donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Dr,Anwarul Haq Ka English Novel The Long Wait


ڈاکٹر انوار الحق کا انگریزی ناول

The Long Wait 


سہیل انجم


ڈاکٹر انوار الحق ایک ابھرتے ہوئے نوجوان ادیب ہیں۔ ان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ ذو لسانی ہیں۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور اچھا لکھتے ہیں۔ ان کی اسی خوبی نے مجھے ان کی جانب توجہ دینے پر مجبور کیا۔ آج کے دور میں جبکہ اردو زبان میں تحقیق کا معیار گرتا جا رہا ہے اور بہت کم پی ایچ ڈی ہولڈرس اپنی کسی خوبی کے سبب اہل علم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا پاتے ہیں، ایک نوجوان اردو پی ایچ ڈی ہولڈر کا انگریزی میں ناول شائع ہونا اور وہ بھی PARTRIDGE جیسے باوقار اشاعتی ادارے سے شائع ہونا اپنے آپ میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جب مجھے اس ناول کے بارے میں جس کا نام The Long Wait ہے معلوم ہوا تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس سلسلے میں جب انوارالحق سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے انگریزی زبان میں لکھنے پڑھنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو بہت اچھا لگا۔ اس سے قبل اردو میں ان کی دو کتابیں ”چاندنی بیگم ایک جائزہ“ اور ”قرةالعین حیدر کی غیر افسانوی نثر“ شائع ہو چکی ہیں۔ وہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ ان کے کئی اردو افسانے مختلف مقتدر ادبی مجلات میں شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں افسانوں کے ترجمے کا شوق ہے اور اسی شوق نے ان سے ایک اچھا ناول لکھوا لیا۔ ڈاکٹر انوار الحق نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ انگریزی اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں بھی ایم اے کیا ہے۔ انھوں نے بہت سے غیر ملکیوں کو اردو اور ہندی میں بول چال کی صلاحیت پیدا کرنے میں ان کی مدد کی ہے اور اس وقت وہ ڈائنمک ٹریننگ سروسز پرائیویٹ لمٹیڈ میں انگریزی زبان کے ٹرینر اور ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم جامعہ ملیہ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

The Long Wait(طویل انتظار) ریاست بہار کے ایک غریب گھرانے کی ایک پولیو زدہ خاتون رانی کی کہانی ہے جو زندگی میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے، خوشحال زندگی کے انتظار میں اور خاص طور پر اپنے اکلوتے بیٹے کو معاشرے میں ایک معزز مقام پر 

دیکھنے کی خواہش لیے ایک طویل انتظار کے ساتھ بالآخر ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہے۔ اس کا طویل انتظار اس کی موت کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ یہ ناول ایک روایتی اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ جس کے جلو میں معاشرتی ناہمواریوں، محرومیوں اور نامرادیوں، خاندانی رقابتوں، ناخواندگی کی کرم فرمائیوں اور اوسط تعلیم پانے والوں کی چالاکیوں کے مناظر بکھرے پڑے ہیں۔ ناول میں اہل ثروت کی پولیس کے ساتھ سازباز اور انسداد دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری اور فرضی مڈبھیڑ میں ہلاک کرنے کے جدید عہد کے سماجی مظالم کی جانب بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ 
ناول کے مرکزی کردار رانی کے والدین کو اس کی شادی کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ بالخصوص اس کا باپ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہے اور چودہ سال کی عمر میں اس کی شادی کر دیتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر جن ذہنی اذیتوں کی شکار بنتی ہے اس سے بھی زیادہ ذہنی و جسمانی اذیتیں اسے اپنی سسرال میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس کا شوہر رضا اس سے بہت محبت کرتا ہے۔ آپریشن کی مدد سے رانی کے ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ ایک پولیو زدہ خاتون کے لیے یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں ہوتی۔ رانی کی ساری توجہ اپنے اکلوتے بیٹے انس پر مرکوز ہو جاتی ہے اور وہ اسے پڑھا لکھا کر پروفیسر بنانا چاہتی ہے۔ انس اردو میں ایم اے کر لیتا ہے اور اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیتا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ اس کی ماں اسے پروفیسر بنتے ہوئے دیکھے اس کی موت ہو جاتی ہے۔

اس ناول میں کئی تلخ اور کڑوے حقائق ہیں۔ اس دور میں اردو سے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جن محرومیوں اور جھنجھلاہٹوں کا شکار ہونا پڑتا ہے وہ شائد ناول کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔ اس حوالے سے سماج میں پھیلی بے روزگاری کا بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں نچلے طبقے کے معاشرتی خد وخال کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کی صورت بھی نظر آتی ہے۔ ایک مسلم لڑکے (انس) کی شادی کے بعد اس کی بیوی کا استقبال ہندو عورتیں آرتی اتار کر کرتی ہیں۔ رضا کے والد کی راستے میں اچانک موت کے وقت جب کوئی مسلمان سامنے نہیں آتا تو ایک ہندو پنڈت نمودار ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں سمّان کے ساتھ ان کی میت لے کر ان کے گھر جاو ¿ں گا۔ اس میں مقامی زبانوں کے الفاظ اور خاص طور پر اردو کے الفاظ بھی جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ کھانے پینے کی مقامی اشیا کا بھی دیدار ہوتا ہے اور معاشی تنگ دستی کی وجہ سے معاشرتی تنگ نظری کس طرح سماج میں ابتری پیدا کرتی ہے اس جانب بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ 

اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر انوار الحق کو پلاٹ کے انتخاب اور کہانی کو آگے بڑھانے کا پورا پورا شعور ہے۔ انھوں نے کہیں بھی غیر ضروری جملوں کا استعمال نہیں کیا ہے۔ کہیں بھی زبان بوجھل نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کردار بے راہ روہوئے ہیں۔ ہر کردار اپنے آپ میں مکمل ہے اور اپنی زندگی جیتا ہے۔ رانی کی موت کے بعد اس کے شوہر کا ایک سال کے اندر دوسری شادی کر لینا سماجی ضرورتوں اور خاندانی تقاضوں کی تلخ سچائی کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ جن حالات میں رانی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے یا شادی کے بعد اس کے گھر والے جس طرح دوسری شادی کے لیے دباو ¿ ڈالتے ہیں اس کا بھی تقاضہ تھا کہ وہ دوسری شادی کر لیتا۔ رانی کے والد اور اس کے بڑے باپ کے درمیان زندگی بھر انتقامی جذبے کے تحت مقدمہ بازی چلتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا سب کچھ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ لیکن سب کچھ کھونے کے بعد جس طرح وہ اواخر عمری میں دیرینہ دشمنی بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں وہ اسی معاشرے میں ممکن ہے جس کو ناول کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ 

پسماندہ اور نچلے طبقے میں شادی بیاہ کے مواقع پر کس طرح کی سماجی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں اس کی بھی کامیابی کے ساتھ عکاسی کی گئی ہے۔ 

اس ناول میں سچی حقیقتوں کو افسانوی تانے بانے میں بنا گیا ہے۔ ناول کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ا س میں رانی کا کردار خود ناول نگار کی والدہ اور انس کا کرداد اس کا اپنا ہے۔ جو لوگ ڈاکٹر انوار الحق سے واقف ہیں وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس سچائی کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے بین السطور میں ناول نگار کا اردو بیک گراونڈ اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے جس کا مشاہدہ جا بجا آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اس ناول کی زبان اور مقامی بولیوں، کھانوں اور رسوم و رواج کو ان کے اپنے اصل نام کے ساتھ لکھنے اور انگریزی میں اس کا ترجمہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ناول ان لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے جو ہندوستان کے ایک مخصوص کلچر اور ثقافت سے ناآشنا ہیں۔ ناول کے توسط سے اس کلچر کو انگریزی حلقے میں روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ زبان میں ادبیت نہ ہونے کے باوجود ناول کی موضوعاتی اور فنی و تکنیکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انوار الحق نے جس جگہ لے جا کر کہانی کو ختم کیا ہے وہ اپنی جگہ بالکل مناسب اور مکمل ہے۔ انس اپنی ماں کے انتقال کے بعد کسی جگہ سے گزر رہا ہے اور اس کی نگاہ ایک بورڈ پر پڑتی ہے جس پر لکھا ہے ”دو بوند زندگی کی“۔ اور وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔

ناول کے نام کی مناسبت سے اس میں کئی کردار ایسے ہیں جنھیں طویل انتظار کی اذیتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اصل انتظار رانی کرتی ہے اور پھر بھی اپنی حسرتوں کے ساتھ اس دنیا سے چلی جاتی ہے۔ انوار الحق نے اس ناول کے توسط سے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے اس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہیں۔ یہ پیغام پولیو ، ناخواندگی، غربت و تنگ دستی، سماجی اونچ نیچ اور اپنی جھوٹی شان اور انا کے خلاف جہاد ہے۔ انوار الحق نے کہیں کھل کر تو کہیں اشاروں میں یہ پیغام قاری تک پہنچایا ہے۔ امید ہے کہ وہ اسے پسند کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انوار الحق سے یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے عصری مسائل کو اپنی کہانیوں کا پلاٹ بنائیں گے اور اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ان کے لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس ناول کی ضخامت 154صفحات ہے۔ کتاب پر قیمت درج نہیں ہے۔ ڈاکٹر انوارالحق سے

anwar.ra.jmi@gmail.comپر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com-9818195929-9582078862 


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 672