غزل
عبد العلیم آسی
یہ ادائیں بھی میری وحشت کا ساماں ہو گئیں
نیچی نظریں آپ کی تار گریباں ہو گئیں
حسرتیں پھر کیوں نگاہوں سے نمایاں ہو گئیں
جب یہ چھریاں دل میں اتریں اور پنہاں ہوگئیں
شوخ نظریں زندگی کا میری ساماں ہو گئیں
بجلیاں امید بن کر دل میں مہماں ہو گئیں
کھول کر زلفیں مری تربت پہ پیٹا کس نے سر
عالم بالا کی سب حوریں پریشاں ہو گئیں
خندہ سے تمہید گریہ، عیش ہے غم کی دلیل
باغ میں کلیاں کھلیں ، کھل کر پریشاں ہو گئیں
یہ عروجِ حسن تھا، یا انقلاب آسماں
مصر کی گلیاں تجلی گاہ کنعاں ہو گئیں
دونوں عالم میں رہا، عشق و محبت کا ادب
خلد کی حوریں مری صحبت میں انساں ہو گئیں
عشق کی تکمیل بھی اک معجزہ ہے عشق کا
ہجر کی بے چینیاں اب راحت جاں ہو گئیں
چھیڑ وہ نغمہ اے جنوں جس سے ہو روح مشتعل
مستِ نشاط ہو، دماغ، ولولہ آفریں ہو دل
پھونک دے اے جمال یار ، خرمن آرزو مرا
اپنا مجھے دکھا مگر، جلوہ کیف مستقل
اس کے حریم ناز کا پایہ بہت بلند ہے
کم نہیں اپنا بھی مگر، حوصلہ جبینِ دل
اس کی عنایتیں نہاں ، اس کے ستم میں ہیں مگر
ہو جو نگاہ جلوہ سنج، ہو جو ادا شناس دل
تیرے نشاط درد کی چاہئے ایک لہر، بس
پھر نہ یہ جان ہو ملول، پھر نہ یہ دل ہو مضمحل
جس کا ہر اک ذرہ ہے رقص گہ جمال قدس
ہے وہی آستاں مرا، سجدہ گہہ نیاز دل
ہے وہ شرارِ معنوی ذرہ خاک میں مرے
جلوۂ روح قدسیاں، جس سے ہے پست و منفعل
٭٭٭