عاجز ہنگن گھاٹی
کہمن
جہیز
منظر:
رات ہمسائے کے گھر سے الاماں کا شور اٹھا
ہو رہا ظلم شدت سے کسی مظلوم پر
اُس کی چیخوں میں غضب کا سوز تھا، اک درد تھا
ہم نفس کوئی نہ تھا خاموش تھے، دیوار و در
جب سے شادی ہو کے آئی تھی ، پریشاں حال تھی
کیوں کہ وہ پیدا ہوئی تھی سر بسر مفلس کے گھر
الغرض ہمراہ اپنے مال و زر لائی نہ تھی
اس لئے سولی پہ وہ چڑھتی رہی شام و سحر
کہمن:
زندگی کے مسئلے پر مرد قادر ہے مگر
جل رہی ہیں عورتیں پھر بھی رواجی طور پر
کیوں یہ بیماری ہماری بیٹیوں کو لگ گئی
کیا علاج اِس کا نہیں کوئی سماجی طور پر
٭٭٭