donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Mulayam Singh Ke Birth Day Par Sonia Gandhi Ka Tohfa


ملائم سنگھ کے برتھ ڈے پر سونیا گاندھی کا تحفہ

جمہوریت کے لئے کتنا خوش آئند ہے نیتائوں کا طرزِعمل


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    سونیا گاندھی نے اپنا برتھ ڈے نہیں منا کر ملائم سنگھ یادو کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو خود کو جمہوری بھارت کے شہنشاہوں میں سے ایک مانتے ہیں۔سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ پہلے چھتیس گڑھ میں نکسلی حملے میں جو ہمارے جوان شہید ہوئے اور پھر یہاں نسبندی میں خواتین ماری گئیں نیز جموں و کشمیر میں سرحد پر جو ہمارے فوجی جوان مارے گئے ہیں ان سے اظہار ہمدردی میں وہ اپنا یوم پیدائش نہیں منائیںگی۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے ورکرس سے بھی اپیل کی ہے کہ ان کا برتھ ڈے نہ منائیں۔ ان کا یہ سادہ طریقہ خوش آئند ہیں اور قابل تقلید ہے۔  ہم جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی کوری سیاست ہے باوجود اس کے ان کی یہ سیاست ملائم اور مایاوتی کے طرز عمل سے مختلف ہے اور دوسروں کے لئے ایک مثال ہے۔ابھی حال ہی میں ملائم سنگھ یادو کی جشن سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی اور کروڑوں روپئے خرچ کئے گئے۔ ملائم سنگھ یادو اب ۷۵ سال کے ہوچکے ہیں اور ۷۶ ویں سال میں قدم رکھ چکے ہیں۔اس موقع پر ان کی عمر کے سال کے لحاظ سے ۷۵ فٹ لمبا کیک کاٹا گیا ، سینکڑوں سائیکلوں کی تقسیم کی گئی، ۱۰۱ جوڑوں کی شادیاں کرائی گئیں ،ساتھ ہی ساتھ ناچ ،گانا اور ڈانس کے پروگرام ہوئے۔ رام پور کو اس موقع کے لئے دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ بڑے بڑے خوشنما گیٹ بنا ئے گئے تھے ، ہر طرف جھنڈیاں لگائی گئی تھیں، غباروں سے زمین ہی نہیں آسمان بھی ڈھک گیا تھا۔ اس خاص موقع کے لئے انگلینڈ سے بگھی منگائی گئی تھی جس میں بیٹھ کر ملائم سنگھ یادو اور ان کے قریبی لوگوں کا جلوس نکلا۔ بگھی چلانے والا بھی دولہے کی طرح سجا ہوا تھا اور بگھی کی سجاوٹ تو قابل دید تھی ہی۔سالگرہ کا دن نواب رام پور اور نواب اودھ کا بھی آتا تھا مگر اس قدر دھوم دھام سے نہیں منایا جاتا تھا جس طرح آزاد اورجمہوری بھارت کے ایک شہنشاہ کا منایا گیا۔ رام پور کے علاوہ یوپی کے دوسرے حصوں میں بھی ملائم سنگھ یادو کی سالگرہ منائی گئی جس میں بدایوں بھی شامل ہے جہاں ان کے بھتیجے دھرمندر یادو نے اس کا اہتما م کیا تھا ۔ اس موقع پر کمبل تقسیم کئے جارہے تھے مگر بھگدڑ مچ گئی اور اس میں ایک خاتون کی موت ہوگئی۔ دوسری طرف گورگھ پور میں جب جشن سالگرہ کے بعد پارٹی کے لوگ کیک تقسیم کر رہے تھے تو لوٹ مار مچ گئی اور پارٹی کے لوگوں نے ایک کیک پر ہی اپنی اوقات دکھا دی۔ لکھیم پور کھیری کے ایک لیڈر آنند بھدوریا نے اس موقع پر ۷۵ کیول گرام کا ایک لڈو بنانے کا اعلان کیا تھا تو دوسری طرف ریاست کے وزیر سائنس و ٹکنالوجی منوج پانڈے نے اپنے گھر ہی پر کیک کاٹا اور ناچ گانے کا پروگرام کیا۔ اترپردیش بیسک ٹیچر یونین کے صدر درگا چرن سنہا نے ۲۲ نومبر کو ملائم سنگھ کی جشن سالگرہ کے سلسلے میں مذہبی دعائیہ محفل کا اہتما م کیا۔ انھوں نے لکھنو کے پارک روڈ پر بھنڈارے کا بھی انتظام کیا جب کہ اجودھیا کے ممبر اسمبلی تیج نرائن پانڈے نے فیض آباد میں پھلوں اور مٹھائیوں کی تقسیم کا انتظام کیا ۔ملایم سنگھ یادو اترپردیش کے ایک طاقتور حکمراں رہے ہیں اور کئی بار انھوں نے ریاست میں وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ ساتھ مرکز میں وزارت بھی سنبھالی ہے۔ آج بھی ان کی سرکار یوپی میں ہے اور ان کے بیٹے اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس لحاظ سے اگر وہ ساری دنیا کے بکھیڑوں سے اوپر اٹھ کر جشن سالگرہ منائیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ جس وقت مظفر نگر جل رہا تھا اور پناہ گزیں کیمپوں میں سردی سے شیر خوار بچے دم توڑ رہے تھے تب بھی ملائم سنگھ یادو سیفئی مہوتسو میں مصروف تھے۔ راکھی ساونت کے لٹکے جھٹکے اور مادھوری دکشت کے حسن کے جلوے میں کھوئے تھے۔ آج تو خیر سے اتنے برے دن نہیں ہیں صرف اتنا ہوا ہے کہ سماج وادی پارٹی لوک سبھا الیکشن بری طرح ہار گئی ہے اور ملک میں سیکولرازم خطروں کی زد میں ہے،ایسے وقت میں اگر سیکولرازم کے چمپئین جشن سالگرہ منا رہے ہیں تو اس میں تعجب نہیں۔

تم سشہنشاہ رہو ہزار برس۔۔

    لکھنو اور دلی کے اخبارات میں ۲۲نومبر کو صفحہ اول پر بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے تھے جس میں ملائم سنگھ کو مبارکبادیاں دی گئی تھیں۔ ملائم سنگھ یادو کے استقبال کے لئے رام پور کو سجا دیا گیا تھا اور شہر میں کئی خیر مقدمی گیٹ بنا دیئے گئے تھے۔جگہ جگہ خون عطیہ کیمپ بھی منعقد کئے گئے تھے اور دعائیہ پروگروام بھی ہورے تھے۔ اسی کے ساتھ ثقافتی پروگرام کے نام پر ڈانس اور گانے کے پروگرام کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ ملائم سنگھ یادو کو رام پور شہر گھمانے کے لئے خاص طور پر ملکہ وکٹوریہ کی بگھی منگوائی گئی تھی جس میں سوار ہوکرملائم سنگھ یادو نے شہر کی سیر کی۔ بگھی کے نیچے کئی کیلومیٹر تک سرخ قالینیں بچھائی گئی تھیں اور سڑک کی دونوں جانب پھول سجائے گئے تھے جنھیں بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا۔ اس دوران رام پور شہر روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور ہر طرف بجلی کے قمقمے جھلملا رہے تھے۔ ملائم کی شاہی سواری کس جشن دیکھنے کے لئے پورا شہر امنڈ پڑا تھا۔ رام پور نے ایسا جشن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ،اس دور میں بھی نہیں جب یہاں نواب کی حکومت تھی اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھی۔ شاید نوابین رام پور کی روحیں اس جشن کو دیکھ کر خجالت محسوس کر رہی ہونگی مگر ملائم سنگھ یادو خوشی س پھولے نہیں سما رہے تھے ۔انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا سمان نہیں پایا جیسا اعظم خاں کے ذریعے مجھے ملا ہے۔ ملائم سنگھ نے اکھلیش یادو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صرف اعلانا ت ہی کافی نہیں ہیں بلکہ سرکار کو کام کرکے دکھانا ہوگا اور عوام کی امیدوں پر کھرا اترناہوگا۔ جو عزت مجھے مل رہی ہے وہی عزت ہر شہری کو ملنی چاہئے ۔ خود اعظم خاں نے اپنی استقبالیہ تقریر میں میں ملائم سنگھ کو ’’رفیق الملک ‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہوئے کہا کہ ان کی حکمرانی ۱۲۵ کروڑ ہندوستانیوں کے دلوں پر ہے۔ اس جشن کے تعلق سے جہاں ایک طرف میڈیا اور ملائم سنگھ یادو کے مخالفین کی طرف سے سخت تنقیدیں ہوتی رہیں وہین اس کا جواب وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے نے یہ کہہ کر دیا کہ ہم جشن میں مصروف رہے اور جلنے والوں کو ٹی وی کے ذریعے دیکھتے رہے۔ اس جشن می  شرکت کے لئے ملائم سنگھ کا پورا کاندان رام پور پہنچا ہو اتھا ۔ انھوں نے اس موقع پر مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی میں ایک میڈیکل کالج و اسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ گور طلب ہے کہ اس یونیورسٹی کا قیام اعظم خاں کی کوششوں کے نیتجے میں ہوا ہے اور وہی اس کے لئے لائف ٹائم چانسلر ہیں۔ ملائم سنگھ کو جہان سماج کے دوسرے طبقات کی طرف سے سالگرہ کی مبارکبادیاں موصول ہوئیں وہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ٹویٹ کر کے انھیں مبارکباد دیا۔ انھوں نے لکھا کہ ملائم سنگھ جی کو سالگرہ کی بہت بہت مبارکباد! میری دعا ہے کہ وہ لمبی عمر پائیں اور صحت مند رہیں۔ اس پر اکھلیش یادو نے انھیں شکریہ کہا۔ میڈیا کی تنقیدوں نے جشن منانے والوں کے منہ کا ذائقہ خراب کیا اور جب اعظم خان سے پوچھا گیا کہ اس شاہی جشن کے لئے پیسے کہاں سے آئے تو انھوں نے جل بھن کر کہا کہ ’’طالبان سے مل رہے ہیں، دائود ابراہیم سے آرہے ہیں‘‘۔  

شہنشاہیت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے انقلاب

    فرانس میں بادشاہت کے خلاف اس وقت بغاوت کے پرچم بلند ہونے لگے تھے جب وہاں قحط پڑا ہوا تھا اور لوگ بھکمری کا شکار ہو رہے تھے۔ بھوکوں کی ایک جماعت شاہی محل کے پاس پہنچ گئی اور حکمراں سے روٹی مانگنے لگی۔ عوام کے چیخ پکار کی آواز جب محل کے اندر گئی تو ملکہ نے پوچھا یہ لوگ کیوں ہنگامہ کر رہے ہیں؟ جواب ملا کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں ہے اور وہ روٹی مانگ رہے ہیں۔ ملکہ نے کہا ان سے کہو روٹی نہیں ہے تو کیک کھائیں۔ یہ بات جب عوام کو معلوم ہوئی تو ملک میں بغاوت کی شروعات ہوگئی اور آخر کار انقلاب آگیا۔بھارت بھی ان دنوں ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے جہاں ایک خاندان نہیں بلکہ سات سو کاندان ہیں جو حکمرانی کر رہے ہیں۔ اس وقت جہاں ہمارے ملک میں ایک طبقہ بہت غریب ہے اور دانے دانے کو ترس رہا ہے تو دوسری طرف حکمراں طبقے کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اسے بھارت میں رکھنے کی جگہ نہیں پاتا اور بیرون ملک کے بینکوں میں جمع کرتا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا الیشن میں کالا دھن بھی اہم ایشو تھا مگر یہ کیسے آئے جب حکمرانوں کی ہی دولت بیرون ملک جمع ہے۔ملائم سنگھ یادو ملک کے ان نیتائوں میں شامل ہیں جن پر آمدنی سے زیادہ دولت رکھنے کا الزام ہے۔ اس تعلق سے سی بی آئی ان کے خلاف انکوائری بھی کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ ملک کے اس شاہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو آزاد بھارت میں ابھرا ہے۔ وہ خود کو سماج وادی کہتے ہیں جس کا اب مفہوم ہی بدل چکا ہے اور اس کی جگہ لیتا جارہا ہے ملائم واد،جو کہ نئی اصطلاح کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ملائم سنگھ خود کو رام منوہر لوہیا کا چیلا کہتے رہے ہیں مگر آج وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ نہ تو سماج واد کا راستہ ہے اور نہ ہی لوہیا واد کا۔ فرخ آباد سے رام منوہر لوہیا اپنا پہلا الیکشن لڑ رہے تھے تو انھون نے ایک ایسی  مجلس میں کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا جہاں ان کے لئے اسپیشل انتطام کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نابرابری اور عد م مساوات کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔اگر ہم ہی نابراری کرینگے تو پھر ہمیں حق نہیں کہ مساوات کا نعرہ بلند کریں۔مگر آج اپنے ایک چیلے کا جشن سالگرہ دیکھ کر لوہیا کی روح کو بھی انتہائی اذیت پہنچ رہی ہوگی۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 607