donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Imam ul Hind Maulana Azad

 


محض وطنیت اورسیاست کی بناء پر

مولانا کا قد چھوٹا نہیں کیا جاسکتا۔یہ چاندکے سامنے چراغ

جلاکراُس کاقدچھوٹاکرنیکی کوشش ہے


امام الہند مولانا آزادؒ : مشن قرآن فہمی، ناقابل فراموش کارنامہ


سمیع احمدقریشی،ممبئی۔

9323986725


مولاناابوالکلام آزادکے دادامولانامحمدہادی دہلی کے مشہورعلمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔مولاناآزادکے والدخیرالدین کے نانامولانامنورالدین شاہ عبدالعزیزدہلویؒ جیسے جیدعالم کے شاگردتھے۔مولاناخیرالدین کے داداشاہ محمدافضل علم وطریقت دونوں میں یکساں تھے۔۱۸۵۷؍کے المیے کے بعدمولاناخیرالدین نے مکہ معظمہ کوہجرت کی،وہاں شیخ محمدطاہروتری کی بھانجی عالیہ سے شادی کی۔مولاناآزادکی ولادت ۱۱؍نومبر۱۸۸۸؍میں ہوئی۔مولاناخیرالدین ۱۸۸۹؍میں اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان آگئے اورکلکتہ میں مقیم ہوئے۔مولاناکی تین بہنیں کی  تعلیم گھرپرلائق اساتذہ سے ہوئی۔مولانا۱۶؍برس کی عمرمیں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ ہوگئے اورخوددرس دیتے تھے۔عام طورپرطلباء اس عمرمیں درس نظامی کاکورس مکمل نہیں کرپاتے۔۱۹۰۳؍میں۱۴؍سال کی عمرمیں ان کازلیخابیگم سے عقدہوگیا۔مولاناعلماء کے قدامت پرست خاندان کے چشم وچراغ تھے تقلید جہاں ایک اہم چیزتھی یہ کم عمری ہی سے انہیں اپنے قریبی حالات پرسوچنے سمجھنے کی عادت تھی۔ایک جگہ لکھتے ہیں’’واقعہ یہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہیں ہوئی تھی اورزیادہ سے زیادہ میری عمر۱۳؍سال کی تھی کہ میرادل اچانک اپنی موجودہ حالت اوراردگردکے منظرسے اچاٹ ہوگیاورایسامحسوس ہونے لگاکہ میں کسی اچھی حالت میں مبتلانہیں ہوں۔یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی حتیٰ کہ مجھے ان ساری باتوں سے جولوگوں کی نظروں میں انتہادرجہ عزت واحترام کی باتیں تھی ایک طرح کی نفرت ہوگئی اورمیں اندرہی اندران باتوں پرشرم اورذلت محسوس کرنے لگا۔اب جولوگ میراہاتھ پاؤں چومتے تھے تومجھے محسوس ہوتاکہ گویاایک بہت ہی سخت برائی کاکام ہورہاہے۔چنددن پہلے ہی یہی منظرمیرے لئے نہایت فخروغرورکاباعث تھا‘‘

(ذکرآزادصفحہ ۲۵۶)

مولاناآزادبے پناہ علمی ودینی خصوصیات کے حامل تھے۔علم وفن،ادب وانشائ،فلسفہ وحکمت،قرآنی علم ومعارف،صحافت،خطابت،تحقیق وتحریرمیں یکتاتھے۔عربی،فارسی اوراردوپردسترس اورفرانسیسی وانگریزی زبان میں عبورتھا۔مولاناآزادمیں مسلمانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کربھری تھی۔مسلمانوں کی سیاسی وسماجی ابتری پرانہیں گہرارنج تھا۔مسلمانوں کے سماجی وسیاسی زوال کودورکرنے میں توجہ ودھیان عملی سطح پردیا۔اُمت مسلمہ کی بنیادی ابتری کوانہوں نے قرآن وسنت سے دوری پرشناخت کیا۔یہ کام دوسروں کیلئے آسان نہ تھا۔مولاناچونکہ بذات خودآفاقی اندازنظر،تاریخی بصیرت قوت عمل اوربے پناہ بلندکردارسے شرابورتھے،بہرہ ورتھے،دین داری اوراتباع سنت میں نمایاں تھے اسی لئے مولاناکوامت مسلمہ کواسکی شکست وریخت کے اسباب بتلانے اورقول وعمل کے ذریعہ زوال کی راہ دورکرنے میں آسانی ہوئی۔علماء وقت کی بڑی تعدادنے مولاناکے بتلائی ہوئے راستوں کی حمایت کی۔ان راستوں پروہ چلے،راستہ کیاتھا،وہی آج سے چودہ سوسال پہلے اللہ نے ہمارے پیارے رسولﷺ کے ذریعہ پوری انسانیت کودکھلایا،جب تک مسلمان اس پرسختی کے ساتھ کاربندرہے پوری دنیامیں سرخرورہے۔ان کاسربلندرہا،دنیاکی تاریخ کے روشن باب بن گئے۔

وہ زمانہ میں معززتھے مسلماں ہوکر
اورتم خارہوئے تارک قرآں ہوکر

مولاناچاہتے تھے کہ بنام مذہب بہت سی باتیں مسلمانوں کی عملی زندگی میں گھس آئی ہیں وہ دورہوں،اس امرسے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ مسلمانوں میں موجودہ رسم ورواج کی بنیادہندوؤں کے میل جول سے آئی ہیں۔مسلمانوں نے جب ہندوستان فتح کیاتومفتوح قوم کے رسم ورواج سے واقف ہونے کی ضرورت ہوئی۔واقفیت کے ساتھ میل جول بڑھاتوخودبخود مفتوح قوم کے رسم ورواج فاتح قوم کے افعال پرقبضہ کرناشروع کردیا۔ادھراکبرکی دینی الہی نے یہاں تک ترقی کی کہ ہندوؤں کے رسم ورواج پرمائل ہوکر مسلمانوں میں غیرمحسوس طریقہ پران کواختیار کرنے کامیلان پیداکردیا۔مذہبی کمزوری نے بہت سے توجہات پیداکردیئے،دیکھنے والاکوئی انہیں کبھی وہ قدیم مسلمان نہیں سمجھ سکتا،جنہوں نے ہندوستان فتح کیاتھااس خرابی کاتجزیہ کرتے ہوئے مولانالکھتے ہیں’’سب سے بڑی وجہ ان بے ہودہ رسم ورواج کے طبیعت ثانیہ ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ مذہبی توجہات اورعلماء کی غفلت نے عوام کواچھاموقع دے دیاکہ وہ انہیںداخل مذہب سمجھ کرہرمسلمان کے لئے لازمی سمجھ لیں۔بعض رسومات ایسے تھے جن سے علماء اورواعظمیں کوبالخصوص مالی منفعت تھی اوراس لئے یہ منفعت انہیں اعلان حق سے بازرکھتی تھی۔ایک مدت تک جب کسی قوم کی اصلاح نہ کی گئی توان کے طبیعت ثانیہ میں شامل ہونے میں کیادیرلگتی،مولانانئی تعلیم کی برکات سے واقف تھے لیکن اس بات سے متفق نہ تھے کہ نئی تعلیم کی اشاعت سے خودبخود سدھارکاکام ہوتارہے گا۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں’’تجربہ نے ثابت کردیاکہ قدیم رسم ورواج جوخاندان میں نسل بعدنسل قائم رہتے چلے آئے ہیںکبھی تعلیم سے دورنہیں ہوسکتے۔سوسائٹی کادباؤخاندانی اثرپرغالب آجاتاہے۔تعلیم بے شک ایک قسم کااحساس پیداکردیتی ہے لیکن ایک زبردست تحریک کی محتاج ہوتی ہے۔جب تک وہ تحریک طبیعت میں آمادگی نہ پیداکردے طبیعت کسی چیزکے ترک کرنے پرراضی نہیں ہوتی۔اسی تحریک کانام اصلاح یا کوشش ہے اوراب وہ وقت آگیاہے کہ اس کی کوشش کی جائے۔اب وہ زمانہ نہیں رہاکہ فضول گفتگووبحث میں وقت ضائع کیاجائے بلکہ جوکچھ کرناہے اسے شروع کردیاجائے۔‘‘لصان الصداق  

مولاناخلوت کے نہیں جلوت کے آدمی تھے صرف غوروفکر نہیں ساتھ ہی ساتھ عمل کے آدمی تھے۔اس وقت کے مذہبی علماء اورمذہبی اداروں سے قریبی تعلقات تھے۔کئی دینی مدارس قائم کئے،اہل حدیث،جمیعت العلماء اوردیگراسلامی مذہبی تنظیموں واداروں کے اجلاس کوخطاب کیا۔ندوۃ العلماء اوردارالعلوم دیوبندتشریف لے گئے۔مولاناحسین احمدمدنی،مولاناقاری محمدطیب ،مولاناحکیم سیداحمداسحاق ،مولاناکفایت اللہ کی معیشت میں دارالعلوم دیوبندکی سیاحت کی۔مولاناآزادکوقرآنی فکروعمل سے بڑی رغبت تھی۔اپنے ہرعمل کوقرآن وسنت کے تابع رکھتے تھے۔اسی بات کوامت مسلمہ کے لئے دنیاوآخرت کی سرخروئی کیلئے ضروری سمجھتے تھے۔اسی بات کے قائل اس دورکے اورآج کے بھی علماء ہیں۔جن کی ایک بڑی تعدادہے۔ایک مرتبہ کسی کے کہنے پرکہ مولاناآزادمتشرح  بھی نہیں توفوراً حضرت شیخ الہندمولانامحمودوالحسن نے یہ شعرپڑھا؎

کامل اس فرقہ زیادسے اٹھانہ کوئی
کچھ ہوئے تویہ رندان قدح خوارہوئے

اورپھرفرمایا’’میں الہلال،کیوں نہ پڑھوں کہ یہ پہلارسالہ ہے جس نے ہم کوجہادکاسبق یاددلایاجوہمارافریضہ تھااورہم بھول گئے تھے۔

مولاناآزاد کاغیرمعمولی کارنامہ قرآن پاک کاترجمہ وتفسیرہے۔یہ آخرانسانوں کیلئے راہ ہدایت ہے تویہ ضروری ہوجاتاہے کہ مسلمانوں کے دل ودماغ انسانوں کے راہ ہدایت کے لئے اللہ کی کتاب قرآن کوجوپیارے نبیﷺ پررب کائنات نے اتارا۔عام مسلمانوں کوان کی آسان اورمادرزبان وبہترین اسلوب بیان کے ساتھ مسلمانوں میں ترجمہ وتفسیرکے ساتھ پیش کیاجائے۔مولانانے قرآن پاک اورسیرت النبیؐ پرکم عمری میں ہی معرکتہ آراتفاسیراورمضامین لکھے۔بالخصوص اپنے خیالات ’’الہلال اورالبلاغ‘‘کے جاری کرنے میںجومقاصد تھے اس میں انہوں نے اسے ترجیحات میں رکھا۔جسے عوامی مقبولیت ملی،وہ بھی غیرمعمولی جواس وقت تک کسی بھی اردواخبارات تک کونہیں ملی تھی۔ان کی تفسیروترجمہ ’’ترجمان القرآن ‘‘وقت کی اہم تصنیف ہے۔علماء دین درس تدریس میں ’’ترجمان القرآن‘‘کواولیت دیتے آئے ہیں۔مولاناابوالحسن ندوی رقم طرازہیں’’میں نے یہ جلد(ترجمان القرآن)بڑے ذوق وشوق سے پڑھی اوراس سے بہت بڑافائدہ اٹھایا‘‘مولاناآزادکافہم دین قرآنی بلااورغضب کاتھا۔اللہ نے دنیامیں جہالت،ظلم وستم ،غلامی،استبدادکودورکرنے کیلئے متعدددورمیں انبیاء ورسول بھیجے،ان پرمتعدد آسمانی کتاب انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کی۔عرب جہالت ظلم وستم میں یکتاتھے۔قدم قدم ہرلمحہ فحاشی،جوا،عریانیت ،غلامی،بت پرستی ،کمزوروں کوستانا،ان کااستحصال کرناسمیت دنیابھرکی خرافات عام تھی۔عربوں کی یہ جہالت آج بھی ضرب المثال ہے۔اللہ نے ان برائیوں،خرابیوں،شیطانیت کوختم کرنے کیلئے انسانیت کی ہدایت کیلئے قرآن پاک کانزول فرمایا۔آپﷺ کے فکروعمل نے جاہل سرکش عربوں کی زندگی میں انقلاب پیداکردیا۔ایک زبردست تحریک سے چندسالوں میں یہ جاہل سرکش عرب دامن مصطفیٰﷺ کے سائے میں آکرحلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔اوروہی دنیاکی سب سے زیادہ مہذب قوم بن گئے۔جاہل عربوں نے قرآن کوسمجھااسے اپنی زندگی میں عملی سطح پراپنایا۔ان کاعظیم الشان کارنامہ ہے جوتاریخ عالم میں آج بھی مستندومحفوظ ہے۔جس کاانکار محال ہے۔جس کی قائل دنیاکے بے شمار غیرمسلم سیاست داں ،دانشور،محققین،میڈیکل سائنس کے ماہروسرکردہ افرادہیں۔شاعراسلام ڈاکٹرمحمداقبالؒ کی کلیات،سیدسلیمان ندوی کی سیرت النبیﷺ،مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی،مولانامودودی کی تفہیم قرآن وغیرہ مسلمانوں کی فلاح وبہبوداصلاح ونجات کیلئے اہم معرکتہ الٓاراء تصانیف ہیں اس طرح امام الہندمولاناآزادکی قرآن کی تفسیر’’ترجمان القرآن‘‘بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔مولاناکسی مدرسہ یادارالعلوم سے فارغ ہوکرعلماء کی صف میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ان کی ساری تعلیم گھرہی پرمستندعلماء کی نگرانی میں ہوئی اورایک جیدعالم بنے،ندوۃ العلوم ،دارالعلوم دیوبندجیسے معروف دینی درس گاہوں سے وہ فارغ نہیں ہوئے اس کے باوجودایک عالم نے ان کے علم کاسکہ مانا۔اگرمولانا کسی مذہبی درس گاہ یادارالعلوم سے فارغ ہوئے ہوتے توشایدمولاناآزادپربھی مسلک کالیبل لگاکرتنگ نظراپنی تنگ نظری کاثبوت دیتے۔ان کاعلمی قداوربھی گھٹادیتے۔مولاناکسی لیبل کے آدمی نہ تھے ان کے سامنے صرف اورصرف قرآن وسنت کی ہی اہمیت وافادیت تھی۔زندگی کے آخری لمحوں تک وہ اپنے فکروعمل سے امت مسلمہ کوقرآن وسنت کی راہ دکھاتے رہے۔بدقسمتی سے مولاناصرف اٹھارہ پاروں کاہی ترجمہ تفسیرکرسکے۔زندگی نے مزیدمہلت نہ دی اور۲۲؍فروری ۱۹۵۸؍کواپنے خالق حقیقی سے جاملے۔بعض سیاسی تعصبات کی بناء پربرصغیرمیں مولاناآزادکاعلمی ودینی قدگھٹ کررہ گیا۔کانگریس میں نہ گئے ہوتے توان کاعلمی اوردینی قدآج کہیں بلندماناجاتا۔تحریک آزادی میں موثررول اداکرنے کیلئے مولاناکانگریس میں شامل ہوئے۔حریت اورانسانی آزادی کااسلام بہت بڑانقیب ہے۔کروڑوں انسانوں کوغیرملکیوں کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کیلئے کانگریس میں شمولیت اختیارکی۔شریعت کوپیش نظررکھاتوکیاتوکیاجرم تھا؟مولاناہمہ گیراوصاف اورکمالات کی بنیادپرہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔مولاناکی ذات باصفات کاتذکرہ اب ہماری قومی وملّی زندگی کابیش قیمت سرمایہ ہے ہماری آنے والی نسلیں اپنی ترقی اوربہترین مستقبل کیلئے اس سے استفادہ کریں گی۔

(یو این این)

******************************

 

 

    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 627