہے
36۔لڑکوں کو زرکارٹوپیاں
لڑکیوں کو چوغے
37۔گہوارے کے شیر خوار
کو ایک بستے میں بھیجتی ہے کپڑے
38۔سنگدل حسن آغا دور سے یہ سب دیکھتا ہے
باہر نکلے ہوئے بیٹوں کو پکارتا ہے
39۔یہاں آئو میرے یتیم بچو
تمھاری سنگ دل ماں کو نہ آیا رحم تم پر
40۔جوں ہی فاطمہ یہ جملے سنتی ہے
چیخ مار کر زمین پر گر پڑتی ہے
41۔ جیسے بچے واپس جاتے ہیں
ماں کی بھی روح پرواز کر جاتی ہے۔

(انتخاب: مظہرسلیم مجوکہ)


********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 679