donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nighat Nasim
Title :
   Aksar Ahle Adab Aurat Ke Mamle Me Be Adab Kiyon


 اکثر اہل ادب ،عورت کے معاملے میں بے ادب کیوں؟


ڈاکٹر نگہت نسیم ۔ سڈنی


سیول ، کوریا میں مقیم میری بہت ہی پیاری دوست ، عظیم افسانہ نگار اور ناول نگار ڈاکٹر نسترن فتیحی نے آج اپنا ایک اسٹیٹس مجھ سے شئیر کیا ۔۔ "‌ مجھے شکایت ہے ایسے افسانہ نگاروں سے جو فکری دیوالیہ پن کے شکا ر ہیں ،جن کی تحریر کے ایک ایک لفظ سے عورت کی تذلیل ٹپکتی ہے - جنہوں نے ادب کو بھی عورت کی بے حرمتی کا ٹول بنا رکھا ہے اور عورت سے ہمدردی کا ڈھونگ رچا کر اسے ہی ننگا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ..“

میں ابھی ان کے اس بیان  سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ مجھے ایک اور سانحہ سے دوچار ہونا پڑا جب مجھے پتہ چلا کہ یورپ میں مقیم میری ایک اور دوست کو صرف اس پاداش میں مطعون کیا جا رہا ہے اور شدید زہنی تکلیف دی جا رہی ہے کہ اس نے کسی نام نہاد دانشور صاحب کو ان کی اوقات اور اصلیت دکھانے کی کوشش کی تھی ۔ میری دوست نہ صرف مطعون ہو رہی ہے بلکہ اب خدا نہ کرے رسوا بھی کی جا رہی ہے ۔ اور وہ نام نہاد دانشور اپنی اسی کاروائی کے سلسلے میں عالمی اخبار سمیت مختلف زرائع سے مستقل کردار کشی اور منفی پروپیگنڈے کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں ۔

سچ پوچھیں تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس موضوع پر میں اس وقت لکھ رہی ہوں کبھی مجھے لکھنا بھی پڑے گا ۔ میں بڑے خاندانوں کی  تصویریں کھنچوانے والی عورتوں کی طرح کسی تحریک نسواں کی سربراہ تو نہیں لیکن دنیا میں کسی بھی کونے میں کسی بھی رخ سے عورت پر کوئی ظلم ہوا ہے  تو میں نے اپنی آواز بلند کی ہے۔ نا آشنا لوگوں کی بات کرنے والا یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی کسی دوست کے بارے میں گفتگو نہ کرے ۔  آپ کو یہ سطور پڑھتے ہوئے میری زہنی کیفیت اور قلم کی لرزش کا اندازہ  ہو گا کہ اس سے میرا  میرا کتنا مان ٹوٹا ہو گا ۔۔ مجھےکتنی زہنی ازیت اٹھانی پڑی ہو گی ۔۔ میرے دل کوکتنی تکلیف پہنچی ہو گی جو میں یہ کالم لکھ رہی ہوں ۔ اور شاید کبھی نا لکھتی چاہے کتنی ہی دکھ اور تکلیف میں رہتی لیکن خود کو استاد ، قلمکار ، اہل علم ، دانشور ، محقق، کیمیونٹی راہنما اور نا جانے کیا کیاکہنے والے  ان صاحب کی طرف سے واہیات خطوط اور نہایت سطحی زبان کی ای میلز کا سلسلہ جاری نہ رہتا ۔  میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ لوگ جن کے اپنے گھر ٹوٹ جاتے ہیں وہ اپنی زات کی خامی تلاش کرنے کی بجائے ہر دوسرے کا گھر کیوں توڑنا چاہتے ہیں ۔ میں ایک ماہر نفسیات کے طور پر خوب اچھی طرح سے اس بیماری سے واقف ہوں اور چونکہ ایسے زہنی بیمار لوگوں پر ترس آتا ہے ورنہ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے میرا لہجہ اور بہت زیادہ سخت اور میرے الفاظ اور زیادہ کاٹ دار ہوتے ۔

مردوں کے نام کو شرمانے والے اکثر ایسے مردوں کاعورت کے ساتھ یہ رویہ صرف ادب کے شعبے تک  محدود نہی بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی  میں ایک مزدور عورت سے لے کر ڈائریکٹر کے عہدے تک کی عورت کے ساتھ یکساں سلوک ہے  اور یہ صورتحال غریب ، متمول ، ترقی پذیر یا کسی غریب ملک تک محدود نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ شہروں میں بھی یہ رویہ موجود ہے ۔ پھر یہ معاملہ کسی ایک دین اور مذہب کا بھی نہیں بلکہ ہر دین ، ہر مذہب ، ہر مسلک اور ہر ازم ایسے زہنی بیمار یہ بھول جاتے ہیں کہ ان جیسے حشرات کو پیدا کرنے والی بھی ایک “ عورت “ تھی ۔ اور وہ جس نے ایسے بے حس لوگوں کی نسل کے تسلسل کے نام پر ان کے بچوں کو جنم دیا وہ بھی ایک عورت ہی تھی ۔ میرے پاس کہنے کو اتنا ہے کہ اگر ایک ماہ تک مسلسل اس موضوع پر لکھتی رہوں تو بھی اکثر مردوں کے ہاتھوں عورت کی تضحیک کے کسی ایک پہلو کو بھی مکمل نہ کر پاؤں ۔ میں اور مجھ جیسے فکر کے حامل بہت سے اہل قلم نے اپنی تحریروں میں اکثر یہ لکھا ہے خاص طور ہمارے معاشرے کے سب سے زیادہ بے عمل افراد یاتو ادب کے شعبے میں ہیں یا پھر دین کے شعبے میں ہیں ۔ یہ لوگ جو کہتے اور لکھتے ہیں اس پر خود بھی عمل نہیں کرتے ۔

مجھے اس وقت اس موضوع جہتوں کو الگ رکھ کے ایسے مردوں کے دوغلے رویوں کی بات کرنی ہے جو خود بزام خویش اہل علم ، استاد ، شاعر ، دین اور جانے کیا کیا سمجھتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ہی بیمار زہنوں کے نا گفتہ رویوں کی وجہ سے ادب، دین ، معاشرہ بدنام ہو رہا ہے ۔
 
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں یہاں سو فیصد مردوں یا مردوں کی بڑی اکثریت کی بات نہیں کر رہی بلکہ خاص طور پر ایسے مردوں کی بات ہے جو اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے پرائمری کے سطح کے بھی نہ ہوں لیکن تعلیم کے حوالے سے خود کو پی ایچ ڈی کی سطح سے بھی بلند سمجھتے ہیں ۔  میں حیران ہوتی ہوں کہ کسی کی ماں بیٹی کورسوا کرتے وقت وہ مکافات عمل کیوں بھول جاتے ہیں کہ کبھی ان کی ماں ، بہن ، بیوی اور  بیٹی بھی رسوا ہوسکتی ہے ۔ انہیں بھی بھی کوئی سرعام گالیوں سے نواز سکتا ہے اور اپنی  بد تہذیبی اور بد نیتی کانشانہ بنا سکتا ہے  ۔ جب اہل ادب ہونے کا دعوی کرنے والا  کسی کا ادب نہیں کر سکتا تو دنیا تو ہے ہی بے ادب ۔ میری جنت مکانی ماں کہاکرتی تھیں کہ دنیا پر ہر وقت سوا نیزے سورج رہتا ہے ۔۔ زرا سا کسی نے پردہ کھینچا سب کچھ جل جاتا ہے ۔ شاید ان کا مطلب اسی رسوائی کی آگ سے ہوگا ۔

ادبی دنیا کی سفاکی اس سے بڑی اور کیا ہو گی کہ شعرا کبھی شعر و ادب سکھانے کے بہانے ،  کبھی تعریف کی چادر اوڑھ کر اپنی گندی نظروں کوبہلاتے رہتے ہیں اور جب موقع ملتاہے تو ہاتھ پکڑ کر چادر چھین لیتے ہیں ۔ اور بعد میں کہتے ہیں کہ سارا قصور عورت کا تھا،  کیا اسے معلوم نہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ ۔ اس نے ہمیں ہاتھ پکڑنے سے کیوں نہیں روکا ۔۔ تعریف کرنے  سے کیوں نہیں روکا ۔۔۔۔۔۔۔ بلکل درست کہا انہوں نے  اور یہاں میں ان کی طرفدار ہوں  کہ یہ عورت کی غلطی ہے کہ اسے بھی اللہ پاک نےعقل اور سمجھ عطا کی ہے ۔۔ اسے ضرور سامنےوالے کی نیت کی خبر ہونی چاہیئے ، کم از کم اپنی عمر کے تجربوں سے کچھ سیکھنا ہی چاہیئے  ۔۔ لیکن سنیئے اگر عورت کو نہیں پتہ چلا تو اس کامطلب یہ تو نہیں ہے کہ آپ اسے اس کی معصومیت اور بے خبری کی اتنی بڑی سزا دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مردوں کو اپنے اپنے اخلاق اور کردار کی بھی کوئی حد مقرر کرنی ہوتی ہے یامرد ہونے کے ناطے  "‌حد "‌صرف عورت پر ہی لگتی ہے ۔

 یہ جو خاص طور پر دین اسلام میں مخصوص مقامات پر مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے تو اس کی وجہ دراصل عمومی طور پر مرد کا جسمانی طاقت میں زیادہ ہونا اور زیادہ زمیداری اور حیا کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ مرد کے بارے میں حیا کا لفظ سن کر چونکیئے نہیں ۔ حیا کی مناسبت سے قران کی جس آیات کا  اکثر حوالہ دیا جاتا ہے وہ صرف عورتوں کے لیئے نہیں بلکہ مردوں کے لیئے بھی ہے ۔ اور حیرت کی بات ہے قران میں حیا کا لفظ مرد کے لیئے پہلے استعمال کیا ہے اور عورت کا بعد میں ۔۔۔ ارشاد ہوتا ہے “ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں “ یا پھر سورہ نور میں تواللہ پاک نے باقائدہ طور پر یہ فیصلہ سنا دیا کہ “  ناپاک اور بے حیامردوں  کے لیئے  ناپاک اور بے حیا عورتیں ہیں جبکہ پاک اور حیادار مردوں کے لیئے پاک اور حیا دار عورتیں ہیں “ ۔ یہاں پاکیزگی سے مراد صرف جسمانی پاکیزگی نہیں بلکہ اس سے زیادہ زہنی پاکیزگی ہے ۔ اور حیا سے مراد صرف شرم و حیا نہیں بلکہ انسانی بدن کے ہر عضو کی حیا ہے ۔

چلیئے ایک لمحے کے لئے  فرض کیجئے  اگر کچھ معاملات میں عورت سے یہ سہو ہو ہی گیا تو رسوا صرف عورت ہی کیوں ۔۔۔ سوچیئے ان  “ محرم لمحوں “  میں مرد کا بھی اتنا حصہ ہے جتنا عورت کا ۔ ۔۔ پھر برا ایک ہی فرد کیوں کہلاتا ہے ۔اور وہ بھی صرف عورت ۔۔ آخر کیوں ۔۔  آخر کیوں ۔۔ ؟ اسی لیئے نا کہ عورت کا کیا ہے اس پر جتنا مرضی کیچڑ اچھالیں وہ اپنی بچی کچھی عزت بچانے کے لیئے  کبھی نہیں بولے گی اور اگر بولی تو مردوں  کے اس معاشرے  میں اس کی سنے گا کون ۔۔۔؟  یہ بھی تو ہوتا کئی بار دیکھا گیا ہے کہ کوئی دوسرا مرد اس دکھیا عورت کی داستان سننےکے بہانے بچی کچھی عزت بھی لے اڑا ۔۔۔۔ بس یہی وجہ ہے کہ عورت کو اپنے محسن پر بھی اعتبار کرتے ہوئے ایک سے زائد بار سوچنا پڑتا ہے ۔

 کچھ عرصہ پہلے  کا ایک واقعہ سنیئے ایک پاکستانی طالب علم شاعرہ ،امریکہ کے ایک مشہور شاعر کی پاکستان ہی میں اس وقت  وڈیو بنانے میں کامیاب ہو گئی  جب وہ موصوف متعدد ملاقاتوں کے بعد لفظی زیادتیوں سے کچھ آگے بڑھ کردست درازی کی حد میں داخل ہو رہے تھے ۔ اس بہادر طالب علم شاعرہ نے  وہ وڈیو سوشل میڈیا کی زینت کر دی اور اب اس شاعر کے لیئے کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔۔۔۔۔۔ سوچتی ہوں وہ طالب عالم شاعرہ جانے کتنی بے عزتی سہہ چکی تھی کہ اسے اس شاعر کو منظر عام پر لانے کے لیئے  مزید رسوائی سہنا معمولی سا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ دوستو ، یاروں نے کہا کہ یہ وڈیو جعلی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعرہ نے اپنامطلب پورا نہ ہونے کی وجہ سے مرد شاعر کو رسوا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‌نےاس وقت بھی یہی سوچا تھا اور آج بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ اگر یہی وڈیو مرد شاعر نےبنائی ہوتی تو آج طالب علم شاعرہ اپنے ہی ادیب شاعروں کے ہاتھوں  سنگسار ہو چکی ہوتی ۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ محبت کا  دم بھرنے والا ، محبت کے گیت لکھنے والا  مرد بھلا کیسے ایک دم دھمکیوں پر اتر آتا ہے  ۔ کل تک جس عورت سے بہتر نہ کوئی لکھنے والا ہوتا ہے ، نہ شاعر ، نہ ادیب ، نہ دوست اور نہ ہی اس جیسی خوبصورت عورت ۔۔  پھر بھلا صرف  چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک اختلاف کے باعث  وہی عورت دنیا کی بد کردار ،  جعلی ڈگریوں والی اور حقیر ترین عورت میں کیسے بدل جاتی ہے اور مرد کو اپنی انا کی یہ چوٹ اتنا زخمی کر دیتی ہے کہ وہ  اپنی تمام تر کوششیں عورت کو سب کی نظروں سے گرانے پر لگا دیتا ہے ۔ اس کے لیئے وہ اتنے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتاہے کہ الاماں ۔۔۔۔۔ آجکل چونکہ زمانی ہائی ٹیک ہے تو ای میل لکھنا سب سے  آسان ترین کام ہے سو ایک کلک یعنی چشم زدن میں کوئی بھی ایسی ای میل ہزار ہا افراد کو بھیج سکتا ہے ۔ ۔۔ مجھے بحثیت نائب  مدیرعالمی اخبار ایسے ایسے خط روزانہ ملتے ہیں کہ اگر اس کی ایک بھی جھلک میں یہاں لگادوں تو یقین جانیئے آپ شاید زندگی بھر کسی پر  اعتبار کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔ ہائے اعتبار ہی توزندگی کا حسن ہوتا ہے ۔۔ عمر بھر کا اقرار اور قرار ہوتا ہے ۔۔۔ پر سیانے کہتے ہیں کہ اعتبار دلانے والے ہی سب سے زیادہ نا قابل اعتبار  ہوتے ہیں.

میری اس گفتگو سے مراد کوئی ہر گز نہ لے کہ میں خدا نخواستہ ہر مرد شاعر ادیب اور استاد کے بارے میں یہ بات کر رہی ہوں ۔ مجھ جیسی بہت سی خواتین کے تجربے میں ایسے با علم اور با عمل شاعر ادیب اور استاد بھی ہیں جن کی عملی زندگی کی وجہ سے شاعر ادیب اور استاد کے لفظ کو حرمت ملی ہے ۔ رہی بات کسی پر الزام تراشی کی تو بدقسمتی سے بلکہ انتہائی بدقسمتی سے پاکستان کی حد تک کیا خود اہل ادب نے ہی احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کی ان ہی حوالوں سے تضحیک نہیں کی ۔ ہمارا عمومی شاعر اور ادیب اتنا کوتاہ  نظر  اور چھوٹے قد کا ہے وہ کسی بھی با علم اور با عمل شخص کے ساتھ کسی ادبی محفل میں ہی بیٹھی ہوئی خاتون کے بارے میں فقط یہ سوچ کر تلملاتا ہے کہ یہ خاتون اس کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھی ہوئی ۔ اور اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ خاتون دنیا کی سب سے بڑی دانشور کہلاتی ۔ میں لکھنے سے پہلے سوچنے کی عادی ہوں ۔ اس لیئے اپنی اس تحریر کے کسی ایک فقرے کے بارے میں تو کجا کسی ایک لفظ کے بارے میں بھی معذرت کا نہیں سوچ سکتی ۔ میں کیچڑ اچھالنے والوں کی زہنیت سے واقف ہوں اور جانتی ہوں کہ جب تک انہیں ان کی زہنیت کے مطابق جواب نہ دیا جائے بات ان  کی سمجھ میں نہیں آتی ۔

دوستو

میں اس اعصاب شکن جنگ کانقشہ کھینچنا چاہتی ہوں جودونوں جانب ایک ہی شدت سے اثر انداز ہوتی ہے ۔ کسی فرد  کا حسد ، احساس کمتری  یا دشمنی میں  کسی دوسرے پر جملے بازی کرنا، الزام لگانا ، انہیں اور ان سے منسلک ہر فرد کو  ای میل لکھ لکھ کر زلیل و رسوا کرنا ، ان کی قابلیت کو دوسروں کی نظر میں  مشکوک بنانا ، ان پر زندگی کو اس طرح سے تنگ کر دینا کہ دوسرا شخص معمول کی زندگی نہ گزار سکے “ ہراسمنٹ‌ اور سٹاکنگ “ کہلاتی ہے ۔  اس  زہنی تشدد کو سہنے والے افراد پر اس کے  اثرات  زہنی دباؤ ،  سٹریس، ڈیپریشن اور خود کشی تک جا پہنچتے ہیں ۔ زہنی تشدد،  مجرمانہ زہن کی کی علامت ہے اور جو یہ زہنی تشدد کر رہا ہوتا ہے اس کا انجام آخر کار جیل ہوتا ہے ۔ ضمیر کی جیل اس لیئے نہیں لکھا کہ ایسے افراد کا ضمیر ہوتا ہی کب ہے ۔

تعلقات اور رشتوں کے مداراج ہوا کرتے ہیں ۔ اور انہی مدارج کی بنیاد پر احترام کی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔ اور یہی احترام بھائی ، بہن ، دوست ، عزیز اور دل سے محبت کرنے والے کے درمیان فرق واضح کرتا ہے ۔ لفظ محبت سے یاد آیا کہ میرے ایک کرم فرما اکثر یہ کہا کرتے ہیں “ دنیا بھر میں دو الفاظ کا سب سے زیادہ استحصال اور تضحیک ہوئی ہے ان میں سے ایک لفظ محبت اور دوسرا لفظ دوست ہے “ ۔ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی لسانیات میں ان دونوں الفاظ کا کوئی نعم البدل نہیں ۔

سوچیئے ۔۔۔۔ للہ سوچیئے !

کیا آج تک کوئی رد عمل ، عمل کے بغیر ہوا ہے ۔۔۔۔ ؟‌
کیا دوستوں سے رنجشیں‌ ہوجانے کے بعد ان کو زلیل و رسوا کرنا ضروری ہے ؟
کیا زلیل و رسوا کرنا " ہراسمنٹ‌" نہیں ہے ۔۔ ؟
کیا کسی کو ہراس کرنا “ زہنی قتل “ کے مترادف نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‌؟
کیا کسی کو زہنی قتل کر کے قاتل اپنی شعور اور ضمیر کی سزا سے بری ہو سکتا ہے ۔۔ ؟‌

تو دوستو نتیجہ کیانکلا ۔۔ یہی نا کہ جودوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود بھی اسی میں جا گرتا ہے ۔۔۔۔

 مرد صرف عورت کی عزت رشتوں کی وجہ سے کرتا ہے ۔ جس دن وہ عورت کو صرف عورت سمجھ کر عزت اور برابری کا درجہ دے گا اس دن ہر رشتہ باعزت اور متبعر ہو جائے گا ۔ یقین جانیئے دوستی ، محبت ، مروت ، رواداری ، کسی کی اخلاقی مدد کرنا سب اپنی اپنی جگہ انسانیت کاشعار ہیں لیکن  ایسے خوبصورت اور حیادار تعلق کو  اپنےجھوٹ اور مکاری سے بازاری رنگ دینا ، صرف اپنی تسکین و مفاد کی خاطر ان کی کردار کشی کرنا ، انا کی وقتی تسکین  کے لیئے  دوست کی عزت کو کھیل تماشا بنا لینا کسی طور پر جائز نہیں ہے ۔

 بحثیت انسان ، ہر مرداور عورت  پر زمیداری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے  کے بھروسے اور اعتبار کی لاج مرتے دم تک  رکھیں  اور اپنے دوست اور دوستی کی عزت آخری سانس تک نبھائیں  ۔ اس ضمن میں ہمیں مکافات عمل کو نہیں بھولنا چاہیئے  اور اس سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی حدیں متعین کرنا ہونگی اور اپنے لئے ضابطہ اخلاق مقرر کرنا ہونگے تاکہ ایک نئے اعتماد اور اعتبار سے زندگی کی شروعات کی جاسکے۔

عزت اور تضحیک کے درمیان بال برابر فرق ہوتا ہے ۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس سے آپ نے زندگی کے چند لمحے بھی صحیح معنوں میں محبت کی ہو ان چند لمحوں کی سزا آ پ اسے ، اس کے خاندان ، اس کی اولاد ، اور اس کے احباب کو زندگی ھر دیتے رہیں ۔ محبت تو آسمان سے زیادہ کشادہ چھتری ہے جو دشت دل پر برسنے والی ہر اس بارش کو روکتی ہے جس سے محبوب کو پھول جتنی تکلیف بھی پہنچتی ہو ۔ محبت خدا کا وہ نام ہے جو اس کے نناوے ناموں میں شامل نہیں لیکن اس کے تما م ننانوے ناموں کا اختصار ہے ۔ محبت تو ٹھنڈے میٹھے پانی کی وہ آبجو ہے جس کے کنارے لگے ہوئے درخت کی چھاؤں میں محبوب کا انتظار حیات تو کیا بعد از حیات بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ہم لفظوں کی روح میں اترنے سے عاری لوگ ہیں ۔ ہم لکھتے تو لفظ ہیں لیکن جنسی زیادتی سے بدتر زیادتی انہی لفظوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔

ہم جس قلم کو روز محشر شفاعت کی بنیاد کہتے ہیں اسی قلم سے ناپاک جملوں کاکیچڑ اچھالتے ہیں ۔۔ مجھے یہ کہنے دیجئے ہم اپنے نام علی ، حسن ، حسین ، عمر ، عثمان ، عباس ، اور جانے کن کن خدا شناس ہستیوں کے نام پر رکھتے ہیں ۔ اور کچھ تو ہم میں اتنے نڈر اور بے خوف ہیں کہ ان کا نام اس نام نامی پر ہے جس کے لیئے خالق کائینات نے حدیث قدسی کے الفاظ میں یہ دنیا بنائی ، زمین و آسمان کی چادر اور چھت تیار کی اور جسے اپنا محبوب کہا ۔ ہم میں سے فقط ناموں کے حوالوں سے بہت سے احمد ہیں ، بہت سے محمد ہیں اور بہت سے مصطفی ۔۔کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ہماری بے عملی نے ان ناموں کی تضحیک کا سامان کیا ہے ۔

مجھے محترم صفدر ہمدانی صاحب کا شعر یاد آگیا ۔۔۔۔

کردار ہے یزید کا ہونٹوں پہ یا حسین
تضحیک ایسے لوگ ہیں نام حسین  کی

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 870