رفتہ رفتہ یہ زمانے کا ستم ہوتا ہے ایک دن روز مری عمر کا کم ہوتا ہے باغ روتا ہے اسیرانِ قفس کو شاید دامن سبزہ و گل صبح کو نم ہوتا ہے ہاتھ رکھے ہے دم نزع جر پر کوئی اب نہ بڑھتا ہے مرا درد نہ کمہوتا ہے ٭٭٭