donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Modassir Ahmad
Title :
   Sahafati Jehad Plan

صحافتی جہاد پلان


از:۔مدثر احمد۔کرناٹک،شیموگہ

:9986437327


جب بھی مسلمان کسی طرح کے ظلم وستم کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے درد میں شامل ہونے والے لوگوں کی کمی بہت ہے اور ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہماری مجبوریوں کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں اور ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہی ہم پریشانیوں کا شکار ہورہے ہیں۔یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے حالات کو سدھارنے کیلئے کوئی دوسری خدائی طاقت ہم پر نازل نہیں ہوگی بلکہ ہمیں خود ہی خدا کے بھروسے آگے آنا ہوگا۔ملک بھر میں جب بھی کہیں فسادات ہوتے ہیں تو مسلمانوں کو پولیس اور میڈیا خوب بُر ی طرح سے متاثر کرتی ہیں اور ہماری آوازدنیا تک نہیں پہنچتی اور ہمیں بروقت مدد نہیں ملتی۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے حالات سدھارنے کے بجائے دوسرے کندھوں کے سہارے جینے کی عادت بنا لی ہے۔ مثال کے طور پر ملک بھر کے پولیس محکموں کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا علم ہوگا کہ پولیس محکموں میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک فیصد سے کم ہے،اور جو مسلم افسران و اہلکار پولیس محکمے میں شامل ہیں وہ مسلمانوں کو انصاف دلانے میں یا تو دبائو کا شکار ہیں یا خود مسلمانوں کی مدد کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیروں کے سامنے نشانہ بننا نہیں چاہتے۔اسی طرح سے میڈیا میں بھی مسلمانوں کی کمی ہے،پورے ملک کا جائزہ لیا جائے توایک بھی کوئی انگریزی یاعلاقائی زبانوں کااخبار نہیں ملے گا جو لوگوں تک حقیقتوں کو پہنچا سکے۔سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کرسکے اور مسلمانوں کے درد کو عام لوگوں تک پہنچا سکے۔اسی طرح سے الیکٹرانک میڈیا کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ہم اپنی آخرت کے تعلق سے کئی ٹیلی ویژن چینلس بنا چکے ہیںلیکن دنیا کے لحاظ سے سچائی و حق بیانی بیان کرنے کیلئے بھی کوئی ٹی وی چینل نہیں ہے۔گن چن کر دو تین چینل ہیں جو کارپوریٹ سیکٹر کے ماتحت ہیں یا پھر ان چینلوں کو چلانے والوں کا تعلق قوم کی نمائندگی کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔یہ افسوس کی بات  ہے کہ مسلمان آج مالی و اقتصادی طو رپر مضبوط ہونے کے باوجود اس ضمن میں غور نہیں کررہا ہے،ہندوستان بھر کے مسلم اراکین پارلیمان ،اراکین اسمبلی،مسلم تاجران اور ہزاروں این آ ر آئیس مالدار ہیں اور ہر ایک کے پاس لاکھوں کروڑوں روپئے بینکوں میں سڑھ رہا ہے۔مگر کسی کے پاس ایک قومی میڈیا لانے کا جذبہ نہیں ہے کچھ سیاستدان اپنے طور پراپنے علاقوں میں اخبارات کی شروعات کی ہے اس میں ہر روز ان کے قصیدوں کے سواء قومی وملی مسائل پر کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔ہندوستان میں برہمنوں کا ایک میڈیا ہائوز ہے،لنگایتوں ،گوڈاس،یادو،عیسائی اسی طرح سے ہر مذہب کا ایک ٹی وی چینل یا کم از کم ریاستی سطح کا اخبار موجود ہے جس میں وہ باقاعدہ اپنی قوم کی ترجمانی کرتے ہیں اور اپنے مسائل کو حکومتوں کے ساتھ دنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں۔حالانکہ اس ملک میں مسلمان ذات کی لحاظ سے واحد قوم ہے جو سب سے بڑی اقلیت ہے۔ہم تعداد میں اقلیت ضرور ہیں لیکن طاقت میں کمزور نہیں ہیں ،کیا یہ اچھا ہوتا کہ مسلمان بھی اپنا میڈیا ہائوز قائم کرتے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں کو جوش آتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسجدوں و مدرسوں کی تعمیر کرنے لگتے ہیں،ہر گلی میں ایک مدرسہ و مسجد ہے،لیکن پوری ریاست میں ایک ٹی وی چینل کا آغاز نہیں ہو اہے۔ہمیں یہ حق ہی نہیں بنتا ہے کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے میڈیا میں ہمارے لئے انصاف کی آواز نہ اٹھنے کی شکایت کریں۔یہ تو اُن کیلئے بنائے گئے ہیں تو کیونکر وہ ہمارے حق میں کام کرینگے۔بات اتنی ہی نہیں کہ ہم نے کبھی میڈیا کی اہمیت کو نہیں سمجھا ہے ۔ہمارے یہاں ایک صحافی کو بننے سے پہلے  ہی توڑ دیا جاتا ہے اور ہماری قوم یہ چاہتی ہے کہ ہمارے جونوجوان میڈیا میں کام کررہے ہیں وہ قوم کی ترجمانی کریں اور کبھی یہ بھی نہیں سمجھا جاتا کہ نوجوان اپنی زندگیوں کو وقف کرتے ہوئے قوم کی ترجمانی کیلئے اپنی زندگی کے آرائشوں و آرام کو قربان کرتے ہوئے کچھ کر گذرنے کی چاہ لیکر آگے بڑھ رہے ہیں تو ان کی ہمت افزائی کریں اور ان کی راہوں میں آسانیاں پیدا کریں۔مسلمان یہ جان لیں کہ آج صحافت کے ذریعے سے ہی اپنے حقوق کیلئے جہاد کرسکتے ہیں اور قلم ہی ہمارا ہتھیار ہوگا ،کیمرے ہی ہماری توپیں ہونگی اور ٹی وی کا اسکرین ہی ہمارے لئے فائٹر پلین ہونگے۔ہمیں آج فرقہ پرستوں و صیہونی طاقتوں سے لڑنے کیلئے میڈیا میں مجاہدوںکی ضرورت ہے۔اسلام میں ہمیں جہاد کا طریقہ بھی بتایا ہے کہ اگر مجاہدین جہاد کیلئے آگے بڑھتے ہیں تو تمام مسلمان ان کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ ایک طبقہ ان کیلئے مالی وسائل فراہم کرتا ہے تو دوسرا طبقہ ان کی مددکیلئے تیار رہتا ہے،تیسرا گروہ عملی طو رپر مجاہدوں کے ساتھ رہتا تو چوتھا گروہ اخلاقی طور پر کی ان کی تائید کرتا ہے۔اس وجہ سے ہم پوری قوم اور امت مسلمہ سے گذارش کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے آگے آئیں اور مسلمانوں کے میڈیا کا’’ جہاد پلان‘‘ تیارکریں۔فائدہ تو ہر کاروبار میں ملتا ہے لیکن فائدے کیلئے محنت و قربانیوں کی ضرورت ہے ،یہ ممکن ہے اور ہوبھی سکتا ہے ،بس ہمارے دل میں عزم کرنے کی ضرورت ہے۔


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 447