donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Samreen Farid
Title :
   Susral Ladkiyon Ke Liye Aik Darsgah

 

سسرال ، لڑکیوں کیلئے ایک درسگاہ 

 


بہوئیں طالبات بن کر بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں

 


ڈاکٹر ثمرین فرید


    جس طرح کسی بھی شخص کی عادات و اطوار اور خیالات میں تربیت کسی مکتب یا تربیتی ادارے میں ممکن ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح عورت کو زندگی بہترین ڈھنگ سے گزارنے اور معاملات سے بہتر طورپر نمٹنے کا ہنر سسرال میں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ عورت کا اصل گھر اس کاسسرال یا شوہر کا گھر ہے۔ اسی گھر میں وہ زندگی کی ہر اونچ نیچ کامقابلہ کرناسیکھتی ہے۔ والدین کے نزدیک رہ کر کوئی بھی لڑکی اپنی اصل یعنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ ہی سیکھ پاتی ہے۔ ازدواجی زندگی کے اسرار و رموز اس پر شادی کے بعد، سسرال میں ہی کھلتے ہیں۔ عورت کے لئے سسرال سب سے بہترین درسگاہ ہے اور ساس اس کی سربراہ ہے۔ جہاں ساس کی ذمہ داریاں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کی قابلیت اور دانش مندی پر ہی گھر بھر کی خوشیوں اور سکون کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر ایمانداری اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر ساسیں محدود ذہنیت اور بہت سی باتوں میں انا پرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کا باعث بہوئوں سے ان کی چپقلش رہتی ہیں اور اچھا خاصا گھر جہنم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر بگڑے ہوئے معاملے میں قصور وار ساسیں نہیں ہوتیں مگر سچ یہ ہے کہ بیشتر ساسیں انتہائی استحقاق پسند ہوتی ہیں۔ وہ بیٹے اور بہو دونوں کو ہرلحاظ سے مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بیٹا اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔ بہو کی آنکھوں میں بھی خود مختار زندگی کے سپنے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی اور کی مرضی کا پابند ہونا ان دونوں کو اچھا نہیں لگتا۔ 


    زیادہ تر مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کے لئے بہت بیتاب دکھائی دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ بیٹے کی شادی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔ بہو کے لئے زیور تیار کرنے کی غرض سے وہ اپنا زیور بیچ ڈالتی ہیں ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد س اس بہو کو غلام کیوں سمجھنے لگتی ہیں اوربہو کی خاطر سب کچھ قربان کر ڈالنے کا وہ جذبہ سرد کیوں پڑجاتا ہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بعض ساسیں اتنی تنگ نظر اور بدمزاج ہوتی ہیں کہ بہو کو ہر وقت جہیز کم لانے کا طعنہ دیتی ہیں اور انہیں پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتیں۔ اگر بہو کوئی عام سی چیز بھی مانگ لے تو ٹکاسا جواب ملتا ہے کہ ’’تمہاری ماں نے جہیز میں تمہیں دیا کیا تھا۔ کچھ لے کر آجانا تھا ‘‘ یا یہ کہ اپنے باپ سے کیوں نہیں مانگتی ؟‘‘


    بہت سی بہوئوں کو بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس سے کئی کئی دن ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے۔ شادی کے وقت ساس سب کے سامنے جو زیورات بہو کو دیتی ہے بعد میں وہ بھی اس سے اتر والیتی ہے۔ بسا اوقات بہو کے وہ زیورات بھی اتر والئے جاتے ہیں جو اسے اس کے ماں باپ نے دیئے ہوتے ہیں، ہم اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں تو صورتحال بدلے گی نہیں کہ آج ہمارے بیشتر گھرانوں میں ساس اور بہو کے مابین بدگمانیاں منطقی حد سے ز یادہ ہیں۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی کہانی چل رہی ہے۔ آپ کے گھر میں بھی بہت سے مسائل ہوں گے ان مسائل کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے بھاگنے کی بجائے ان کاسامنا کیا جائے۔آج ساس بہو کا جھگڑا اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور اس کے باعث اتنے گھرانوں کاسکون دائو پر لگاہوا ہے کہ اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ 


    ساس کا فرض ہے کہ وہ تمام اہم امور میں بہو کو اپناسمجھے ، اس پر بھروسہ رکھے۔ دونوں کو زندگی بھر ساتھ رہنا ہے، لہذا یہ ممکن نہیں ہی نہیں کہ بدگمانیاں بھی ہوں اور معاملات پر سکون ڈھنگ سے آگے بڑھیں۔ بہو بھی انسان ہے۔ اس کی بھی خواہشات اور تقاضے ہیں ان تقاضوں کا پورا کیا جانا اشد ضروری ہے۔ ساس کو چاہئے کہ کہ وہ ہر معاملے میں بہو کی رائے کو بھی اہمیت دے ، اس سے صلاح مشورہ کرے۔ مشاورت سے معاملات سلجھتے ہیں۔ جن سے رائے طلب کی گئی ہو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی انہیں بھی اہمیت دے رہا ہے۔ بہو سے رائے طلب کی جائے تو وہ گھر میں اپنی اہمیت محسوس کرتی ہے۔ اگر بہو کو سسرال میں اہمیت دی جائے ، اس سے مشاورت کی جائے تو نتیجتاً وہ بھی سسرال کو اپنا گھر سمجھنے لگتی ہے اور بدگمانیاں نہ صرف کم بلکہ ختم ہوجاتی ہیں۔ 

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 616