غزل
اپنا شعور اپنی انا کھو چکے ہیں ہم
اب جاگنا پڑے گا بہت سو چکے ہیں ہم
اب راہ تک رہے ہیں ابابیل آئیں گی
حاصل جو تھا دعا میں اثر کھو چکے ہیں ہم
احساسِ کمتری کا ہوئے ہیں شکار یوں
اب احتجاج تک کا ہنر کھو چکے ہیں ہم
شکوا اگر کریں تو کریں کس زُبان سے
اک حق تھا اپنے پاس جسے کھو چکے ہیں ہم
اب کون بڑھ کے ہم کو گلے سے لگائے گا
کانٹے تو اپنے چاروں طرف بو چکے ہیں ہم
مرنے کے بعد دیں، تو تراہی حساب دیں
تا عمر زندگی تو تجھے ڈھو چکے ہیں ہم
کب تک نصیب ساتھ ہمارا نبھائے گا
اب اتنی بار پا کے تجھے کھو چکے ہیں ہم
اب تو ہمارے ہونٹوں کو مسکان بخش دے
اب تو نصیب سے بھی سوا رو چکے ہیں ہم
اب ظلم ہو رہے ہیں تو اس میں غلط ہے کیا
عادل کبھی کی سمت سفر کھو چکے ہیں ہم
اب جاگنا پڑے گا بہت سو چکے ہیں ہم
اب راہ تک رہے ہیں ابابیل آئیں گی
حاصل جو تھا دعا میں اثر کھو چکے ہیں ہم
احساسِ کمتری کا ہوئے ہیں شکار یوں
اب احتجاج تک کا ہنر کھو چکے ہیں ہم
شکوا اگر کریں تو کریں کس زُبان سے
اک حق تھا اپنے پاس جسے کھو چکے ہیں ہم
اب کون بڑھ کے ہم کو گلے سے لگائے گا
کانٹے تو اپنے چاروں طرف بو چکے ہیں ہم
مرنے کے بعد دیں، تو تراہی حساب دیں
تا عمر زندگی تو تجھے ڈھو چکے ہیں ہم
کب تک نصیب ساتھ ہمارا نبھائے گا
اب اتنی بار پا کے تجھے کھو چکے ہیں ہم
اب تو ہمارے ہونٹوں کو مسکان بخش دے
اب تو نصیب سے بھی سوا رو چکے ہیں ہم
اب ظلم ہو رہے ہیں تو اس میں غلط ہے کیا
عادل کبھی کی سمت سفر کھو چکے ہیں ہم
عادل رشید تلہری
*********************************