donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   BJP, RSS Ke Shikanje Me Kasti Ja Rahi Hai


 بی جے پی ، آر ایس ایس کے شکنجے میں کستی جارہی ہے


کیا سنگھ اب پارٹی کا استعمال اپنے ایجنڈے کو نافذکرنے کے لئے کرے گا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


آر ایس ایس کے پرچارکوں کا بی جے پی میں دن بہ دن قد بڑھتا جارہا ہے اور وہ پارٹی کے سیاہ وسفید پر حاوی ہوتے جارہے ہیں۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پارٹی میں اس کی سرگرمیاں اور بڑھ گئی ہیں جو ملک کے حق میں ٹھیک نہیں ہیں۔

    ۸۰۰ سال بعد دلی میں ایک ہندتو وادی سرکار بنی جس کی قیادت نریندر مودی کر رہے ہیں، یہ کیسے ممکن ہوا؟ کیا یہ صرف موجودہ جمہوری سسٹم کے نتیجے میں ہوا؟ ملک کے عوام نے اس سرکار کا انتخاب کیونکر کیا؟ انھیں کس بات نے بی جے پی کی سرکار لانے کی طرف راغب کیا؟ جنتا نے اگر کانگریس کو مسترد کیا تو دوسری جماعتوں کو کیوں نہیں چنا؟ ان تما م سوالوں کا جواب پوشیدہ ہے آر ایس ایس کی جدو جہد کی تاریخ میں جس کے رضا کاروں نے مسلسل ۹۰سال تک تن من دھن کی بازی لگا دی۔ اس کے لئے انھیں بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں اور اپنی خوشیوں کا تیاگ کرنا پڑا۔ ایک طرف جہاں ہر انسان ایک پرمسرت زندگی جینا چاہتا ہے اور اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے وہیں آر ایس ایس کے لوگوں نے عام زندگی سے خود کو دور کرلیا اور سنگھ کے لئے خود کو وقف کئے رکھا۔ سنگھ ایک نظریاتی جماعت ہے جس کے رضا کار ایک خاص نظریے کے لئے وقف ہیں۔ جب سب لوگ صبح کے وقت اپنے نرم ملائم بستر میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں سنگھ کے رضا کار کسی میدان میں جمع ہوکر ورزش میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہ شاکھائیں محض جسمانی ورزش کے لئے نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کی آڑ میں رضاکاروںکی ذہنی ورزش بھی ہوتی رہتی ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ لوگ سامنے آتے ہیں جو ملک کا مستقبل بن جاتے ہیں۔ سنگھ چیف موہن بھاگوت نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ’’ آر ایس ایس کی شاکھائوں میں وزیر اعظم تربیت پاتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی یہیں کے تربیت یافتہ ہیں۔ ‘‘ بھاگوت کی اس بات میں کوئی کلام نہیں۔

    زندگی میں کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے اور اگر آر ایس ایس کے طریقۂ کار پر غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں انھوں نے بہت کچھ گنوایا ہے تب اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے لئے کام کرنے والے اکثر وبیشتر شادیاں نہیں کرتے ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ اپنے نظریے کے لئے کام کرسکیں۔ ایسے لوگوں کو عموماً سنگھ کا پرچارک بنا دیا جاتا ہے۔ یہ پرچارک ہی سنگھ کی ذیلی تنظیموں کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اور انھیں سنگھی نظریے کے تحت کام کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ۲۵ سوسے زیادہ ایسے پرچارک ہیں جو اپنے مقصد کو ھاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان میں کوئی بی جے پی کے اندر کام کر رہا ہے تو کوئی اس کی طلبہ ونگ اے بی وی پی کے لئے کام کرہا ہے۔ کوئی یوتھ ونگ میں ہے تو کوئی مزدور ونگ میں کام کر رہا ہے۔ کسی نے آدیباسیوں کے سنگٹھن میں خود کو لگا رکھا ہے تو کوئی تعلیمی میدان میں کام کرنے والی جماعت میں خود کو فٹ کر رکھا ہے۔ اصل میں یہ پرچارک ہی اس کی طاقت ہیں اور انھیں کے سبب اتنی بڑی جماعت کامیابی کے ساتھ چلتی ہے۔یہ لوگ زمینی سطح پر کام کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی سطح تک جاسکتے ہیں۔آج جب مرکزمیں سنگھ کو اقتدار ہاتھ لگا ہے تو اس کے پرچارکوں کا قد بھی بڑھا ہے اور بہت سے گمنام لوگ میڈیا کے ذریعے عوام کی نظر میں آنے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ پہلے بھی کام کرتے تھے اور آج بھی کررہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی تھے جو کام کرتے کرتے مر گئے مگر انھیں ہائی لائٹ ہونے کا موقع نہیں ملا۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی سنگھ کے پرچارک تھے اور بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی پرچارک تھے۔ اٹل بہاری واجپائی بھی پرچارک تھے اور لعل کرشن اڈوانی بھی پرچارک تھے۔ آج ایسے پرچارکوں کی بھی کمی نہیں جو بی جے پی کے تنظیمی کام میں لگے ہیں اور اسے مضبوط کر رہے ہیں، ایسے لوگوں کو سنگٹھن منتری کہا جاتا ہے اور ایسے پرچارکوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو مرکز یا ریاستوں میں وزیر بنے بیٹھے ہیں۔

پرچارکوں کا بڑھتا قد

    اس وقت آرایس ایس کے جن موجودہ یا سابق پرچارکوں کا عروج ہے ان میں سب سے نمایا ں نام تو خود وزیر اعظم اور بی جے پی صدر کا ہے۔ میڈیا میں خبریں آرہی ہیں کہ کس طرح سے وزیر اعظم ملک و بیرون ملک میں سرگرم ہیں مگر کسی کو نہیں معلوم کہ ان کے پس پشت کون لوگ ہیں جو ان کی سرگرمیوں کو منظم کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں وزیر اعظم نے سارک ممالک کے اجلاس میں شرکت کی اور پہلے امریکہ کا دورہ کیا اس کے بعد آسٹریلیا وغیرہ گئے۔ بعض ملکوں کے ساتھ بھارت نے کچھ معاہدے بھی کئے۔ ان تمام دوروں کو آرگنائز کرنے کی ذمہ داری رام مادھو کی تھی جو ابھی حال تک آر ایس ایس کے اندر سرگرم تھے مگر انھیں چند مہینے قبل بی جے پی کے اندر منتقل کردیا گیا ہے۔ وہ ایک طرح سے سنگھ پریوار اور حکومت کے بیچ پل کا کام کرتے رہے ہیں مگر اب بی جے پی کے جنرل سکریٹری ہیں۔ وہ جب تک آر ایس ایس میں تھے تب تک اس کی طرف سے میڈیا سے بھی بات کرتے تھے۔ انھوں نے سنگھ کے اندر نریندر مودی کی حمایت کی تھی اور انھیں وزیر اعظم کا امیدوار بنانے کے لئے کام کیا تھا۔ نیویارک اور سڈنی میں جو وزیر اعظم کی پذیرائی دیکھی گئی اور اس کا میڈیا میں خوب خوب پرچار کیا گیا۔ اس کے لئے اسٹیج تیار کرنے کام کام رام مادھو نے کیا تھا۔

    ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لعل کھٹرکا نام وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے تک عام لوگوں کی جانکاری میں نہیں تھا۔ وہ بھی آر ایس ایس پرچارک تھے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست تھے۔ انھیں بھی سنگھ نے ہریانہ بی جے پی کا سنگٹھن منتری بنا دیا تھا۔ پہلے انھوں نے تنظیمی کام کیا اور جب پارٹی کو انتخاب میں اکثریت ملی تو وہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے۔

    مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا آر ایس ایس پس منظر کے ہیں۔ انھوں نے اے بی وی پی کے لئے کام کیا، اس کے بعد پارٹی کے جنرل سکریٹری بنا دیئے گئے۔ انھوں تین صدور کے عہد میں کام کیا۔جن میں نتن گڈکری، راجناتھ سنگھ اور امت شاہ شامل ہیں۔ انھیں حالیہ مہاراشٹر الیکشن میں بھی کچھ اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

    او پی ماتھر آر ایس ایس پرچارک تھے۔ پھر انھیں راجستھان میں سنگٹھن منتری بنا کر بھیجا گیا جہان انھوں نے پارٹی کے لئے کام کیا اور یہاں سرکار بنی۔ مہاراشٹر میں بھی انھیں الیکشن کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور پارٹی کوجیت حاصل ہوئی۔ اب انھیں اترپردیش کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں جہاں وہ کام کر رہے ہیں۔ یہاں ۲۰۱۷ء میں چنائو ہے اور ان کا ٹارگیٹ ہے یہاں بی جے پی کو اقتدار میں لانا۔

    مرکزی وزیر پٹرولیم دھرمیندر پردھان کی ابتدا بھی سنگھ سے ہوئی ہے۔ انھوں نے اڈیشہ میںاے بی وی پی کے سہہ سنگٹھن منتری کے طور پر کام کیا، اس کے بعد پارٹی جنرل سکریٹری بنا دیئے گئے۔ اب وہ مرکز میں وزیر ہیں اور وزیر اعظم کے خواب’’ سستے پٹرول‘‘ کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

    سنیل بنسل کو ان دنوں بی جے پی میں خاصی توجہ مل رہی ہے۔ وہ حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں طلبہ لیڈر ہوا کرتے تھے مگر دھیرے دھیرے انھوں نے پہلے آر ایس ایس اور پھر بی جے پی میں اپنی جگہ بنائی۔ ان دنوں وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ کے قابل اعتماد لوگوں میں شامل ہیں۔ انھیں مہاراشٹر کے انتخابات میں لگایا گیا تھا مگر اب پارٹی نے انھیں اترپردیش اسمبلی انتخابات کے لئے حکمت عملی بنانے اورجیت کا راستہ ہموار کرنے پر لگا رکھا ہے۔

جن کی کوششیں رنگ لائیں

    بی جے پی کے اندر ماضی میں بھی آر ایس ایس کے لوگ سرگرم رہے ہیں اور انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آ ج اسے اقتدار حاصل ہوا ہے۔ ان میں سب سے اہم نام پنڈت دین دیال اپادھیائے کا لیا جاسکتا ہے جو آر ایس ایس سے جن سنگھ میں آئے۔ وہ شیاما پرساد مکھرجی کے قریبی تھے اور انھیں لوگوں کی کوششوں سے جن سنگھ کھڑا ہو اتھا۔ ایسے لوگوں میں ایک نام ناناجی دیش مکھ کا بھی ہے جنھوں جن سنگھ میں اہم کردار نبھایا تھا اور جن سنگھ کے جنتا پارٹی میں انضمام تک وہ اس کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد سیاست سے الگ ہوگئے۔  

    جگن ناتھ رائو جوشی بھی آر ایس ایس پرچارک تھے جنھوں نے گوا کی آزادی میں اہم رول نبھایا تھا۔ وہ جن سنگھ سے لے کر بی جے پی تک سرگرم رہے۔ ایسے ہی تھے کشا بھائو ٹھاکرے جو پہلے پرچارک تھے پھر جن سنگھ میں آئے اور سنگٹھن منتری بنے ۔ جب بی جے پی قائم ہوئی تو بی جے پی میں آگئے اور ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کے صدر ہوئے۔ کچھ اسی قسم کا سندر سنگھ بھنداری کا سفر بھی رہا جو جنھوں نے جن سنگھ اور بی جے پی دونوں میں وقت بتایا اور کام کیا۔ وہ بی جے پی کے نائب صدر ہوئے۔ انھیں اٹل بہاری واجپائی سرکار کے دور میں بہار اور گجرات کو گورنر بھی بنایا گیا۔کیلاش پتی مشرا بھی پرچارک تھے جنھوں نے بہار میں بھگوا سیاست کے لئے ماحول تیار کیا۔

پرچارک جو، اب بی جے پی میں نہیں ہیں

    آر ایس ایس کے ورکر نظریاتی اعتبار سے اس سے جڑے ہوتے ہیں ،اسی لئے اس سے الگ ہونے کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔ ان کی زندگی اسی نظریے کو پھیلانے اور اسے نافذ کرنے میں گزر جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ سنگھ کے تربیت یافتہ لوگ اس سے دور ہوئے ہوں۔ کے وی گوند آچاریہ ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں جو سنگھ سے دور ہوگئے۔ وہ پرچارک تھے اور پھر بی جے پی میں کام کرنے کے لئے انھیں بھیج دیا گیا۔ مشکل اوقات میں وہ پارٹی کے اندر کام کرتے رہے۔ رام مندر تحریک کے دوران وہ سرگرم رہے اور جن لوگون کی کوششوں سے مرکز میں پہلی بی جے پی سرکار قائم ہوئی ان میں وہ بھی شامل تھے۔ کسی زمانے میں وہ اومابھارتی کے ساتھ شادی کرکے گھر بسانے کا سپنا بھی دیکھ رہے تھے مگر یہ خواب ادھورا رہا۔ اب وہ پارٹی میں سرگرم نہیں ہیں اور گوشہ نشیں ہوچکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سنجے جوشی کا بھی ہے جو آر ایس ایس پرچارک تھے، اس کے بعد سنگٹھن منتری کے طور پر بی جے پی سے وابستہ ہوئے۔ لعل کرشن اڈوانی نے اپنے پاکستان دورے کے دوران جو محمد علی جناح کو سیکولر کہا تھا،اس ریمارک کو واپس لینے پر سنجے جوشی نے ہی مجبور کیا تھا۔ انھوں نے گجرات میں بی جے پی کو کھڑا کیا اور اقتدار تک پہنچایا۔ مگر وہ ایک سیکس اسکنڈل میں ملوث پائے گئے جو میڈیا میں آگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا کرئیر خراب کرنے کے لئے نریندر مودی نے اسے میڈیا تک پہنچا دیا تھا کیونکہ مودی کو ان سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔جوشی اب بی جے پی میں نہیں ہیں۔  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 542