donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Islam Ne Jang Par Sulah Ko Tarjeeh Di Hai


اسلام نے جنگ پر صلح کو ترجیح دی ہے


مسلمان کی پہچان دہشت نہیں محبت ہو


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


اسلام صلح اورسلامتی کے ہم معنی ہے۔لفظ اسلام ’’سلم‘‘ اور ’’سلام ‘‘ سے مشتق مانا جاتا ہے جس کامفہوم صلح اور سلامتی ہے۔یہ جہاں ایک طرف امن وامان سے رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بہتر برتائو کا حکم دیتا ہے، وہیں اگر مجبوری میں اپنے دفاع کے لئے جنگ کی ضرورت پیش آئے تو بھی یہ اعتدال کے ساتھ ہی جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن مجید میںہے:’’اے ایمان والو! اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ ، اور شیطانی اقدامات کی اتباع نہ کرو کیونکہ شیطان تمھارا کھلا ہوا دشمن ھے۔‘‘ لیکن اس نکتہ کی جانب توجہ چاہئے کہ بعض انسانوں نے سرکشی ، بغاوت اور ظلم و جور کے راستے کا انتخاب کیا ، اس طرح وہ اسلام کے دائرہ اعتدال سے نکل گئے۔اسلام میں پوری طرح داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظلم وجبر کو چھوڑ کر صلح وامن کی جانب پیش قدمی کی جائے۔زندگی کے ہر میدان میں اسلام کے معتدل دستور کو اپنا لیا جائے۔دین اسلام میں جنگی جذبات ، جھگڑے اورکشور کشائی کی نفی کی گئی ہے۔البتہ اگر دفاع کی ضرورت پڑے تو لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اور اسی کو ’جہاد‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اسلام ایک ایسا دین ہے جو دنیاکی ہدایت اوررہنمائی کے لئے آیا ہے، مگر ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کے لئے بلند پایہ عالمی اہداف پر بھی کام کرتا ہے۔ چونکہ اسلام میں جہاد کشور کشائی اور ذاتی طاقت کو بڑھانے کیلئے واجب نھیں کیا گیا ہے اس لئے جہاد ایک آزادی بخش قدم ہے نہ کہ جنگ اور فساد کا حربہ۔ اس لئے اگر جہاد کے اھداف تک پہنچنا غیر فوجی طریقے سے میسرہو تو اس صورت میں فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ دنیا کے طاغوت اور مال و زر کے مالک افراد جن کی سرپرستی سرمایہ دارانہ نظام کرتا ہے، اپنے غلط اہداف تک پہنچنے میں حقیقی اسلام کو سب سے بڑی رکاوٹ جانتے ہیں۔یہی طبقہ ہے جو دنیا کے سامنے اسلام کی ایک خوفناک تصویر پیش کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

’’ اگر دشمن انصاف پسند صلح کا خواھاں ھے تو تم اس کو قبول کرو‘‘
’’ زیادتی مت کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا۔‘‘

چونکہ اسلام کا مقصد ملک گیری نہیں بلکہ امن وامان کا قیام اورایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جو انصاف اور انسیانیت کی بنیاد پر قائم ہو لہٰذا وہ صلح کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ کسی ایسے علاقے میں جنگ کی اجازت نہیں دیتا، جہاں کے لوگ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ اس لئے حتی المقدور اس بات کی کوشش کی جائیگی کہ معاملہ بات چیت سے بن جائے۔ یہاں ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ لفظ ’’جہاد‘‘کو عام طور پر ’’حرب‘‘ کے مفہوم میں لیا جاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ تباہی اور بربادی ہے مگر جہاد کا نتیجہ بربادی نہیں بلکہ آبادی ہے۔ جس لڑائی کے نتیجے میں تباہی آئے اسے جہاد نہیں کہا جاسکتا ہے۔دنیا کی تاریخ میں جس قدر جنگیں ہوئی ہیں ان کا مقصد ملک گیری اور دوسری قوموں کے اسباب پر قبضہ کرنا تھا ، صرف ’اسلامی جہاد‘میں ایسا ہوا کہ دفاع کے نظریے کو پیش نظر رکھا گیا۔ عہد نبوت وزمانہ ٔ خلفائِ راشدین میں جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کو پیش آئیں ان میں اسلام کے نظریہ جہاد کی کبھی دانستہ خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

’غیر اہل قتال ‘کے ساتھ جنگ

حالت جنگ میں بھی اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی ’’غیر اہل قتال ‘‘پر حملہ کیا جائے۔ اسلامی قانونِ جنگ کا یہ حسین پہلو   ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کو سختی سے منع کیا ہے ۔ صرف انھیں کے ساتھ لڑنے کی اجازت ہے جو عملاً  جنگ میں حصہ لے ر ہے ہیں یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد بہم پہنچائی ہے۔ گویا رسد پہنچانے والے بھی شریک جنگ ہیںاور انھیں قسموں کے لوگ قتل کے مستحق ہوں گے۔ اسلام نے اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے کسی قسم کا تعرض کیا جائے۔ اسی طرح جو لوگ جوان ہیں مگر لڑائی میں شریک نہیں ہیں،انھیں بھی قتل نہیں کیا جاسکتا۔ دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو رہنے دیجیے ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی علاقے پر چڑھائی کے لئے اسلامی لشکر بھیجتے تو سختی سے تاکید کرتے کہ خواتین، بچوں اور ایسے لوگوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے جو شریک جنگ نہیں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا :

کمزوربوڑھوں ، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے

(ابوداؤد:باب دعوۃ المشرکین: حدیث:۹۴۸)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ ’’غیراہل قتال‘‘ سے تعارض کرنے کو منع کیا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک لشکر ملکِ شام کی مہم کے لیے روانہ کیا تو،اسے اس قسم کی ہدایات دیں کہ بچوں کو قتل نہ کریں ، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی ضعیف بوڑھے کو نہ ماریں ، کوئی پھلدار درخت نہ کاٹیں، کسی باغ کو نہ جلائیں

( موطاامام مالک : ۸۶۱)

    اسلام کے خلاف جن باتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات عہد نبوی میں پورے علاقے کی آبادی کو مجاہدین اسلام کی طرف سے نشانہ بنایا گیا۔ یہاں یہ بات دھیان میں رہے کہ عہدِ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کہیں کسی آبادی کا محاصرہ کیا،وہاں کی ساری آبادی اور قبیلے کے سارے لوگ بنفس نفیس اور عملاً جنگ میں شریک تھے۔یہی سبب ہے کہ پورے قبیلے کو نشانہ بنایا گیا۔ مدینہ کا یہودی قبیلہ بنو قریظہ اس کی مثال ہے جس نے بار بار عہد شکنی کی اور بار بار اسے معاف کیا گیا مگر جب انتہا ہوگئی اور یہ قبیلہ مسلمانوں کے وجود کے لئے خطرہ بن گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تاریخ کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہدِ صحابہ میں عموماً مسلمانوں کا مقابلہ وہاں کی آبادی سے نہیں ،بلکہ حکومت کے منظم فوجیوں سے ہوا۔ قیصر وکسریٰ سے جب مسلمانوں کا سامنا ہوا تو یہاں عام طور پر عوام نہیں بلکہ فوجی برسرپیکار تھے اور انھیں سے جنگ ہوئی۔ فلسطین اور مصر وغیرہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس لیے مجاہدین اسلام نے ان ملکوں میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد وہاں کی عوامی املاک یا وہاں کے باشندوں کے جان ومال پر کسی طرح کی دست درازی نہیں کی تھی۔یہی سبب تھا کہ وہاں کے باشندوں نے تیزی کے ساتھ اسلام میں پناہ لیا۔ وہ اب تک فاتح قوم کی طرف سے اس قسم کے سلوک کے عادی نہیں تھے جس قسم کا برتائو ان کے ساتھ مسلمانوں نے کیا تھا۔اسی کا اثر تھا کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور انصاف پر مبنی طرزِ عمل کو دیکھ کر کئی موقعوں پر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور پارسیوں کے خلاف ہی جاسوسی کی۔ اس طرح ان علاقوں میں مسلمانوں کو قدم جمانے میں مدد ملی۔ جنگِ یرموک کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا:

’’جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے‘‘ ، عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا : ’’ خدا کی قسم ! تم رومیوں کے بہ نسبت ہم کو زیادہ محبوب ہو ‘‘

(الفاروق : ۲/ ۰۲۱)

معاہدے کی پاسداری کا حکم

        وعدے کی پاسداری انسانی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی ہے۔ اسلام نے بھی اس کی جابجا تاکید کی ہے۔ اہل عرب میں عموماً یہ خوبی عہد جاہلیت میں بھی موجود تھی۔ مکہ معظمہ میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام رہا کئی ایسے مواقع آئے جب مشرکین مکہ نے آپ کی حفاظت کا کام صرف عہد کی پاسداری کے سبب کیا۔ آپ جب اسلام کی تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تویہاں اگر آپ کی مخالفت میں مقامی لوگ آگے آگے تھے تو جس شخص نے آپ کو پناہ دیا تھا وہ مومن نہیں تھا۔ اسلام نے پابندی عہد کی سخت تاکید کی ہے اور جب یہ معاہدہ دوقوموں کے بیچ ہو تو مزید سختی کے ساتھ اس پر کاربند رہنا لازم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بہت سے قبائل کے ساتھ معاہدے کئے اور اسے نبھایا بھی۔ اسلام نے حالت جنگ میں بھی عہد کی پابندی کا حکم دیا ہے۔حدیث میںعہد شکنی کو  ایمان والے کی شان کے خلاف مانا گیا ہے اور وعدہ خلافی یا عہد شکنی کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے

(ریاض الصالحین : ۳۹۲)

 اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا :

’’معاہدے کی پاسداری کرو؛کیوں کہ اس کے تعلق سے بازپرس ہوگی ‘‘

(قرآن)
جب عام حالات میں پابندیِ عہد کی اس قدر سخت تاکید ہے توظاہر ہے کہ جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت مزید بڑھ ہوجاتی ہے۔ اس لیے دورانِ جنگ کے لئے یہ خصوصی تاکید کی گئی ہے کہ دشمن خواہ بدعہدی کیوں نہ کرے ،مسلمانوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ وہ اطلاع دیئے بغیر اس قوم پر حملہ کریں یا عہد توڑیں۔مسلمانوں کو حکم ہے کہ اگر کسی معاہد قوم نے معاہدہ توڑ دیا ہے تو بھی وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کردیں ، پھر اس کے بعد ہی وہ جنگی کارروائی کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

 ’’اور اگر تمہیں کسی قسم کے دغا کا ڈر ہے تو پھینک دو، ان کا عہد ان کی طرف۔ایسے ہوجائو کہ تم اور وہ برابر ہیں۔ بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔‘‘

(الانفال :۸۵)
اس آیت کریمہ میں قانون کی ایک اہم دفعہ کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔اس میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر فریق ثانی کی جانب سے عہد شکنی کا انھیں اندیشہ ہے تو وہ بھی معاہدہ توڑ سکتے ہیں ،مگر اس بات کی اطلاع اسے دینی لازم ہے کہ اب معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ اسے اطلاع دیئے بغیر حملہ آور ہونا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترکِ جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہیے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔

جنگی قیدیوں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ

          دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں گزری ہیں، وہ اسیرانِ جنگ کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ اور بہیمانہ سلوک کرتی تھیں۔ اسلام سے قبل جنگی قیدیوں کے حقوق بالکل نہیں ہوا کرتے تھے مگر جنگ بدر میں جو لوگ گرفتار ہوکر آئے تھے، ان کے ساتھ اللہ کے رسول نے جس طرح کا برتائو کیا وہ بے مثل وبے مثال ہے۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ جنگ لڑتے ہوئے گرفتار ہونے والوں کو معمولی معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور فاتح قوم کے افراد خود بھوکے رہیں اور جنگی قیدیوں کے ساتھ مہمانوں جیسا برتائو کریں۔ سیرت و تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ جنگ بدر کے بہتر (۲ ۷) قیدیوں میں سے ۷۰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی جرمانہ لے کر آزاد فرمادیا تھا۔حالانکہ اس وقت کے سماجی دستور کے مطاابق انھیں قتل کردیا جانا چاہئے تھا۔ ان میں سے بعض قیدیوں کی رہائی کے لئے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں اور رہا ئی پائیں۔ جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی مصطلق میں بھی سو سے زیادہ مرد وزن قید ہوئے، اوررسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو بلاکسی شرط اور جرمانہ کے آزاد کردیا۔ایسا ہی جنگ حنین کے موقع سے بھی دیکھا گیا کہ آپ نے چھ ہزار جنگی قیدیوں کو بغیر کسی شرط ومعاوضہ کے آزاد فرمادیا۔اسی حسن اخلاق کا نتیجہ تھا کہ دشمنوں نے بھی آزادی پاکر آپ کے دامن رحمت میں پناہ لے لیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور مسلمانوں نے مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جبراً اسلام کو مسلط کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر ہندو پاک پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال سے زیادہ حکمرانی کی۔ اگر انھوں نے یہاں کے باشندوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہوتا تو کیا ایک بھی غیر مسلم اس خطے میں باقی رہتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 585