غزل
کرلیا کرتا ہوں اکثر مشورہ دیوار سے
یوں رہا کرتا ہے دل کا سلسلہ دیوار سے
کیا بتائوں بوجھ دل کا کس قدر ہلکا ہوا
لگ کے جب رویا میں پہلی مرتبہ دیوار سے
کیا ٹھکانہ کوئی دروازہ نکل آئے کبھی
بے سبب قائم نہیں ہے رابطہ دیوار سے
سر لہو کرنے میں اپنا خود رہا میں پیش پیش
مجھ میں وحشت ہی بہت تھی کیا گلہ دیوار سے
تھا تہی شب کا اثاثہ اک دیا بس اک دیا
آج وہ بھی ہوگیا ہے لاپتہ دیوار سے
کس سفر پر پائوں ہیں میرے جنوں تو ہی بتا
میں نکلتا دیکھتا ہوں راستہ دیوار سے
کر نہیں سکتے جب اس کا سامنا عاصم میاں
کیوں لگا رکھا ہے تم نے آئینہ دیوار سے
ڈاکٹر) عاصم شہنواز شبلی)
Department of Urdu
Maulana Azad College, Kolkata-700013
Mob: 9831156932
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………