donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title : رمضان المبارک کا امریکہ میں احتر
   Ramzanul Mubarak Ka America Me Ehteram wa Ehtemam



 

 رمضان المبارک کا امریکہ میں احترام و اہتمام


ڈاکٹر سیّد احمد قادری


 رابطہ : 9934839110


       اس سال رمضان المبارک کے سایہ فگن ہوتے ہی آخر کار امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسلام اور مسلمان کے سامنے سپر ڈال ہی دی۔ امریکہ کے وہائٹ ہاؤس میں صدر بل کلنٹن کے ذریعہ 1990 ء سے دی جانے افطار پارٹی کی شاندار روایت کو موجودہ صدر ٹرمپ نے برسر اقتدار آتے ہی  یعنی گزشتہ سال ختم کر دیا تھا ،جس کے خلاف احتجاج میں امریکہ کے مسلمانوں نے ٹرمپ ہاؤس کے قریب ہی بڑے پیمانے پرافطار پارٹی کا اہتمام کیا تھا ۔ ٹرمپ کی اسلام اور مسلمان مخالف بیانات سے یوں بھی امریکہ کے مسلمان خفا چل رہے ہیں ۔لیکن اس سال ٹرمپ کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا اور انھوں نے  6جون2018 ء کو وہائٹ ہاؤس میں افطار اور کھانے پر روزہ داروں کو مدعو کیا ۔اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ماہ مقدس رمضان کی مسلمانوں کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ کہا کہ آج کی شام اس تقریب میں ہم سب  دنیا  کے عظیم ترین مذاہب کی ایک مقدس روایت کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ اس دعوت افطار میں یوں تو بڑی تعداد میں مسلم ممالک کے لوگوں نے  مثلاََ متحدہ عرب امارات، اردن،مصر،تیونس، عراق،بحرین،مراکش،الجزائر،لیبیا وغیرہ کے سفیروں کے ساتھ ساتھ امریکی حکام نے شرکت کی ۔لیکن امریکہ کے مسلم تنظیموںنے ٹرمپ کی دعوت افطار کا بائکاٹ ہی نہیں کیا ، بلکہ وہائٹ ہاؤس کے سامنے ہی بڑے پیمانے پر افطار کا اہتمام کیا ، تاکہ یہاں کے مسلمان وہائٹ ہاؤس کی بجائے مسلمانوں کے ذریعہ دئے جانے والے افطار کو ترجیح دیں ۔ بہر حال یہ تو امریکہ کے افطار پارٹی کی سیاسی منظر نامہ ہے ۔اب ہم امریکہ میں رمضان المبارک کے احترام اور اہتمام پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس متبرک ماہ کا پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مسلمانوں کو بھی شدت سے انتظار رہتا ہے۔اس کی وجہ اللہ تعالہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روزہ داروں کے لئے اللہ تعالہ نے اپنے بندوں سے اتنے زیادہ ثمرات کا جس طرح وعدہ کیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ہر کلمہ گو کی یہ دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رحمتوں اور برکتوں کے مقدس ماہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور آخرت میں وہ یقینی طور پر بہشت کا حقدار ہو۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کی پوری دنیا کے لوگوں کی زندگی بھوک، پیاس اور طرح طرح کی خواہشات کے ارد گرد گھومتی ہے اور یہ رمضان کاروزہ ہی ہے جو کہ ان تینوں ضروریات اور خواہشات پر قابو پانے کی فضیلت کا درس دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ماہ سیام میں ہر نیک عمل کا ثواب ستّر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اب ایسے میں کون سا ایسا اللہ کا بندہ ہوگا ، جو اللہ کی رحمت اور برکت سے فائدہ نہیں اٹھائیگا۔ ہم عام طور پر مشرقی ممالک میں ہونے والے مقدس ماہ رمضان کے تعلق سے واقف ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دیگر ممالک، خصوصاََ امریکہ میں لوگ عام طور پر ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کی عظمت پر توجہ نہیں دیتے ۔ وہاں کے لوگ مقدس ماہ رمضان کے احکامات کو جس عقیدت اور احترام کے ساتھ  پورا کرتے ہیں، اسے دیکھ کر میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا ۔
           امریکہ میں مذہبی آزادی ہر شہری کو حاصل ہے۔ اس لئے یہاں دوسرے کئی مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام مذہب بھی اپنی پوری 


 خصوصیات کے ساتھ نہ صرف موجود ہے ، بلکہ  دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی متاثر کرنے میں بھی بے حد کامیاب ہے۔ جس کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔  


      امریکہ میں مذہبی آزادی کایہ عالم ہے کہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے ان کی تعداد کے تناسب سے ان کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں اور چونکہ امریکہ میں مختلف ممالک سے آکر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کافی ہے، اس لئے یہاں کے تقریباََ تمام شہر میں بے حد خوبصورت اور وسیع و عریض مساجد ہیں ، ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں اس وقت  1900سے زائد مساجد اور اسلامک سنٹر قائم ہیں ، جہاں لوگ آزادانہ طور پر عبادات ، دینی تعلیمات، تحفظ ثقافت اور اپنے مذہبی رسومات اورپرب و تہوار میں مشغول رہتے ہیں ۔ امریکہ کی یہ مذہبی آزادی اور رواداری ہی ہے کہ یہاں کے بعض شہروں میں جہاں کے چرچ بعض وجوہات کی بنأ پر ویران ہو گئے ، ایسے چرچ کو یہاں کے مسلمانوں نے خرید کر مسجد میں تبدیل کر لیا اور اپنے مذہبی عبادات میں یہاں مشغول رہتے ہیں ۔ مذہبی اور ثقافتی کشادہ دلی کا ہی یہ فیض ہے کہ یہاں کے دفاتر اور تجارت گاہوں ( والمارٹ، کروگر، مال وغیرہ ) میں مسلمان مرد و خواتین اپنے پورے تشخص کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ مرد اپنی شرعی داڑھی اور روائتی لباس اور عورتیں، حجاب اور نقاب میں بھی یہاں خوب نظر آتی ہیں ۔ مختلف مساجد میں نماز ادا کرنے کے لئے مختلف ممالک کے مردوں کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے، خواتین کے لئے عبادات کے لئے الگ سے خصوصی انتظام رہتا  ضرور ہے، لیکن امام ایک ہی ہوتا ہے۔ مساجد میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کے لئے الگ سے مدارس بھی قائم ہیں او ر درس و تدریس کے لئے باضابطہ مدرس بحال ہیں ، جہاں روزانہ عصر اور مغرب کے درمیان اور اتوار کو صبح سے ظہر تک دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مساجد میں کئی مساجد ایسی ہیں ،جہاں مُردوں کو غسل اور تجہیز و تفکین کا انتظام رہتا ہے  ۔  


          یہاں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں اکثر و بیشتر اسلامیات سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔رمضان المبارک میں رمضان کی اہمیت اور افادیت ، اس کے شرعی احکامات وغیرہ پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں اور یہاں کے کئی نجی ریڈیو اسٹیشنوں سے اسلامیات اور گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ میں نے امریکہ کے کئی شہروں کا دورہ کیا اوربہت سارے گھروں میں رہنے ساتھ ساتھ، لوگوں سے ملنے جلنے ، مختلف تقریبات میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا ۔ہر جگہ میںنے بہت شدّت سے اس بات کو محسوس کیا کہ امریکہ میں ہر مسلمان نہ صرف اپنے گھر، بلکہ گھر کے باہر بھی اپنے مذہب کا نہ صرف عقیدت و احترام کرتا ہے، بلکہ عملی مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ حلال اور حرام کا بھی انھیں خوب خیال رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں باضابطہ بڑے بڑے فوڈ مارٹ ایسے ہیں ، جہاںحلال اور ذبیحہ کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہاں کے ہوٹلوں میں بہت سارے ہوٹل ایسے ہیں ، جہاں بڑے بڑے ہورڈنگ حلال اور ذبیحہ کے لگے ہوتے ہیں ، اس لئے یہاں کے مسلمان ان فورڈ مارٹوں اور ہوٹلوں میں بلا جھجھک جاتے ہیںاوراسلامی پابندیوں کا خیال کرتے ہیں، گرچہ عام دُکانوں اور مارٹ کے مقابلے ذبیحہ گوشت تھوڑے مہنگے ہوتے ہیں ، پھر بھی یہاں کے مسلمان اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔  یہاں کے کئی ایسے فورڈ مارٹ ہیں، جو ر مضان ا لمبارک کے سایہ فگن ہوتے ہی اپنی دریا دلی کا مظاہرہ او رمضان کا احترام کرتے ہوئے کئی اشیاء کی قیمتوں میں کافی کمی کر دیتے ہیں ، جو کہ یقینا قابل تعریف عمل ہے۔ جبکہ انڈیا اور پاکستان وغیرہ میں رمضان  کے موقع پر بہت ساری  اشیأمہنگی ہو جاتی ہیں۔


    امریکہ میں ماہ رمضان المبارک کا استقبال  بڑے پر تپاک انداز میں کیا جاتا ہے، مرد، عورتیں، بچے سبھی بڑے خشو وخضو کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں ، یہاں کی مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں ۔ روزہ داروں کی روزہ کشائی کا ثواب حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے ہوٹل والے ، اور دیگر مخیر حضرات کی جانب سے روزانہ ہر مسجد میں افطار اور کھانے کا بہترین انتظام ہوتا ہے،  افطار میں کھجوراور شربت کے ساتھ ساتھ پھل ، پھلکی ، پکوڑی ، جیلابی اور چنا وغیرہ ہوتا ہے ۔ افطار کے بعد مرد ،عورتیں ، بچے سبھی مغرب کی نمازادا کرتے ہیں اور نماز ختم ہوتے ہی کھانا چن دیا جاتا ہے، اور کھانا بھی بے حد پر تکلف، یعنی بریانی، نان، مرغ ،مٹن وغیرہ کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھا بھی ضرور ہوتا ہے۔ میں یہ بات واضح کر دوں کہ یہ افطار و کھانا فطرہ یا زکوٰۃ کی رقم سے نہیں ہوتا۔  چونکہ یہاں کی  بیشتر عورتیں جاب کرتی ہیں ، اس لئے وہ خود اور ان کے شوہر و بچے بھی نہ صرف افطار و کھانا  کے لئے بلکہ نماز و تراویح کے لئے بھی مسجد آ جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کی رہائش دور دور پر واقع ہے اور لوگ تعداد کے لحاظ سے کافی پھیلے ہوئے ہیں،اس لئے لوگوں کا ملنا جلنا بھی ہو جاتا ہے ۔ ایسے تمام لوگ مساجد میں افطار کے اس نظم سے استفادہ کرتے ہیں ۔ مساجد میں یوں تو پورے رمضان بھر ایک خاص طرح کا  ماحول رہتا ہے، لیکن عصر سے عشاء تک کا ماحول بڑا ہی روح پرور ہوتا ہے۔ یہاں کی مساجد میں رمضان ا لمبارک کے آخری عشرہ میں بیس بیس لوگ اعتکاف میں بھی بیٹھتے ہیں ، جنھیں ساری سہولیات مسجد کی کمیٹی کی جانب سے دی جاتی ہیں ۔مساجد کے امام کی تنخواہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بہت سارے لوگ امامت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جمعہ کو خاص اہتمام ہوتا ہے۔ اس دن امام یا پھر کوئی بڑا عالم دین خطبہ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں ، جن کے افکار و خیالات جدید تقاضوں سے مذّین ہوتے ہیں ۔مساجد میں لوگ دل کھول کر چندہ دیتے ہیں ، اس لئے مساجد کے انتظامات  میں کسی طرح کی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ یوں تو جہاں پر ملی جلی آبادی یعنی مختلف مسلکوں کے لوگ رہتے ہیں ، وہاں پر کسی خاص مسلک کی پیروی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جہاں پر کسی خاص مسلک کی آبادی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں پر ان کی خاص مسجدیں ہوتی ہیں ۔ مثلاََ میں نے نیؤ یارک میں البانیوں کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی ، جہاں کا منمبر کافی اُنچائی پر تھا ، اور امام نے البانی زبان میں آیات کریمہ کی تشریح و تقریر کی ۔ اسی طرح ہیوسٹن میں بہت عالیشان اور بہت شاندار بوہرہ کی مسجد بھی دیکھی۔


        امریکہ کے تقریباََ ہر شہر میں رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی چاند رات کے میلہ کا زبردست اہتمام دیکھا جاتا ہے۔ وسیع و عریض ہوٹلوں کے ہال  میں طرح طرح کی دکانیں سجائی جاتی ہیں ، خاص طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس چاند رات میلہ کا خوب لطف اٹھاتے ہیں ، طرح طرح کے لباس، سجنے سنورنے کے سامان اور بھی بہت ساری چیزیں یہاں بکتی ہیں ، نوجوان لڑکے، لڑکیوں ، بچوں اور عورتوں کو  اس چاند رات کا  بہت شدت سے انتظار رہتا ہے، اس دن یہ لوگ بہت جم کر خریداری کرتے ہیں اور رات گئے تک چہل پہل رہتی ہے۔  


      عید الفطر کی نماز، یوں تو مساجد میں بھی ہوتی ہیں لیکن لوگ (مرد و خواتین ) عید الفطر کی نماز کے لئے بڑے مجمع میں نماز کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں ، جہاں بیک وقت پچیس سے تیس ہزا ر سے زائد لوگ عید کی نماز ادا کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ نما زکے لئے کوئی بھی گراؤنڈ یا ہال یہاں مفت میں نہیں ملتا ہے بلکہ ہزاروں ڈالر دے کر کچھ گھنٹوں کے لئے کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ نماز کے بعد اسی جگہ لوگ مرد ،عورتیں سبھی اپنے احباب سے ملتے ہیں ، دوردور رہائش کی بنأ پر لوگ اسی جگہ مل لیتے ہیں ، کمیٹی کی جانب سے مفت میں ڈونٹ (مٹھائی) وغیرہ کا بھی انتظام رہتا ہے، اس لئے لوگ ان مٹھایوں کا بھی لطف لیتے ہیں ، بعض خواتین اپنے لوگوں کے لئے اپنے گھر سے میٹھے پکوان لے جاتی ہیں اور اسی جگہ سب مل جل کر ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں ، یہ منظر آپسی محبت اور میل ملاپ کی بھرپور عکّاسی کرتا ہے۔


      رمضان اور عید کے سلسلے میں ایک طرف جہاں بڑی تعداد میں لوگ  Islamic Society of North America  
نامی تنظیم ، جس کا مرکز انڈیانا  میںہے، کے فیصلوں کو ،جو سائنسی نظام پر مبنی ہے، مانتے ہیں ، وہیں دوسری طرف کچھ لوگ  ICNA  کے ماننے والے چاند دیکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال یہاں  بھی چاند دیکھنے اور نہیں دیکھے جانے کے اصرار پر تنازعہ  دیکھا گیا۔ ویسے عام طور پر امریکہ کے مسلمان جس اتحاد، اتفاق، یکجہتی، اخوت، خود داری، شائستگی اور اسلامی شعار کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہ یقینی طور پر قابل تعریف ہے اور ان کی بعض تنظیمیں ، مخّیر خواتین و حضرات کے بھر پور تعاون سے،اپنے اپنے ممالک کے غریبوں، ناداروں ، مجبوروں اور بے کسوں کے لئے مالی امداد کرتے ہیں۔ جس کا صلہ انھیں اللہ پاک خوب دیتا ہے ۔یہ سب ایسا انسانی اور دینی عمل ہے ، جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 email: squadri806@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1815