donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bihar Ko Firqa Warana Fasad Se Bachaiye


بہار کو فرقہ وارانہ فسادات سے بچائیے


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    بہار میں فرقہ وارانہ دنگے ہونے والے ہیں؟کیا یہاں ایک اور بھاگل پور کی تیاری چل رہی ہے؟ کیا اب فرقہ پرستوں کی نظر بہار کے امن وامان پر ہے؟ کیا ریاست کے پرسکون ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا بہار کو آگ لگانے کا وہی پرانا کھیل کھیلا جانے والا ہے جو کبھی گجرات میں کھیلا گیا تھا؟ کیا یہاں اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کرنے کی تیاری ہے؟ کیا بہار اسمبلی انتخابات سے قبل یہاں خون کی ندیاں بہانے کا انتظام کیا جارہا ہے؟اگر ایسی سازش چل رہی ہے تو یہ بہار کے مسلمان ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کے لئے بھی بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔بہار میں گزشتہ ۲۶برسوں میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا ہے اور یہاں کی فضا فرقہ وارانہ طور پر اچھی رہی ہے مگر اب جس قسم کی رپورٹیں آرہی ہیں ان سے ظاہرہے کہ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کہیں بھی چھوٹی سی بات کو لے کر جھگڑا ہوسکتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ یہاں کسی بھی عبادت گاہ میں غلاظت یا مردار جانور پھینک کر جذبات بھڑکائے جاسکتے ہیں اور ماحول خراب کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میںایک رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق جب سے یہاں جنتادل (یو )اور بی جے پی کا اتحاد ٹوٹا ہے ،فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں دانستہ طور پر فضا خراب کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ حکومت کی امیج بگاڑی جاسکے اور عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرکے ان کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ بہاری سماج میں ذات پات کی تقسیم بہت زیادہ ہے جسے توڑنے کے لئے بھی مذہبی تقسیم کی ضرورت فرقہ پرست طاقتیں محسوس کر رہی ہیں۔اسی کے ساتھ یہاں یادو اور مسلم آج بھی متحد ہوکر لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کو ووٹ کرتے ہیں اور اسے توڑنے کے لئے دونوں گروہوں کے بیچ کسی تنازعہ کو ہوا دینے کی کوشش جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں بہار کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔الیکشن سے قبل ہی دسہرہ ، درگا پوجااور محرم ہیں اور اندر کی خبروں کے مطابق ان مواقع کا استعمال فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے لئے ہوسکتا ہے۔    

دنگوں کے واقعات میں اضافہ

    بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے الگ ہونے کے بعد سے ریاست کی سیاسی تصویر میں تبدیلی ہوئی ہے، اور سماجی حالات بھی خاصے بدل گئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان علیحدگی کے بعد سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھی ہے۔ 2010 سے 2013 کے دوران بہار میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے کل 226 واقعات ہوئے تھے۔بہار میں جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان علیحدگی کے بعد سے اس میں کافی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ تقریبا دو سال میں اب تک 667 فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہو چکے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ایسے زیادہ تر جھگڑے جانوروں کو دفن کرنے، نعرے بازی اور مورتیوں کے وسرجن کے دوران اعتراض کی وجہ سے ہوئے۔۳۸اضلاع کے پولیس تھانوں کے ریکارڈ کے مطابق 18 اضلاع میں یہ واقعات سب سے زیادہ (70 فیصد) ہوئے۔دونوں فرقوں کے درمیان زیادہ تر جھگڑے مسجد کے پاس مردہ جانور کو پھینکنے، نعرے بازی کرنے وغیرہ کی وجہ سے ہوئے۔ یہاں تک کہ کرکٹ میچ کے دوران گیند لگنے کے واقعہ نے بھی کئی مرتبہ تشدد کی شکل لے لی اور دونوں فرقوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اوپری طور پر اگرچہ ماحول کسی ایک پارٹی کے حق میں نہ دکھائی دے رہا ہو، لیکن صوبے میں ووٹر فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی بنیاد پر ووٹ دے سکتے ہیں اور انھیں فرقہ کے نام پر بانٹنے کی کوشش دانستہ طور پر ہورہی ہے۔

کہاں کہاں ہوئے تشدد کے واقعات؟

    جون 2010 سے 2103 تک گیا میں 21، مظفر پور میں 6، بیتیا میں 11، سیوان میں 20، دربھنگہ میں 10، پٹنہ میں 16، سیتامڑھی میں 10، نوادہ میں 8، نالندہ میں 5، روہتاس میں 9 واقعات ہوئے تھے ،وہیں جب ہم بعد کے سالوں میں ہوئے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں زبردست اضافہ نظر آتا ہے۔ جون 2013-15 کے درمیان میں گیا میں 39، مظفر پور میں 35، بیتیا میں 33، سیوان میں 33، دربھنگہ میں 32، پٹنہ میں 31، سیتامڑھی میں 29، نوادہ میں 28، نالندہ میں 22 ، روہتاس میں 21 واقعات پیش آئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ تمام وہ اضلاع ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے اور مسلمان وہندو مل جل کر رہتے ہیں۔ یہاں اگر کوئی ہندو الیکشن جیتتا ہے تو اس میں مسلمانوں کا بھی یوگدان ہوتا ہے اور اگر کوئی مسلمان انتخاب میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ ہندووں کے ووٹ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ قومی یکجہتی اور فرقہ ورانہ بھائی چارہ کو توڑنے کے مقصد سے کیا جارہا ہے۔

یادو ۔مسلم ووٹ کے بکھرائو سے امید

    بہار میں لالوپرساد یادو نے پندرہ سال تک حکومت کی اور مرکز میں بھی ان کا عمل دخل رہا ۔ اس کا بڑا سبب تھا مسلم یادو اتحاد۔ اس وقت این ڈی اے کسی بھی حال میں اس اتحاد کو توڑنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اگر مسلمانوں اور یادووں میں دنگا کرادیاجائے تو کسی کو اچنبھا نہیں ہونا چاہئے۔ مغربی اترپردیش میں چودھری اجیت سنگھ کی قوت کو ختم کرنے کے لئے ہی مظفرنگر میں مسلمان اور جاٹ دنگا کریا گیا تھا۔ اب بہار میں بھگواجماعتیں اسی کے سہارے میدان مارنے کی تاک میں ہیں ۔ بہار میں JDU، RJD اور کانگریس کے مہاگٹھبندھن کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں سخت مقابلے کا سامنا کر رہی BJP کی قیادت والی NDA مسلم یادو ووٹوں کی تقسیم پر نظریں لگائے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ترقی کے ایجنڈے اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کو بھی بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس سلسلے میں بی جے پی اگرچہ خاموشی کے ساتھ اپنی بساطیں بچھا رہی ہے مگر حال ہی میں مرکزی وزیر اور ایل جے پی لیڈر رام ولاس پاسوان کی زبان پر یہ بات آگئی۔ انھیں یقین ہے کہ بہار میں یادو اور مسلمان اتحاد ٹوٹے گا اور اس سے این ڈی اے کو فائدہ ہوگا۔ وہ اویسی فیکٹر سے بھی پر امید ہیں اور انھیں لگتاہے کہ چونکہ لالو اور نتیش کے راج میں مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں ہوا ہے لہٰذا اس بار مسلمان لالو اور نتیش اتحاد کو نہیں بلکہ اسدالدین اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم کو ووٹ دیںگے ۔ پاسوان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ، بہار کے وزیر اعلی ریاست میں RJD چیف لالو پرساد کے ساتھ اتحاد کرنے کے داغ کو دھونے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ AAP رہنما اروند کجریوال کی نوجوان اپیل دہلی سے آگے نہیں ہے۔پاسوان نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ BJP کی قیادت والی NDA کا مسلم-یادو ووٹ بینک میں کم دخل ہے۔ مرکزی وزیر نے اپنے مخالفین کے ان الزامات کو بھی سرے سے مسترد کر دیا کہ AIMIM چیف اسد الدین اویسی NDA کی شہ پر بہار انتخابات میں اتر رہے ہیں ساتھ ہی کہا کہ حیدرآباد کے ایم پی یقینی طور سے مسلم ووٹوں کو متاثر کریں گے اور مہاگٹھبندھن کے لئے مسلم یادو ووٹ کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔انہوں نے کہا، لالو اور نتیش نے اب تک بہار میں مسلمانوں کا استعمال صرف ووٹ بینک کے طور پر کیا ہے۔پاسوان نے کہا، 'MY (مسلم یادو) اتحاد اس بار ٹوٹ رہا ہے۔ یادو مکمل طور پر لالو کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ BJP میں بھی رام کرپال یادو، نند کشور یادو جیسے یادو لیڈر ہیں۔ یادوں کے کئی لیڈر ہیں اور BJP کو ان کا کافی ووٹ مل جائے گا۔LJP سربراہ نے کہا، لالو پرساد کی پارٹی کے 15 سال کی حکمرانی اور نتیش کے 10 سال کی حکمرانی میں مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اس پس منظر میں سیمانچل کے علاقے میں اویسی کے جلسوں میں بھیڑ آ رہی ہے۔

نتیش کا امتحان

    بہرحال جہاں ایک طرف این ڈی اے کی نظر بہار کے روایتی اتحاد کو توڑنے پر لگی ہوئی ہے وہیں دوسری طرف فرقہ وارانہ تشدد کے تازہ اعداد وشمار سامنے آئے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں فرقہ وارانہ اشتعال کے واقعات بڑھے ہیں اور جن ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہوئے ہیں ان میں بہار بھی شامل ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جے ڈی یو کی حکومت کے دوران بہار میںجنوری سے جون 2015 تک فرقہ وارانہ تشدد کے 41 واقعات پیش آئے جن میں 14 لوگوں کی جان گئی اور 169 زخمی ہو گئے۔ یہ رپورٹ اس سے مختلف ہے جس کو انڈین اکسپریس نے چھاپی ہے۔ظاہر ہے کہ آنے والے چند مہینے بہار پر بھاری پڑسکتے ہیں اور ان میں نتیش سرکار کا بھی امتحان ہونے والا ہے۔ اگر فرقہ پرستوں کی چال کامیاب ہوگئی تو پھر نتیش کا راج پاٹ جانا طے ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 513