donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title :
   Aurat Bazar Kab Ja Sakti Hai

عورت بازار کب جاسکتی ہے؟
 
یہ بات مسلم ہی قرون اولیٰ میں جو کہ امت اسلامیہ کی بہترین افراد کا عہد زندگانی اور مثالی معاشرہ تھا، عورتوں کی بازار آمد و رفت بہت ہی کم تھی۔ ام المومنین خدیجہؓ مکہ کی مالدار خاتون تھیں۔ وہ بازار میں خرید و فروخت کرنے کی بجائی اپنا مال ایماندار تاجروں کو پیش کرتیں اور اپنے غلام کو امور تجارت پر نظر رکھنی کیلئے ساتھ بھیج دیتیں، حتیٰ کہ ان کا مال سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا، اس کی تفصیل کتب سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت وہی عورت بازار میں نظر آئی تھی جو انتہائی مجبور ہوتی، اس کی ضروریات پوری کرنی والا کوئی مرد نہ ہوتا، وہ اپنی لئےیا اپنے بچوں کی لئے مجبوراً گھر سے نکلتے، بازار جاتے اور جلد سے جلد اپنا کام ختم کرکے واپس آجاتے۔ اس لئے شاید ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عورت فقط ایک ہی حالت میں بازار جاکر خریداری وغیرہ کرسکتی ہیے اور وہ یہ کہ اسے کوئی ایسا مرد میسر نہ ہو جو اس کو بازار سے اشیائی ضرورت لاکر دے یا مرد تو ہو مگر اس کی لئے بازار جانا ناممکن ہو مثلاً یہ کہ وہ گھر میں موجود نہ ہو، مریض ہو یا پاگل ہو، مطلوبہ چیز خریدنی کی اہلیت نہ رکھتا ہو یاپھر خریدو فروخت کی اصول و قواعد سے یکسر ناواقف ہو۔
 
اس مضمون میں جوباتیں کہی گئی ہیں ان میں سی بعض کا تعلق مردوں سی بھی ہی اگرچہ ہماری کاوش مسلمان بہنوں کی لئی خاص ہی۔اس اصول کو بیان کرنی کی بعدہم چند ایسی گزارشات مسلمان بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گی جن پر عمل کرنا ہر مسلمان عورت کا فرض ہی۔ یہ وہ اسلامی آداب ہیں جو بازار جانی والی ہر مسلمان خاتون کو تحفظ فراہم کرنی کا ذریعہ اور اس کی پاکدامنی اور عفت و عصمت کی حفاظت کا سبب ہیں، ان کا ذکر اس لئی ضروری ہی کہ آج کل اکثر خواتین و حضرات بازار جانی کو دل پسند مشغلہ بنائی ہوئی ہیں مگر اس سی پہلی ہم بازار کی شرعی حیثیت کا تجزیہ پیش کرنی کی اجازت چاہیں گی۔
 
بازار کیسا مقام ہی؟
یاد رکھئی! عام طور پر بازاروں میں اللہ تعالیٰ کا نام کم ہی لیا جاتا ہی۔ جہاں ناپ تول میں کمی، دھوکہ دہی، ملاوٹ، قیمتوں کا ناجائز اتار چڑھاؤ، فراڈ اور کساد بازاری کا دور دورہ ہو وہ جگہ ایک مسلمان کی لئی کیسی پسندیدہ ہوسکتی ہی؟ جس مقام پر اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہوتا ہو، وہ جگہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی ہاں قابل تعریف ہی اور نہ ہی ایک سچی مسلمان کی ہاں دل پسند ہی بلکہ اگر مجبوری کی بنا پر اسی وہاں جانا پڑجائی تو اس کا دل کڑھتا ہی۔ خوش نصیب ہیں وہ تاجر اور خریدار جو بازاروں میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتی ہیں۔ پورا تولتی ہیں، ایمانداری سی کام لیتی ہیں اور خریدو فروخت میں مالک کائنات کا خوف دل میں رکھتی ہیں۔ اکثر تو وہ ہیں جو خرید و فروخت، لین دین، پیسہ کمانی اور وسائل کو بڑھانی میں اس قدر مگن ہوتی ہیں کہ انہیں اپنی مالک حقیقی کاکوئی خوف نہیں اور وہ حلال و حرام کی تمیز کئی بغیر دن رات دولت جمع کرنی میں لگی رہتی ہیں۔
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 709