donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Musalmano Ki Taleem Ka Naya Markaz Md Ali Jauhar University


آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم کا نیا مرکز

 

محمد علی جوہر یونیورسٹی


کاش دوسرے مسلمان لیڈر بھی اعظم خان سے سبق لیتے


تحریر:غوث سیوانی، نئی دہلی

 

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعد اب محمد علی جوہر یونیورسٹی (رام پور) ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی مرکز کے طور پرشناخت بنا رہی ہے۔ یہ ایک تاریخی دورہے کہ جہاں ایک طرف اے ایم یو اور جامعہ کے اقلیتی کردار پر حملہ جاری ہے اور اسے بچانے کے لئے ایک طویل قانونی جنگ کی ضرورت ہے، وہیں دوسری طرف محمد علی جوہر یونیورسٹی کو اس کے بانی اعظم خاں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اقلیتی کردار دلوادیا ہے۔ یہ اقلیتی تعلیمی ادارہ یوپی کے وزیربرائے شہری ترقیات کا ڈریم پروجیکٹ ہے اور وہ اسے ہر پہلو سے شاندار بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے اب تک اس یونیورسٹی کو دیکھا نہیںہے اور نہ کبھی اعظم خاں سے ملاقات کا موقع ملابلکہ اکثر اپنی تحریروں میں ان کے سیاسی فیصلوں سے اختلاف کا اظہار کیا ہے اور ان کے بیانات پر نکتہ چینی بھی کی ہے مگر اس دارے کے بارے میں جوکچھ سنا ہے یا اس کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے وہ میرے لئے متاثرکن ہے اور ان کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے ۔ رام پور ریلوے اسٹیشن سے تقریبا13کیلو میٹر دور کوسی ندی کے کنارے350ایکڑ کی ایک طویل وعریض قطعۂ زمین پر یونیورسٹی کی عالیشان بلڈنگیں کھڑی ہورہی ہیں اور دھیرے دھیرے مختلف شعبوں کا آغاز ہورہاہے۔یہاں کا ماحول پرامن ہے جو تعلیم کے لئے ضروری ہے۔ہمارے ایک دوست گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے دورے پر گئے تو بڑے خوش اور پُرامید نظر آئے۔ محمد علی جوہر یونیورسٹی کے احاطے میں ایک شاندار مسجد کی تعمیر بھی جاری ہے جو تکمیل کے بعد ملک کی عالیشان مسجدوں میں شمار ہوگی اور یہاں ایک ساتھ ایک لاکھ افراد نماز اداکرسکیںگے۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق فی الحال یہاں انجینئرینگ اینڈ ٹکنالوجی، سائنس، انسانی علوم،لسانیات، اسلامک اسٹڈیز، جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیش،کامرس، مینجمنٹ، فارمیسی، پارامیڈیکل سائنس، اگریکلچر سائنس، لاء وغیرہ کے مختلف کورس پڑھائے جارہے ہیں اور عنقریب کچھ نئے شعبوں کے آغاز کی امیدہے۔ اس وقت یہاں 60 اساتذہ24 مختلف موضوعات کی تعلیم دے رہے ہیں اور نئے اساتذہ کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔ادارے کے کیمپس میں لائبریری، ہاسٹل، جم ہیلتھ سنٹر،کینٹین سے لے کر بینک تک کی سہولت ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آزادی کے بعد کسی سیاسی مسلم لیڈر کی طرف سے یہ اپنی طرح کی پہلی کوشش ہے جو لائق تحسین اور قابل ستائش ہے۔ اللہ اس جذبے کو سلامت رکھے۔

(آمین)

مسجد عمر

    دنیا بھر میں عالیشان مسجدوں کی تعمیر عموماً حکمراں طبقے نے ہی کرائی ہے۔ بھارت میں جب تک مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار رہاعالیشان قلعے، محلات اور مساجد ومقابر کی تعمیر ہوتی رہی مگر حالیہ دنوں میں ایسی عمارتیں کم ہی بنی ہیں۔ اب محمد علی جوہر یونیورسٹی میں ایسی ہی ایک مسجد ،مسجدعمرکے نام سے تعمیر ہورہی ہے۔ مسجد مکمل ہونے کے بعد اس میں ایک لاکھ لوگ ایک ساتھ نماز ادا کرسکیں گے۔ محمد علی جوہر یونیورسٹی، اعظم خاں کا ڈریم پروجیکٹ ہے اور اسی کے احاطے میں ریاست کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد بن رہی ہے۔ اس میں دنیا کی دیگر خوبصورت مساجد کی طرز پر کام چل رہا ہے۔ یہ کوسی ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ مسجد عمر دو منزلہ ہے۔ مسجد کی مینار 125 فٹ اونچی ہے۔مسجد میں لفٹ بھی لگے گی۔ عمارت بن چکی ہے، مگرفرش اور دیواروں پر سفید پتھر لگانے کا کام چل رہا ہے۔ دیواروں پر قرآن کی آیتیں نقش کی جا رہی ہیں۔اس کا گنبد کو ترکی اور ایران کی مساجد کی مثل بنایا جارہاہے۔اس کے باہر لان کے ساتھ ہی باغ بھی بنائے جا رہے ہیں۔

اعظم خاں کون ہیں؟

محمد علی جوہر یونیورسٹی کے بانی اعظم خاں کوسماج وادی پارٹی کا مسلم چہرہ مانا جاتا ہے۔ رکن اسمبلی اور اتر پردیش حکومت میں وزیر برائے شہری ترقیات محمد اعظم خان کی پیدائش اترپردیش کے رام پور میں 14 اگست 1948 کو آزادی وطن کے ٹھیک ایک سال بعدہوئی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام پور کے بقر اسکول میں پائی۔ اس کے بعد انہوں نے رام پور کے سندرلال انٹر کالج سے گریجویشن کی اور پھر 1974 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی (آنرز) کی تعلیم مکمل کی۔ سیاست میں مکمل طورپر آنے سے پہلے ہی اعظم خان کا تزئین فاطمہ(موجودہ ممبرراجیہ سبھا) سے نکاح ہو گیاتھا جن سے ان کے دو بیٹے ہوئے، ادیب خان اور عبداللہ خان۔ اعظم خان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہی کردیا تھا۔ وہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے سیکرٹری رہے۔ 1976 میں جنتا پارٹی جوائن کی، بعد میں لوک دل سے بھی جڑے۔ فاشزم اور سیاسی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں علی گڑھ، فیض آباد، اناؤ اور وارانسی میں تین سال مختلف جیلوں میں قید رہے۔ وہ ایمرجنسی کے دوران’’ میسا‘‘ کے تحت بھی گرفتار کئے گئے تھے۔

اعظم خان1980، 1985، 1989، 1991، 2002، 2007 اور 2012 میں راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ 1989 میں وہ اتر پردیش حکومت میں کابینہ وزیر بنے اور 05 دسمبر 1989 سے 24 جون 1991 تک لیبر، روزگار،  وقف اور حج کی کی وزارت سنبھالی ۔ 1993 میں وہ دوبارہ اسمبلی کا الیکشن جیت کر ریاستی حکومت میں کابینہ وزیر بنے۔ 1994 میں اعظم خان سماج وادی پارٹی میں آئے اور اس کے آل انڈیا جنرل سکریٹری بنے۔26 نومبر 1996 سے 09 مارچ 2002 تک راجیہ سبھا رکن رہے۔ 13 مئی 2002 سے 29 اگست 2003 تک اتر پردیش اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ 6 ستمبر 2003 سے 13 مئی 2007 تک پارلیمانی امور، شہری ترقی، پانی کی فراہمی، شہری روزگار اور غربت کے خاتمے کے کابینہ وزیر رہے۔2009 کے 15 ویں لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی کی امیدوار جیا پردہ کے خلاف کھڑے ہوئے اور ہار گئے۔ اس کے بعد سماج وادی پارٹی نے اعظم خان کو 6 سال کے لئے پارٹی سے نکال دیا، لیکن 4 دسمبر 2010 کو پارٹی نے ان کو واپس لے لیا۔ 2012 میں اکھلیش یادو حکومت میں وہ کابینہ وزیر بنے۔

تنازعات اور اعظم خاں

 اعظم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد نازک مزاج ہیں اور ان کی طبیعت زود رنج ہے۔ علاوہ ازیں وہ ا کثر اپنے بیانات کی وجہ سے بھی بحث میں رہتے ہیں۔ میڈیا اپنی عادت کے مطابق ان کے بیانات کو ایشو بنادیتا ہے مگر کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ انھوں نے اپنا کوئی بیان میڈیا کے دبائو میں واپس لیا ہو۔ وہ اچھے مقرر ہیں اور زبان کے جادوگر ہیں جس کی وجہ سے ان کے بیانات کے کاٹ کوگہرائی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مثلا انھوں نے دادری قتل پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمت ہے تو گائے کے گوشت فروخت کرنے والے فائیو اسٹارہوٹلوں کو بابری مسجد کی طرح توڑ دو۔ 2013 میں انھوں نے کارگل جنگ پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کارگل کی پہاڑیوں پر فتح کے پرچم لہرانے والے فوج کے جوان ہندو نہیں مسلمان تھے۔ ان کے اس بیان کو لے کر تنازعہ ہوا تھا، لیکن وہ اپنے بیان پر قائم رہے۔2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران  اعظم خاںنے بی جے پی صدر امت شاہ پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا تھا کہ 302 کا مجرم ،غنڈہ نمبر ون شاہ ،یوپی میں دہشت پھیلانے آیا ہے، بعد میں جب اس بیان پر ہنگامہ مچا تو اعظم خاںنے کہا کہ کیا ایسے مجرم کو بھارت رتن دلوا دوں۔ بہرحال ان کے قسم کے بیانات کی ایک طویل فہرست ہے۔

ایک ادارہ ،ایک خواب

 محمد علی جوہر یونیورسٹی کا قیام2006 ء میں عمل میں آیا۔ اقلیتی یونیورسٹی کا درجہ دیے جانے سے متعلق بل کو کئی رکاوٹوں کے بعدریاست کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی نے منظوری دے دی۔اس کے لئے اعظم خاں ان کے ممنون ہیں اور پچھلے دنوں جب یوپی سے کچھ راجیہ سبھا سیٹیں خالی ہوئی تھیں تو وہ چاہتے تھے کہ ڈاکٹرعزیز قریشی کو سماج وادی پارٹی راجیہ سبھا میں بھیجے۔ یہ یونیورسٹی اعظم خاں کے تعلیم کے تئیں جوش وجذبے کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر انھیں بہار میں جگہ ملے تو وہاں بھی محمد علی جوہر یونیورسٹی کھول دیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جس ملک یا خطے میں تعلیم کے ذرائع بہتر ہوں گے، وہاں کے لوگ زندگی میں زیادہ بہتر کریں گے۔ اسی لئے انہوں نے رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی قائم کی ہے۔ بہت سے اسکول بھی کھولے گئے ہیں۔اگر بہار میں جگہ ملے تو وہاں بھی جوہر یونیورسٹی کھول دی جائے گی۔‘‘

کوئی اور بھی آگے آئے۔۔

اعظم خاں کی پہچان سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور اترپردیش سرکار کے وزیر کی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ جس طرح آج کی نسلیں سرسید احمد خاں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے جانتی ہیں اسی طرح مستقبل کی نسلیں اعظم خاں کو صرف محمد علی جوہر یونیورسٹی کے حوالے سے جانیں گی ۔ یہ تعلیمی دارہ اعظم خاں کا سپنا ہے اور یہ سپنا صرف انھیں کو دیکھنا نصیب ہوا۔اگر ایسے ہی خواب دوسرے مسلم ممبران پارلیمنٹ، اسمبلی اور وزراء دیکھتے تو ہندوستان میں ہزاروں مسلم یونیورسٹیاں ہوتیں اورایک بھی مسلمان جاہل نہیں رہتا۔ آزادی کے بعد اب تک سینکڑوں مسلمان پارلیمنٹ، اسمبلی کے ممبربنے اور وزیر بھی بنے مگر کسی نے ایسی پہل نہیں کی جیسی اعظم خاں نے کی۔ کچھ مسلم لیڈران نے کالج وغیرہ ضرور قائم کئے مگر اعظم خاں کا کارنامہ تاریخی ہے اور اس کی آزاد ہندوستان میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھارت میں کل 686اضلاع ہیں اور اس عدد سے کہیں زیادہ مسلمان پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں ۔ اگر ہر مسلم رکن پارلیمان واسمبلی یا وزیر ایک ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک ایک کالج ہی قائم کرنے کی کوشش کرتا تو آج ملک کا کوئی ضلع ایسا نہیں بچتا جہاں ایک مسلم تعلیمی ادارہ نہیں ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ہم جانتے ہیں کہ سیاست میں بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، کئی غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور اعظم خاں کے طویل سیاسی سفر میں بھی ایسا کئی بار ہوا ہوگا مگر قوم کے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک عظیم دارے کے قیام نے انھیں جس انسانی عظمت کا حامل بنایا ہے، وہ کسی دوسرے مسلم سیاسی رہنما کے حصے میں نہیں آیا۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے ایسے رہنما نہیں پیدا کئے جو، ان کے مسائل کے لئے فکرمند ہوں۔ جن لوگوں کو بھی مسلمانوں نے چن کر پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بھیجا انھوں نے اپنی جائیداد میں اضافہ کیا، بینک بیلنس بڑھایا مگر کسی کوبھی توفیق نہیں ہوئی کہ یونیورسٹی تو کیا ایک اسکول ہی قائم کردے۔ کسی زمانے میں پارلیمنٹ کے اندر سلیمان سیٹھ، غلام محمودبنات والا اور سلطان صلاح الدین اویسی جیسے لوگ ہوتے تھے جو ایمانداری کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل اٹھاتے تھے اور کانگریس کے درجنوں مسلم ارکان پر بھاری پڑتے تھے۔ انھوں نے کچھ دوسرے ملی اور فلاحی کام بھی کئے تھے جن سے آج بھی مسلمانوں کو فائدہ مل رہا ہے مگر جو کارنامہ اعظم خاں نے انجام دیا ہے ،اس کے اثرات صدیوں تک قائم رہیں گے اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا کام کرتے رہیں گے۔جس طرح مسلم یونیورسٹی نے مسلمانوں کے اندر جدید تعلیم اور فکر کی روح پھونکی تھی اسی طرح جوہر یونیورسٹی سے بھی امید کی جاسکتی ہے۔

 اب بھی وقت ہے کہ مسلمان لیڈران مسلمانوں کی تعلیم کے پہلو سے سوچنا شروع کریں اور جہاں اپنے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں وہیں تھوڑا سا ملت کے لئے بھی کریں۔ اس وقت مسلمانوں میں ایسے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی کمی نہیں جو آگے آئیں تو محمد علی جوہر یونیورسٹی سے بڑے ادارے قائم کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سماجوادی پارٹی کے لیڈر ابوعاصم اعظمی، ترنمول کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ سلطان احمد،ادریس علی، کانگریس کے غلام نبی آزاد، کے رحمٰن خاں،روشن بیگ (وزیر کرناٹک)انڈین یونین مسلم لیگ کے ای احمد کے علاوہ سیاسی لیڈران میںبدرالدین اجمل، طارق انور ، محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ، مختار عباس نقوی، محمد سلیم، اسدالدین اویسی،اکبرالدین اویسی، مذہبی شخصیات میں مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، ڈاکٹر ذاکر نائک،پروفیسرمحمدامین میاں (اے ایم یو)، مفتی اختررضاخان ازہری، میر واعظ مولوی عمر فاروق ،سیدنا مفضل سیف الدین، صنعت کاروں میں عظیم ہاشم پریم جی، آرٹ اور اسپورٹس کے میدان سے عامرخاں، شاہ رخ خاں، سلمان خان، اے آر رحمٰن، جاویداختر، شبانہ اعظمی،نصیرالدین شاہ، محمداظہرالدین، ثانیہ مرزا وغیرہ وہ بااثر افراد ہیں جو چاہیں تو یونیورسٹی کا قیام کرسکتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی سطح پر کام بھی کررہے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ ان کا دائرہ اثر اور ان کی صلاحیتیں ایسی ہیں کہ وہ اپنے کام میں وسعت پیدا کرسکتے ہیں۔ 

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 393