donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Sarkar Ka Aik saal


مودی سرکار کا ایک سال


ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    مودی سرکار کا سال پورا ہوگیا۔ اس بیچ عوام کے بھی بارہ بجنے لگے ہیں۔ مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ساگ سبزیوں کے دام روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ چاول، دال ، آٹے کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اگرچہ عالمی بازار میں گراوٹ آئی ہے مگر بھارت میں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے جس سے ٹرانسپورٹ مہنگا ہوگیا ہے اور چیزوں کے دام بڑھنے لگے ہیں۔ جن کسانوں اور گائوں کے لوگوں نے مودی سرکار کو لانے میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی تھی اب انھیں کی کھیتیوں پر ’’لینڈ اکویزیشن بل‘‘ کی تلوار لٹک رہی ہے۔مودی کے عالمی دوروں اور بین الاقوامی معاہدوں سے امبانی،اڈانی جسے صنعت کاروں کو تو فائدہ ہورہا ہے مگر عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔غود وزیر اعظم عالمی سیاحت کا شوق پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مودی سرکار عوام کی امیدوں پر کھری اتری ہے؟ کیا نریندر مودی کے کام کاج سے ملک کے شہری خوش ہیں؟ کیا عوام نے جس طرح انھیں بھرپور ووٹ دے کراقتدار تک پہنچایا تھا،انھوں نے اس کا حق ادا کردیا؟ وزیر اعظم نے اب تک ملک کے مفاد میں کتنے قدم اٹھائے ہیں؟ کیا آج بھی ملک کی معاشی پالیسی وہی ہے جو کانگریس کے زمانے میں تھی یا مودی کی اپنی پالیسی آئی ہے؟ اگر مودی معیشت کے میدان میں کچھ اہم قدم اٹھا رہے تھے تو اس کے نتائج اب تک عوام کے سامنے کیوں نہیں آئے؟ آخر کیا سبب ہے کہ مودی سرکار سے اپنے ناراض ہیں اور بیگانے بھی ناخوش ہیں؟ اپوزیشن تو چھوڑیئے خود بی جے پی والے ہی ان کے کام کاج پر انگلیاں اٹھانے لگے ہیں۔ جن نریندر مودی کی جے جے کار میں لوک سبھا الیکشن سے قبل تک سب لگے ہوئے تھے، آج بھارت سے امریکہ تک وہ تنقیدوں کے نشانے پر ہیں۔خود بی جے پی اور سنگھ کے لوگوں کو احساس ہونے لگا ہے کہ یہ سرکار نہ تو عوام کی ہے اور نہ بی جے پی کی بلکہ تین مورتی یعنی مودی،امت شاہ اور ارون جیٹلی کی سرکار ہے۔ پورے ملک میں صرف انھیں کی چلتی ہے اور باقی تمام لوگ حاشئے پر چلے گئے ہیں۔دوسروں کو کون پوچھے جب کہ مودی کے منتریوں کی بھی نہیں چلتی ہے۔انھوں نے جو بڑے بڑے وعدے کئے تھے ان میں سے کسی بھی وعدے کے ایفا کی طرف ایک قدم نہیں بڑھایا ہے۔ ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ کسان کو خوف ہے کہ سرکار ان سے ان کی زمین چھیننا چاہتی ہے۔ اقلیتوں کے اندر خوف ودہشت کا ماحول بنتا جارہا ہے کیونکہ مودی نے اشتعال انگیزی کرنے والے لیڈروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور چرچوں پر حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔اپنی ۱۲مہینوں کی سرکار کے دوران مودی نے سب سے زیادہ زور ورلڈ ٹور پرلگایا اور ۱۶ممالک کے دورے کئے۔ حالانکہ بین الاقوامی تعلقات کے معاملے میں بھی ان کے ہاتھ خالی ہیں اور کچھ حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ہی محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی بھی اسی طرح بے سمت ہے جس طرح معاشی پالیسی ہے۔ اس وقت بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر ارون شوری مودی سے سب سے بڑے نکتہ چیں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

ارون شوری کی کھری کھری

    اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں اہم کردار ادا کرنے والے ارون شوری نے وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ مودی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر شوری نے جو باتیں کہیںان میں سے چند اس طرح ہیں:

1۔ حکومت اپنی سوچ کو لے کر واضح نہیں ہے۔ حکومت کے پاس آئیڈیاز اچھے ہیں، لیکن انہیں لاگو کرنے میں وہ پیچھے ہے۔ سمجھ ، وعدوں اور پرفارمنس میں بڑا گیپ ہے۔ حکومت کو پوری طرح لو پروفائل رہنا چاہئے۔

2۔ مودی کی اقتصادی پالیسی بے سمت ہے۔ اقتصادی پالیسی کو لے کر کوئی بڑی تصویر نہیں ہے۔ اقتصادی پالیسی پر مودی کی توجہ ایک وزیر اعلی کی طرح ہے۔انہیں منصوبوں کی بجائے پالیسیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

3۔ مودی کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے، لیکن انھیںپالیسیوں کو جلدی جلدی لاگو کرنا چاہئے۔ چین ہندوستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مودی کو اور تیز ہونا پڑے گا۔ کوئی ہمارے لئے انتظار نہیں کرے گا۔ امریکہ پہلے ہی اس بے صبری کو محسوس کر رہا ہے۔

4.۔ پاکستان کو لے کر حکومت واضح نہیں ہے۔ہمیں پاکستان کی طرف مستحکم نظر رکھنی چاہئے۔

5.۔ سرمایہ کاری نہیں بڑھ رہی ہے۔ حکومت ’’انڈیا انکارپوریٹڈ‘‘ کی تنبیہہ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ حکومت کو جاگنے کی ضرورت ہے۔سرمایہ کاروں کو اب بھی امید ہے، لیکن انڈسٹریل سیکٹر مضبوط اقدامات کا انتظار کر رہا ہے۔

6۔ ٹیکس نظام کو لے کر کنفیوڑن ہے۔حکومت کے فیصلوں سے سرمایہ کار چھوٹ رہے ہیں۔

7۔بھارت کو مزدور نظام کو لے کر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ لینڈ بل پر تنازعہ نہیں ہونے دینا چاہئے تھا۔ بی جے پی نے اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ مودی کو اپوزیشن کو اعتماد میں ضرور لینا چاہئے تھا۔ اپوزیشن کے سپورٹ کے بغیر کوئی بھی بہتر کام نہیں کیا جا سکتا۔ اپوزیشن مودی کے خلاف متحد ہو گیا ہے۔

8۔. ضروری عہدوں پر بحالیوںکو لے کر حالات خوفناک ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان عہدوں کو بھرا کیوں نہیں گیا؟ اس سے اہم اداروں کو مصیبت جھیلنی پڑ رہی ہے۔

9۔ حکومت کو اقلیتوں کا ڈر دور کرنا چاہئے۔ حکومت اقلیتوں کے اندراعتماد بحالی میں ناکام رہی ہے۔ عیسائی بہت ناراض ہیں۔ وزیر اعظم کو سب سے بات کرنی چاہئے۔ مودی کو ان پیچیدہ مسائل پر ضرور بولنا چاہیے۔ ان کی خاموشی سے اخلاقی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔

10۔ مودی کو مونوگرام والا سوٹ نہیں پہننا چاہیے تھا۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ مودی نے وہ سوٹ کیوں قبول کیا۔ آپ گاندھی کا نام لے کر ایسی چیزیں نہیں پہن سکتے۔


مودی،شاہ،امبانی اور اڈانی کی سرکار


    بی جے پی کے اندر سے وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ پر شروع ہوئے اپنوں کے حملے تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر اور سینئر بی جے پی لیڈر ارون شوری کے بعد اب اتر پردیش سے ممبر پارلیمنٹ رہ چکے بھانو پرتاپ ورما نے وزیر اعظم اور پارٹی قیادت کی طریقہ کار پر نشانہ سادھا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے پارٹی کارکنوں کے نام پر ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط کو انہوں نے میڈیا کو بھی بھیجا ہے۔ ورما نے اپنے خط میں الزام لگایا ہے کہ مودی اور شاہ کے دور میں تنظیم میں اپنے پن کی بجائے کارپوریٹ کلچر شامل ہو گیا ہے۔کچھ لوگ خود کو پارٹی کا بھگوان سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کانگریس میں صرف ایک منموہن ہیں پر بی جے پی کی قیادت نے تو ہم سب کو خاموش منموہن کر دیاہے۔ کیا پارٹی اور ملک کو صرف چار گجراتی (مودی، شاہ، امبانی اور اڈانی) چلائیں گے؟لال کرشن اڈوانی اور سنجے جوشی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت دوہرا رویہ اپنا رہی ہے۔بنگلورو ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اڈوانی کو خطاب کا موقع نہ دئیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے بی جے پی رہنما نے کہا کہ پارٹی کو کھڑا اور بڑا کرنے میں ان کا انمول یوگدان ہے۔ انہیں یوم تاسیس کے پروگرام میں نہ بلانے کاجواز نہیں ہے۔وہیں وزیر اعظم مودی کے طریقہ کار پر حملہ بولتے ہوئے ورما نے کہا کہ، مسرت کی رہائی میں مدد کرتے ہیں، پاکستان کا پرچم لہرانے اور زندہ باد کرنے والے گیلانی کو ریلی کی اجازت دیتے ہیں، ایودھیا میں کارسیوکوں پر گولی چلانے والے ملائم سنگھ یادو، اڈوانی کے رام رتھ یاترا کو روکنے والے لالو یادو کے ساتھ گھنٹوں بیٹھتے ہیں، سنجے جوشی جیسے رہنما کی سالگرہ منانے والوں کو پھٹکار لگاتے ہیں، ایسی قیادت کو منتخب کرکے ہم احساس جرم کا شکار ہیں۔

اقلیتوں میں خوف وہراس

    مودی سرکار کے قیام کے بعد ملک کی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے اور حکومت نے اعتماد بحالی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سنگھ پریوار کے لیڈران کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات آتے رہے اور نریندر مودی خاموش رہے جس سے نہ صرف کئی اخلاقی سوال اٹھے ہیں بلکہ اقلیتوں میں خوف وہراس بھی بڑھا ہے۔یہ الزام بھی ہے کہ سرکاری اقلیتی اداروں کا بجٹ کم کردیا گیا ہے اور وزیر اعظم نے حلف برداری کے بعد سے ایک بھی ایسا بیان نہیں دیا جس سے ان کے اندر اعتماد بحال ہو۔حالانکہ انھوں نے الیکشن سے قبل’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘  کا نعرہ لگایا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اقلیتوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کریں گے نیز اردو زبان کے فروغ کے لئے بھی کام کریںگے۔آج دنیا بھر میں مودی سے اقلیتوں کے ایشو پر سوال پوچھے جارہے ہیں مگر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

مستقبل میں اور بھی خطرے ہیں

    نریندر مود ی کو عوام نے جس بڑی اکثریت سے اقتدار تک پہنچایا، وہ اس ملک کی تاریخ میں بے مثال ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے نہ صرف عوام کو نظر انداز کیا بلکہ اپنے ووٹروں کا بھی خیال نہیں رکھا۔ ان کے اوپرسے لوگوں کا اعتماد بہت تیزی سے کم ہورہا ہے اور اس کا نتیجہ انھیں بہار کے اسمبلی الیکشن میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ عالمی بازار میں کچے تیل کی قیمت میں کمی آئی تھی جس کا فائدہ سرکار کی جیب میں گیا، عوام کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔مگر مستقبل کا سال سرکار کی خوش قسمتی کاسال نہیں ہوگا کیونکہ ملک میں خشک سالی کا خطرہ بنا ہوا ہے۔حالانکہ ابھی بے موسم بارش نے فصلوں کو بری طرح تباہ کیا ہے اور اس سے اناج کی قلت کا مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لئے سرکار کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ آج کسان خودکشی کر رہے ہیں مگر مستقبل میں عام لوگ بھی بھوکوں مرسکتے ہیں اور اس کا نقصان مودی سرکار کو یقینی طور پر ہوگا۔ آج سب سے زیادہ وہی طبقہ گھاٹے میں نظر آرہا ہے جس نے مودی کے نام پر ووٹ دینے میں سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا تھا۔بہرحال اب پچھتانے سے کیا حاصل؟ اب مزیدچار سال مودی کو جھیلنا پڑے گا اور یہ چار سال زیادہ صبر آزما ہوسکتے ہیں۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

    آج بی جے پی کے اندر ایسی مایوسی ہے کہ وہ اپنی ایک سال کی حصولیابیوں پر جشن کی ہمت نہیں کر پارہی ہے۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے چند بڑے صحافیوں کو مدعو ضرور کیا اور انھیں متاثر کرکے خبر بنوانے کی کوشش کی مگر عام طور پر بی جے پی کے اندر شدید اندیشے ہیں کہ اگر اس نے ایک کام گنایا تو میڈیا اور اپوزیشن اس کی دس ناکامیاں گنوادیں گے ۔


رابطہ

Email:ghaussiwani@gmail.com
Facebook/Ghaus Siwani

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 430