عاجز ہنگن گھاٹی
کہمن
احساسِ کمتری
منظر
بے بسی، مجبوری، لاچاری کا گھیرا سخت تھا
عمر خود وحشت طلب تھی آگہی کی بھیڑ میں
رات کا سناٹا کروٹ لے رہا تھا خوف سے
دم بخود تھیں ظلمتیں بھی روشنی کی بھیڑ میں
ہو رہا تھا آسمانوں سے فرشتوں کا نزول
آس دستک دے رہی تھی خامشی کی بھیڑ میں
پھر بھی احساسات کی خندق سے وہ نکلا نہیں
موت نے انگلی پکڑ لی زندگی کی بھیڑ میں
کہمن:
مقصدِ عمر رواں پر تجزیہ کرکے تو دیکھ
خود کشی کب تک کرے گا لا شعوری طور پر
کیوں ہوئی تخلیق تیری، کس لئے زندہ ہے تو
خود وجودِ آدمیت پر کبھی تحقیق کر
٭٭٭