donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Duniya Ki Sabse Zeyada Mazloom Aqliyat , Ruhangiya Musalman


دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت ،روہنگیا مسلمان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ’’کیا یوروپ کا کوئی ملک ایسے شخص کو قبول کرسکتا ہے جو دودو بیویاں رکھنے کا حق چاہتا ہو؟کیا دنیا کا کوئی ملک اسے پسند کرے گا کہ ملک کے بعض شہریوں کے لئے الگ قوانین ہوں؟اگر نہیں تو ہم کیسے قبول کرلیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے الگ قانون ہوں؟‘‘یہ کہنا ہے  میانمار کے ایک سرکاری افسر کا،جو روہنگیا مسلمانوں کو مسئلہ مانتا ہے اور یہ صرف اس کا اپنا خیال نہیں بلکہ میانمارحکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔یہاں کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری نہیں مانتی ہے اور یہاں کے مقامی بدھسٹوں میں ان کے خلاف سخت نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جمہوریت کی سب سے بڑی حامی آنگ سانگ سوکی بھی ان پریشان حال مظلوم مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔ ان غریب اور بے سہارا مسلمانوں کے سامنے نہ تو الگ قانون کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی دوبیویاں کا رکھنے کا،ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بس زندہ رہنے کا حق ہے۔میانمار یا برما کی حکومت ان پر طرح طرح کے الزامات رکھ رہی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ صدیوں سے یہاں رہ رہے مسلمان آج تک شہریت کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ان کا قتل کرنے کے خلاف کسی قسم کی دادوفریاد نہیں ہوسکتی۔ ان کے گھر لوٹنے اور جلانے کے خلاف حکومت کوئی قدم نہیں اٹھاتی اور ان کی خواتین کے ساتھ ریپ کرنے والوں کو روکنے کے لئے پولس آگے نہیں آتی۔ آج یہ دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت ہیں اور ان کا مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔دنیا کا کوئی بھی ملک انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اقوام متحدہ بھی برما کی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ

    روہنگیا مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ دس لاکھ ہے جو برما میں صدیوں سے رہتے آئے ہیں، لیکن برما کے لوگ اور وہاں کی حکومت ان لوگوں کو اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں۔ ان بے زمین روہنگیا لوگوں کو میانمار میں شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی سبب ہے کہ یہ لوگ بڑی تعدادمیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحد پر واقع پناہ گزین کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔روہنگیامسلمان اراکان کے رہنے والے ہیں جو میانمار کی مغربی سرحد پر ہے اور یہ آج کے بنگلہ دیش (جو کہ ماضی میں بنگال کا ایک حصہ تھا) کی سر حد کے پاس ہے۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 1400ء کے ارد گرد یہ لوگ برما کے اراکان صوبے میں آکر بس گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ 1430ء میں مقامی راجہ کے دربار میں ملازم ہوگئے تھے۔ اس راجہ نے مسلم مشیروں اور درباریوں کو اپنے دارالحکومت میں پناہ دیا تھا۔یہاں کے راج دربار پر مغل بادشاہوں کا خاص اثر تھا اور یہاں عہدے ومناصب اسی طرح کے ہوتے تھے جس طرح مغل درباروں میں۔

    جنوری سال 1948 میں برما آزاد ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سال 1948 میں کچھ روہنگیا مسلمانوں نے اراکان کو ایک مسلم ملک بنانے کے لئے مسلح جدوجہد شروع کی۔ سال 1962 میں جنرل نی ونگ کی فوجی انقلاب تک یہ تحریک بہت فعال تھی۔ جنرل نی ونگ کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف وسیع سطح پر فوجی کارروائی کی جس کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمانوں نے موجودہ بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے بعد میں کراچی کا رخ کیا اور ان لوگوں نے پاکستان کی شہریت لے کر پاکستان کو اپنا ملک مان لیا۔ ملائیشیا میں بھی پچیس سے تیس ہزار روہنگیا مسلمان چلے گئے تھے۔ برما کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے بعد ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کر لی ہے اور ملک میں جمہوریت کی بیل پڑ گئی ہے۔ سال 2012 کے انتخابات میں جمہوریت کی سب سے بڑی حامی آن سانگ سو کی کی پارٹی کی کامیابی کے باوجود روہنگیا مسلمانوں کے لئے شہریت کے دروازے بند ہیں اور ان پر مسلسل ظلم جاری ہے جو جمہوریت کے بارے میں سو کی کے بیانات سے مکمل طور پرمتضاد ہے۔

دنیا کا سب سے پریشان حال طبقہ

     اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیںروہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے پریشان حال کمیونیٹی مانتی ہیں۔وہاں ان لوگوں کو نہ زمین جائیداد خریدنے کا حق ہے، اور نہ ہی پڑھنے لکھنے کا۔ان کے آنے جانے پر بھی کئی طرح کی پابندیاں ہیں۔یہ مقامی لوگوں اور وہاں کی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر بڑی تعداد میں برما چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔زیادہ تر روہنگیا ملیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں، لیکن پناہ کی تلاش میں آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ بھارت بھی آئے ہیں۔وہ کشتیوں پر سوار ہوکر سمندر میں نکل جاتے ہیں، لیکن کوئی بھی ملک ان کو لینے کو تیار نہیں ہے۔ایسے میں ہزاروں لوگ سمندر میں پھنسے رہتے ہیں۔بارہا ان کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں، کچھ بیماریوں کی نذر جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں میں پڑ جاتے ہیں۔تھائی لینڈ میں ان کی عورتوں کے ساتھ ’’جنسی غلام‘‘ جیسا برتائو عام ہے۔بہت سے لوگ یہ سوچ کر ملائیشیا اور انڈونیشیا کا رخ کرتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ملک ہونے کے ناطے وہاں انہیں پناہ ملے گی، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ہی ملک روہنگیوں سے ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن انہیں اپنے یہاں پناہ دینا نہیں چاہتے۔انہیں ڈر ہے کہ پناہ دی تو اور ہزاروں لوگوں کو بھی آنے کی حوصلہ افزائی ہوگی، جس کا اثر ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ سماجی تانے بانے پر بھی پڑے گا۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سال میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیوں نے کشتیوں پر سوار ہوکر برما چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔

بھارت بھی آئے روہنگیا مسلمان

    جو روہنگیا میانمار چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جارہے ہیں ان میں سے کچھ بھارت بھی آئے ہیں اور یہاں جھگیاں بناکر رہ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اسی حالت میں خوش ہیں کہ ان کی جان محفوظ ہے۔ یواین ایچ سی آر کی دہلی میں موجود ترجمان شچتا مہتا کہتی ہیں، ہمارے پاس اپریل 2015 کے اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق8,330روہنگیا پناہ گزین ہندوستان میں ہیں اور ان میں سے 2360 لوگوں نے ہندوستان میں پناہ کے لئے درخواست کی ہے۔ یہ لوگ دہلی کے علاوہ، جموں، ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور آندھرا پردیش میں الگ الگ جگہوں پر رہ رہے ہیں۔شچتا مہتا کہتی ہیں کہ ہندوستان میں رہ رہے روہنگیوں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے کیونکہ محدود تعلیم کے ساتھ یہ لوگ خود کو ایک غیر ملکی شہری ماحول میں پاتے ہیں۔ان کے مطابق یہاں رہنے والے زیادہ تر روہنگیا دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور کبھی کبھی ان کااستحصال بھی ہوتا ہے، مثلا مکمل محنتانہ نہیں دیئے جانے کی بھی شکایتیں ملتی ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کا اسکول میں داخلہ نہ ہونا اور رہنے کی مستقل جگہ نہ ہونے جیسی مسائل کا سامنا بھی یہ لوگ کر رہے ہیں، پھر بھی وہ اپنی زندگی سکون میں بتاتے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے سر پر دہشت گردی کی تلوار

    بھارت میں رہ رہے پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے یہاں بھی سرکاری اور غیرسرکاری طور پر سازش چل رہی ہے جس کا اہم حصہ وہ خبر ہے جو ابھی پچھلے دنوں میڈیا میں آئی تھی۔ ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں لہٰذا ان پرسخت نظر رکھی جائے اور ان کی نگرانی کی جائے۔ظاہر ہے ایسے غریب اور مفلوک الحال افراد جو روزمرہ ضرورتوں کے لئے مزدوری کرتے ہوں اور ان کی عورتیں گھروں میں نوکرانیوں کے کام کرتی ہوں ،ان کی طرف سے کسی دہشت گردی کے خطرے کا امکان،مفروضہ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا مگر حکومت کو ان کی جانب متوجہ کرنے کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنے اور انھیں بھارت آنے سے روکنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔  

جائیں تو جائیں کہاں؟

     روہنگیا مسلمانوں کے علاوہ شاید دنیا کا کوئی بھی اقلیتی طبقہ اس عجیب وغریب صورت حال کا شکار نہیں ہواکہ جس ملک میں وہ صدیوں سے آباد ہے، وہ انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے اور بنیادی حق دینے کو تیار نہیں ہے بلکہ نسلی طور پر ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ میانمار کے صدر کا کہنا ہے کہ ہم اپنی ہی ذات کے لوگوں کی ذمہ داری لے سکتے ہیں لیکن اپنے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی ذمہ داری قبول کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے جو ہماری برادری سے تعلق نہیں رکھتے۔یہ بیان انہوں نے کچھ دن قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نوی پللہ کے اس بیان کے جواب میں دیا جو انہوں نے اکثریتی آبادی کے ہاتھوں قتل عام اور لوٹ مار کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لینے کے بعددیا تھا۔ نسانی حقوق کی کمشنر کی خدشات کے جواب میں صدرمیانمارنے دس لاکھ مسلمانوں کے مسئلے کا حل یہ پیش کیا کہ اگر کوئی تیسرا ملک ان کو قبول کرے تو میں انہیں وہاں بھیج دوں گا۔

    راکھین صوبے کے وزیر اعلیٰ مائونگ مائونگ اوہن روہنگیا کے مسئلے سے سرے سے انکار کردیتے ہیں۔ جو لوگ کشتیوں میں سوار ہوکر دوسرے ملکوں کو جارہے ہیں، انھیں وہ بنگلہ دیشی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب انسان ہیں اور روہنگیا بھی یہاں رہ سکتے ہیں مگر ہم ان کو الگ پہچان نہیں دے سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو سرکاری طور پر ’’روہنگیا‘‘کی پہچان ملے مگر ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے ملک میں دوسرے طبقات بھی اپنی الگ شناخت کے لئے آواز اٹھائینگے۔حالانکہ روہنگیا مسلمانوں کا الزام ہے کہ حکومت ان کی حفاظت کی ذمہ داری تک قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور ان کی کسی قسم کی دادوفریاد نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 569