غزل
سب نے تسلیم کیا جادۂ منزل جانا
جن پہ آساں تھا اُنہیں نے اسے مشکل جانا
کیا تعجب کہ جو ہم حاک بہ سر پھرتے ہیں
ہم نے ہی تپتے ہوئے صحرا کو ساحل جانا
آگہی شہر کی گلیوں کی خبر رکھتی ہے
اور خرد نے اُسے ہر دور میں غافل جانا
اپنی تقدیر بدلنے کا ہنر آساں تھا
ہائے اجداد کہ تم نے اسے مشکل جانا
پوری دنیا تو دکھاوے کے فسوں میں گم ہے
یہ جو اندر ہے اسی نے مجھے باطل جانا
تم نے دنیا کو ہر اک شئے کا بدل مان لیا
اور میں نے تو ہتھیلی کا اسے تِل جانا
********************************